کسی شخص کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ مر گیا ہے،بے حد آسان بات ہے،لیکن ایک یار،فنکار،اور عظیم انسان کے بارے میں اُس کی موت کا یقین کوئی آسان مرحلہ نہیں،بیتے ماہ و سال کی لوح پر سعید انجم اور میری انگنت ملاقاتوں کے انمٹ نشانات ہیں۔
سعید انجم سے میری دوستی بہت پرانی ہے،اس کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب وہ نیا نیا لاہور آیا تھا، لاہور۔۔۔۔جس میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں،لیکن نکلنے کا کوئی راستہ نہیں،لاہور کو اپنا شہر بنانے کے بعد جس کسی نے بھی مُڑ کر پیچھے دیکھا وہ وہیں پتھر کا بن گیا،سو سعید انجم نے بھی پلٹ کر نہ دیکھا،یہی وجہ تھی کہ ہر گزرنے والا دن میرے اور اُس کے درمیان دوستی کی زنجیر میں ایک کڑی کا اضافہ کرتا جاتا،ہم سارا سارا دن لاہور کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے،سیاست کرتے،کہانیاں لکھتے،غزلیں کہتے اور ترقی پسند لوگوں کے درمیان دن مناتے اور گزارتے۔
اُسے بھی میری طرح گئے زمانے کے روگوں کو ذہنوں میں پالنے سے نفرت تھی۔۔سارا شہر اُسے اپنا معلوم ہوتا،شاید اس لیے کہ یہاں کی دو گز زمین بھی اُس کی اپنی نہ تھی۔
ہماری اوئل عمرکے پندرہ سولہ سال لاہور کی گلیوں،سڑکوں،پارکوں،ہوٹلوں،ٹی ہاؤسوں،فلم سٹوڈیوز،اور آرٹس کونسلوں میں سوتے جاگتے بیت گئے،اور لگتا رہا کہ سارا شہر اپنا گھر ہے،جس سے بھی ملنا ہوگا وہی اپنا۔۔۔لاہور کی تپتی سڑکوں پر مٹر گشت کے بعد جب کبھی ہم ٹی ہاؤس کے جھولتے پنکھوں کے نیچے بیٹھتے تو جیسے ٹھنڈی ہواؤں میں اُڑنے لگتے۔۔لیکن نہیں۔۔ہمارے پَر کہاں تھے،ہاں پھر بھی ہم اُڑتے پھرتے تھے،مگر وقت کی اُڑان کے باوجود کیا مجال جو کہیں پہنچ پائے ہوں،لیکن ہمیں پہنچنا بھی کہاں تھا؟۔۔۔۔
جسے راستوں سے ہوکر راستوں تک جانا ہو،وہ کہیں بھی جاپہنچتا ہے۔۔
پھر یوں ہوا کہ میں نے یورپ کا راستہ ناپ لیا،میرے کچھ ہی عرصے بعد سعید انجم بھی ناروے آگیا۔شاید میں اپنے دوستوں اور ہمعصروں میں پہلا بدقسمت یا خوش قسمت شخص تھا جس نے اپنے پیچھے آنے والوں کو ہجرت کا راستہ دکھایا،میں نے سعید انجم کو لکھا۔۔
غم درو دیوار کا دُونا ہوا
ہم تو نکلے شہر بھی سونا ہُوا۔
کہتے ہیں زندگی کے کنارے پر پانی ہی پانی ہے، اوراس پانی میں اُتر کر نامعلوم کہاں پہنچنا ہوتا ہے،یا شاید پانی کا یہ سفر بے کنار ہوتا ہے،اس لیے آج تک یہی محسوس ہوتا رہا ہے کہ بدستور پانی پر چل ر ہا ہوں،اور پاؤں ہیں کہ زمین پر ٹک نہیں پارہے، یا پھر مجھے پاؤں ٹکانے پر قدرت نہیں رہی،سعید انجم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔۔۔
کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں نے ہالینڈ میں پورے پندرہ سال اُس کی اُمید اور انتظار میں گزار دیے،کہ کب یہاں سے کوچ کا نقارہ بجے گا،کب روانگی کی تدبیر ہوگی، تیس سال پہلے میری بیوی متھلڈلے اکثر سٹپٹا کر پوچھا کرتی تھی۔۔۔
آخر تم کہاں اور کس کے پاس جانا چاہتے ہو؟۔۔
ہاں،کہاں؟کس کے پاس؟۔۔میں اُسے سمجھاتا تھا کہ میں اپنے پاس جانا چاہتا ہوں،وہ کھلکھلا کر ہنس دیتی،مگر تم تو یہیں ہو۔۔۔
اگر میں واقعی وہیں تھا تو میرا کسی سے ملنا کیوں نہ ہوتا تھا،؟اپنے آس پاس سے کیونکر میرا رابطہ نہ ہوپاتا تھا۔۔۔
سعید انجم کے ساتھ بھی کچھ ہی تھا۔۔
میری بیوی کہا کرتی تھی۔۔خدا کاشکر ادا کیا کرو کہ راستہ بھول کر بھی تم سیدھے اس صاف ستھری جنت میں داخل ہوئے ہو۔۔
واقعہ یہ ہے کہ سعید انجم کی بیوی طلعت بھی اسے یہی کہا کرتی تھی۔۔
اوسلو اس کے لیے اجنبی شہر تھا،اس غیر مانوس ماحول میں لاہور ے مانوس ٹھکانے اکثر خواب گاہوں کی مانند اس کے ذہن سے اُبھرتے رہتے تھے،گئے ایام کے سپنے دیکھنا، اسے بھلا معلوم ہوتا تھا،مگر روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو آدمی کو بار بار سرجھٹک کر سپنوں سے باہر آنا ہوتا ہے۔وہ مشرق اور مغرب میں ہر مقام کو اپنا گھر بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا،یہاں تک کہ وہ دشت کو بھی اپنا گھر بنا سکتا تھا،وہ زمانے کی شوخ چشمی کا حوالہ دے کر جہانِ خراب میں آباد ہونے کا سلیقہ جانتا تھا۔زمانے کی گرفت سے بچ کر زمانے کی دوڑ میں اس کا ساتھ دینے اور پیچھے نہ رہنے کی ہمت رکھتا تھا۔بہار ہو یا خزاں،ہر موسم میں شگفتہ رہنے اور رکھنے کا راز جانتا تھا۔محفلِ یاراں میں وہ زندگی کی ایک لہر بن کر رہا،اور بادِ نسیم کے جھونکے کی طرح چمن سے رُخصت ہوگیا۔
سعید انجم جو پندرہ بیس سال تک بچوں کو پڑھانے کے عوض غیر ملکیوں کی آسائشوں اور ذلتوں میں اپنا حصہ ڈالتا اور وصول کرتا رہا،لیکن جب کبھی اُسے دام سے نکلنے کا موقع ملتا وہ بے تحاشا اُڑ کر لاہور جاپہنچتا،کہ اُسے زندگی سے محبت تھی۔۔۔مگرزندوں کو اپنے طلسم سے باہر تو نکلنا ہی ہوتا ہے،جو شہر ہمیں اس قدر عزیز ہوجیسے لاہور ہے،اس سے باہر آتے ہوئے اصل میں ہم اسے دل ہی میں بسائے ہوتے ہیں،لاہور کو چھوڑے ہوئے مجھے پون صدی ہوگئی ہے،یا کچھ اس سے بھی زیادہ مگر یہ شہر جوں کا توں میرے دل و دماغ میں بسا ہوا میرے جذبوں میں سانس لے رہا ہے۔
وہ کہاکرتا تھا کہ نوکری یہاں اوسلو کی ہو اور رہنا لاہور کا۔۔۔اوسلو آئے ہوئے اُسے پچیس برس ہوگئے تھے،یہاں رہتے ہوئے وہ نامعلوم کہاں رہتا تھا،شاید لاہور میں۔۔۔شاید اپنے ذہن میں۔اپنے ماضی،حال اور مستقبل میں کو اب یہیں جئے جارہا تھا،لیکنجب بھی اس کا اوسلو سے لاہور جانا ہوا،تو وہ ساری مدت ایک پل میں جی لتا تھا،کبھی کبھی مجھے کہتا۔۔مفتی،بڑھاپا لاہور میں گزاریں گے،۔۔کیوں،تیار ہو؟
میں سوچتا بڑھاپے کو شاید ہم ا س عمر میں اپنی ساری زندگی کی تگ و دو،دوڑ دھوپ کا انعام قرار دیتے ہیں،کہ آخری عمر میں اسی شہرِ آرزو میں بسنا چاہتے ہیں کہ جب جب جی چاہے گا،گزشتہ زندگی کے سارے طوفان،حادثے،بہاریں،جدائیاں،تنہائیاں،اورمحبتیں یہیں نہائیت سکون سے جی لیں گے،اور آخری سانس تک جیتے رہیں گے،جب مجھے کسی ایسی موت کی خبر ملتی ہے جو شہرِ آرزو میں بسنے سے پہلے ہی زندگی کھو بیٹھا ہوتو میں ایک عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہوں،مگر سوچتا ہوں کہ سعید انجم ہی کیا،ہر کسی کا شہرِ آرزو تو ہر سرحد سے پرے بسا ہوتا ہے لیکن زندگی کی سرحد سے دور یا پرے نہیں۔۔۔
زندگی تم یہیں کہیں رہنا
میں زمانہ بدل کے آتا ہوں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں