چٹا گانگ کے اِس اعلیٰ درجے کے چینی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اُسے شدید خفّت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ایسے کھانے اور کھانوں کے یہ ایٹی کیٹس بھلا اُس نے کب دیکھے اور کہاں سیکھے تھے؟ وہ تو اپنے گھر کے چھوٹے سے باورچی خانے میں کالج جانے سے پہلے اور واپس آکر چھوٹی سی چوبی چوکی پر جا کر بیٹھتی۔ اماں گر م گرم پھُلکے اُتارتی جاتی اور وہ سب بہن بھائی باری باری کھاتے جاتے۔ کبھی کبھی جب اتفاق سے وہ اکٹھے ہو جاتے تب اُن کے درمیان لڑائی ہوتی پہلا پُھلکا میرا۔ وہ زور سے چلاّتی۔
”مجھے بُہت بھوک لگی ہے۔ پہلا میں کھاؤں گا۔“
اُس کا چھوٹا بھائی یونیفارم اُتارے بغیر ہی بھاگ کر آجاتا اور اُسے پیچھے دھکیلنے لگتا۔
کبھی کبھی ماں چہرے پر محبت وپیار کی مسکراہٹیں سجائے اُنہیں دیکھتی اور پیار بھری خُفگی سے کہتی۔
”لڑتے کیوں ہو میں نے تو آنکھ جھپکتے پُھلکوں کا ڈھیر لگا دینا ہے تم کھانے والے بنو۔“
اور واقعی ایک کے بعد ایک روٹی توے سے اُتر کر چنگیر میں آتی جاتی اور وہ سب کھاتے جاتے۔
کبھی کبھی ماں کھانا ختم ہونے کے بعد اُن سبھوں سے کہتی۔
شُکر ادا کرو اللہ کا۔
باقی سب تو خاموش ہی رہتے پر وہ ضرور کہتی۔
“ماں تم بھی کمال کرتی ہو۔کیوں شکر ادا کریں؟اُس نے کونسا ہمیں انڈے مرغے کھانے کو دئیے ہیں۔ہر روز مُسور کی پتلی دال۔یہ بھی نہ دے گا تو کیا خاک دے گا کھانے کو۔
ماں توبہ توبہ استعفار کہتے کانوں کو ہاتھ لگاتی اور ساتھ ہی اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کردیتی۔اُس کے بھائی بہن ہنستے۔منجھلاوالاماں کو مزید چڑانے کیلئے کہتا۔
”ماں نجمی ٹھیک کہتی ہے۔دیکھو نا مسور کی دال کھا کر شکر ادا کرنا شروع کر دیا تو اللہ کو اتراہٹ آجائے گی۔اور وہ ہمیں کبھی اچھے کھانے نہیں دے گا۔
اس سے پیشتر کہ ماں جُوتا اٹھا کر اُسے مارتی وہ بھاگ کھڑا ہوتا۔بڑا بھائی ماں کے گھٹنے پکڑ لیتا اور ہنستے ہوئے کہتا۔
واہ ماں تم تو یونہی خفا ہونے لگ جاتی ہو۔ارے یہ تو ہمارا اُس نیلی چھت والے سے ہنسی مخول ہے۔ماں اس پر اور بھی تلملاتیں۔
”لو وہ ان کے ہنسی مخول کے لئے ہی تو ہے۔ میں کہوں تمہاری عقلوں پر کیوں جھاڑو پھر گیا ہے۔یازیادہ پڑھنے سے تمہارے دماغ خراب ہوتے جارہے ہیں۔“
”میں تو حیران ہوں۔وہ ماتھے پر ہاتھ مارتی تمہیں کالجوں میں یہی تمیز سکھاتے ہیں۔یہی بتاتے ہیں کہ اُس دوجہاں کے بادشاہ کی شان میں ایسے گستاخی کے کلمات نکالو۔“
”ارے ماں۔“ بڑا بھائی دُبلی پتلی ماں کو اپنے کلاوے میں بھر کر چکریاں دیتا اور کہتا۔
”تم کڑھا مت کرو۔ وہ انسانوں کی طرح تھُڑدلا نہیں۔بڑا جگرے والا ہے۔ غصہ نہیں کرتا ہم بچوں کی باتوں کا۔“
ایسی ہی ٹھٹھول بازی میں وہ ہنستے مُسکراتے قہقہے لگاتے بکھر جاتے۔
ہلکی نیلی دیواروں والے اُس بے حد خوبصورت کمرے میں جس کی چھت سے لٹکتے فانوسوں سے چھنتی روشنی بڑا لطیف سا احساس پیدا کر رہی تھی۔ آرکسٹرا بُہت دھیمے سُروں میں بج رہا تھا۔ چکنی شفاف میزوں پر گلاسوں میں ٹھُنسے سفید نیپکن اچھے لگ رہے تھے۔چُھری کانٹوں کی کھنک، خوش ذائقہ کھانوں کی مہک، ساتھی لڑکیوں کی کانٹوں چمچوں سے کھیلتی اُنگلیاں،داہنے ہاتھ بیٹھے ہائی جینٹری سے تعلق رکھنے والے مرد جو کھانے کے ساتھ ساتھ بڑی اینٹلیکچوئیل قسم کی گفتگو کر رہے تھے۔ سبھی ٹھیک تھے۔
اور اگر ٹھیک نہیں تھی تو وہ لڑکی جو بھوک سے بے حال ہو رہی تھی۔ جس کا جی چاہ رہا تھا کہ میز پر پڑے اُن خوشنما کھانوں پر ٹوٹ پڑے اور بغیر ڈکار لئے سب کچھ ہضم کر جائے۔
پر یہ کہیں ممکن تھا؟
اورو ہ وجہیہ اور پُر وقار چہرے والا مرد جو اپنے ساتھی مرد کے ساتھ باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ اُس لڑکی کی بھی ایک ایک حرکت کا تفصیلی جائزہ لے رہا تھا۔
اُس کی خوبصورت پیشانی اور ہونٹوں کے بالائی حصّے پر پسینے کے ننھے مُنے قطروں نے گویا ہیرے سے سجا دئیے تھے۔ ایسا من موہ لینے والا حُسن جسے باہر کی دُنیا کی ہوا ہی نہ لگی ہوکودیکھتے ہوئے محظوظ بھی ہو رہا تھا۔
کھانے کے بعد جب وہ دونوں تھوڑا سا آرام کرنے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں آئے۔شمس الدین عرف گورا نے اُسے تعجب آمیز حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”یا رمیں حیران ہوں۔ان اچھی بھلی معزز اور شریف گھروں کی لڑکیوں کو تم کیسے لے آئے؟
وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔گورا کی اِس بات پر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔سگریٹ جلایا اور گہرا کش لیتے ہوئے خفیف سا مسکرایا بھی۔
خیال رہے میں بھی کم معزز نہیں۔دوسرا رہا سوال لانے کا تو بھئی اِس کا کریڈٹ مجھے نہیں اُس ویسٹ پاکستانی لڑکی کو جاتا ہے جس کا نام نجمہ ہے۔تھوڑا سا کردار صبیحہ کا بھی ہے۔
تم کچھ زیادہ چوڑ نہیں ہوگئے ہو۔بھابھی کو پتہ چل گیا تو تمہاری کھنچائی تو جو ہوگی سو ہوگی۔میری کھلڑیکی بھی خیر نہیں۔
”کھُلی چھٹیاں۔طاہرہ آج کل کلکتے میں ہے۔“
”اوہو۔ تبھی۔“ گورا نے قہقہ لگایا۔
اور اُس نے اِس بات پر کچھ کہنے کی بجائے یہ پُوچھا۔
”کہو رانگا متی چلتے ہو؟“
”نہیں یار بُہت کا م ہے۔ پرسوں کاکسِس بازار کے لئے ساتھ دوں گا۔“
کوئی دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد لڑکیاں نہانے، لباس تبدیل کرنے کے بعد تازہ دم چٹاگانگ شہر کی سیر کے لئے تیار تھیں۔ ہنستے مُسکراتے چہروں اور رنگارنگ ملبوسات سے اُٹھتی ہوئی مختلف پرفیومز کی بھینی بھینی خوشبوئیں اُڑاتی، چہکتی، گُنگناتی لڑکیاں جب اُس کے کمرے میں داخل ہوئیں اُسے محسوس ہوا تھا جیسے بہار رقص کرتی جُھومر ڈالتی اُس کے آنگن میں اُتر آئی ہے۔
وہ اُس وقت اپنی ذاتی کمپنی کے ڈرائیور کو گاڑی کے بارے میں ہدایات دے رہا تھا کہ صبح رانگامتی کیلئے اُسے کونسی گاڑی چاہیے ہوگی۔
بس یہ اُس کا کما ل تھا کہ لڑکیوں کے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل اُس نے اِس خوبی سے ہیر پھیر کیا کہ نجمہ اُس کے پاس اگلی نشست پر بیٹھی۔
رانگا متی کا راستہ بُہت خوبصورت تھا۔ ریڈیو پر نشر ہونے والے گیت بھی اتفاقاًایک تسلسل سے کمال کے تھے۔امنگیں بیدار کرنے اور ہلچل مچانے والے۔پاس بیٹھی لڑکی نہ صرف حددرجہ حسین تھی بلکہ معصوم اور بھولی بھالی عین اُس کی دیرینہ تمنا اور آرزو کے مطابق۔وہ شگفتہ پھول کی طرح کھِلا گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ اُن سب کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔
ثریا، نازلی، صفیہ اور صبیحہ سبھی زوروشور سے باتوں میں جُتی ہوئی تھیں۔ وہ البتہ خاموش تھی۔ دائیں بائیں دیکھتے ہوئے معلوم نہیں اُسے کیا ہوا۔ دل شدت سے دھڑکا۔ سرگھومتا ہوا محسوس ہوا۔ اُس نے سر سیٹ کی پُشت سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
اُس نے یہ سب دیکھا اور گاڑی سڑک سے نیچے اُتار کر روک دی۔
”باہر نکلو۔ تازہ ہوا میں تھوڑی سی چہل قدمی کرو۔“
میناؤں کی طرح چہکتی وہ سب بھی چونکیں۔ چاروں نے آگے کی طرف جھُکتے ہوئے اُس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟
اُس نے اصرار سے اُسے باہر نکالا۔ ٹھنڈی خوشگوار ہوا اُس کے چہرے سے ٹکرائی۔ اُس کے وجود سے بغل گیر ہوئی۔ اُسے سکون سا محسوس ہوا۔ جب وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے لگی۔اُس کا جی چاہا وہ صبیحہ سے کہے کہ وہ آگے بیٹھے۔ لیکن وہ ایسا نہ کہہ سکی۔
رانگا متی پہنچے تو جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔ کھیدا کھیلا جا رہا تھا۔ مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران آئے ہوئے تھے۔ سارے سرکٹ ہاؤس پُر تھے۔
وہ تھوڑا سا گھبرا یا اور اپنے آپ سے بولا۔
”کمال ہے مجھے تو یا د نہیں رہا۔ پر اُس کمبخت گورا نے بھی بات نہیں کی۔ اب کسی نہ کسی واقف کار کا ملنا ناگریز ہے۔اُس نے کوفت اور بیرازگی سے سوچا۔
اُونچی اور اہم پوسٹوں پر کام کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بندے کی نجی زندگی فوراً نگاہوں میں آکر زبانِ زد عام ہو جاتی ہے۔بہتر ہے لڑکیوں کو اکیلے ہی گھومنے پھرنے دیا جائے۔
کِسی محفوظ سے ہوٹل میں کمرہ ڈھونڈنے کی ساری کوشش اُس نے اکیلے کی۔ کمرے ملے تو ضرور پر صر ف دو۔
وہ تذبذب میں ڈوبا دیر تک سوچتا رہا اور پھر اُن کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
”بھئی فیصلہ کرلو لڑکیو۔ کیا ہونا چاہیے؟ کمرہ چھوٹا ہے اور تمہیں اِس میں تنگی تو ضرور ہوگی۔ پر مجبور ی ہے۔“
صورت حالِ کی سنگینی اُ ن کے سامنے بھی تھی۔ وہ سب بھی اِس سے آگاہ تھیں۔
وہ تو خاموش ہی تھی۔ ثریا اور صبیحہ نے کہا۔
”خیر ہے۔ رات ہی تو گذارنی ہے۔“
لہذا ”خیر ہے“ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
”ہرطرف سے جواب سُن سُن کر مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے یہ رات رانگا متی کی سڑکوں پر ہی گذرے گی۔“
صبیحہ نے سامان کو کمرے میں سلیقے سے رکھتے ہوئے کہا۔
چیختے چلاتے اور شور مچاتے انسانوں سے پُر وسیع وعریض ڈائننگ ہال میں غربی کونے کی میز پر بیٹھتے ہوئے اُسے احساس تک نہ ہوا کہ وہ اُس کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہوا ہے اور مینو کارڈ پر جھُکا مختلف آئٹمز پر نشان لگانے میں مصروف ہے۔
وہ ایک بار پھر اُسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر ساری جان سے لرزی تھی۔
”سیتاناس دوپہر بھی بھُوکی ہی رہی تھی اور اب بھی لگتا ہے خالی پیٹ ہی اُٹھوں گی۔ بیٹھ گیا ہے میرے کلیجے پر چڑھ کر۔“
اُس نے غصّے اور بے چارگی سے اپنے آپ سے یہ کہا اور نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ساس کا پیالہ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے اُ س نے کہا۔
”سوپ میں اِسے ڈالو۔ اچھی طرح ملاؤ اور پھر کھاؤ۔ لذید لگے گا۔“
کھانے کے دوران اُ س نے یوں تو ساری لڑکیوں کی طرف ہی توجہ دی مگر اُس کا خصوصی خیا ل رکھا اور وہ تھی کہ خجالت کے بوجھ تلے دَبی جا رہی تھی۔
”ارے یہ لوگ کیا سوچتی ہوں گی؟“
اُس نے بار بار چور آنکھوں سے اُنہیں دیکھا اور اپنے آپ سے کہا۔
ثریا یا نازلی اور صفیہ کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ روشن اور آزاد خیال گھرانوں کی پُروردہ و ہ ا لٹراموڈرن لڑکیاں جو اُ س کی دوست بھی تھیں اور اُس کے ساتھ مخلص بھی۔ اُس وقت تو یوں بھی وہ باتیں کرنے اور کھانا کھانے میں جُتی ہوئی تھیں۔
ہاں البتہ صبیحہ کی آنکھو ں میں اُس نے عجیب نفرت بھرے جذبات محسوس کئے تھے۔
”لعنت ہے اِس پر۔“ اُ س نے اپنے دل میں اُسے کوسا۔
”بھلا سنپولیے جیسا زہر اُ س نے کیوں اپنی آنکھوں میں بھر لیا ہے؟ اُس کا اپنا کوئی چکر ہوگا۔“
کھانا کھانے کے بعد وہ سب باہر آگئے۔ فضا تاریک تھی۔ سارے میں سناٹا تھا۔ دکنی ہواؤں میں تیزی تھی۔ یہ تیزی بالوں کو اُڑائے دیتی تھی۔ بار بار منہ کی طرف دوڑتے بھاگتے بالوں کو روکتے روکتے وہ عاجز آگئی تھی۔
دائیں طرف ندی تھی۔ ندی کے موڑ کے پاس ہی پہاڑی پر پاور ہاؤس تھا۔ اِس سناٹے میں مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ بڑی واضح تھی۔
وہ چاروں سڑکوں پر ٹہلتی رہیں۔ صبیحہ کمرے میں چلی گئی تھی اور وہ لاؤنج میں بیٹھاسگار پیتا اور اگلے دن کی پلاننگ کرتا رہا۔
صُبح وہ بُہت سویرے جاگی تھی۔ سب ابھی سوتے تھے۔ پنجوں کے بل چلتی وہ باہر آگئی۔
صُبح کا پُرنور اُجالا سارے میں بکھرا ہوا تھا۔ اسوک کے پھولوں نے سبزے کی طراوت نے اور سرکٹ ہاؤس کی دیواروں پر کاسنی پُھولوں کی بیلوں نے فضا کو حسین بنا یا ہوا تھا۔ وہ دیر تک وہاں بیٹھی فطرت کے حُسن کو دیکھتی رہی اور اُس وقت چونکی جب ثریا اُسے تلاش کرتی وہاں آئی۔
”عجیب تھرل سیکر ہو تم بھی۔“
”ارے میں تو تم لوگوں پر کھول رہی تھی۔ اتنی خوبصورت جگہ پر دن چڑھے تک سونا اور صُبح کے حُسن کی دید سے محروم ہونا تو نری بدذوقی ہے۔“
”اچھا ورڈز ورتھ کی بھتیجی۔چلو اُٹھو۔ ناشتے کے لئے جانا ہے۔“
ناشتے پر ہی اُس نے اُنہیں بتایاکہ اُن کے سیر سپاٹے کا اُس نے انتظام کر دیا ہے وہ اُنہیں آج کمپنی نہیں دے گا۔اُسے یہاں آئے ہوئے کچھ لوگوں سے ملنا ہے۔
چائے کا سِپ لیتے ہوئے اُس نے کپ کے کناروں سے جھانک کر اُس لڑکی کو دیکھا تھا جس کا چہرہ سُرخ گلاب کی طرح کھِل اُٹھا تھا۔وہ سب سمجھا اور مُسکراہٹ ہونٹوں میں دبا گیا۔
ڈرائیور بمعہ گاڑی حاضر تھا۔ وہ اُس میں بیٹھیں اور گاڑی کو لتار کی سڑکوں پرچکر کاٹنے لگی۔ کرنا فلی دریا نیچے زورشور سے بہہ رہا تھا۔ اُس نے دیکھا لکڑی کے بڑ ے بڑے گٹھے پانیوں پر بہتے جا رہے تھے۔ ڈرائیور نے بتایا۔
”یہ گھٹے چندر گونا پیپرمل کے لئے جا رہے ہیں۔“
ٹرانسپورٹ کے اخراجات سے بچنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ ثریا معاشیات کی طالبہ ہونے کی وجہ سے معاشی بچت کے پہلوؤں کا جائزہ لے رہی تھی۔ سرکاری جیپ گاڑیاں سڑکوں پر دندناتی پھر رہی تھیں۔
ایک جگہ گاڑی رُک گئی۔ وہ سب نیچے اُتر آئیں۔
وہ لمبی چوڑی جھیل کے کنارے پر کھڑی تھیں۔ جس میں موٹر کشتیاں چلتی تھیں۔ بانسوں سے بنے ریسٹ ہاؤس نظروں کو بھلے لگتے تھے۔ کرنا فلی کا ڈیم جہاں ہائیڈروالیکڑک پاور کا بُہت بڑا سٹیشن جو سارے صوبے کے کارخانوں کو بجلی سپلائی کرتا تھا۔
کشتیوں میں بیٹھ کر اُنہو ں نے جھیل کی سیر کی۔ کنارے پر پہنچ کر اُس داستان کو سُنا جو اُس جھیل کے بننے سے یہاں دفن ہو گئی تھی۔
چکمہ راجے کی راجباڑی، دارجلنگ کے کوکونٹ کی پڑھی ہوئی اُس کی حسین رانی اُن کا محل اور اُن کی محبت کی کہانی۔
دُھوپ بُہت چڑھ آئی تھی جب وہ رانگا متی کے بازار میں پہنچیں۔ ہاٹ (بازار) میں مختلف جگہوں کے سُوتی کپڑے، مونگے، موتیوں کے ہار اور بُندے، قیمتی پتھر۔ دوکانوں میں چپٹی ناکوں اور تکونی آنکھوں والی چکمہ عورتیں جو مہارت سے بھاؤ تاؤ کرتی تھیں۔
اُنہوں نے اپنے جسموں پرجو کپڑے پہن رکھے تھے وہ ویسے ہی تھے جسے وہ بچپن میں اپنی گڑیوں کو پہنایا کرتی تھی۔پاؤں سے اُونچے تنگ سکرٹ اور بلاؤز نما۔
ثریا اور نازلی نے کافی چیزیں خریدیں۔ صفیہ نے لمبے لمبے پائپ پیتی پہاڑی عورتوں سے کھُل کر باتیں کیں۔ اُنہیں غصہ آر ہاتھا اُن پر۔ کمبختیں خود محنت کرتی ہیں اور مردوں کو تاڑی چرس پینے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔
”نہیں بھئی اب اتنے بھی ہڈ حرام نہیں جتنے آپ سمجھ رہی ہیں۔“ ڈرائیور نے وضاحت کی۔
”انناس اُگاتے ہیں۔ چاول بوتے ہیں۔ خطرناک جنگلوں سے بانس کاٹ کاٹ کر نیچے لاتے ہیں۔“
آپ لوگوں کی اطلاع کے لئے ریڈ چائنا یہاں سے بُہت قریب ہے۔ اُن پہاڑوں سے ذرا سا آگے بڑھ کر۔
ساری لڑکیوں نے تجسس سے بھری آنکھوں سے نیلے دھوئیں کے غبار میں لپٹی پہاڑیوں کو دیکھا اُن کا بس نہ چلتا تھا کہ کیسے جست لگا کر ریڈ چائنا کے دامن میں پہنچ جائیں۔
کپتائی جھیل کی سیر سے لُطف اندوز ہوئیں۔ ہریالی، تازہ جھینگوں کا شوربہ، روسٹ او ر سلاد۔ کھانے کا مزہ آیا۔ اُس نے ڈٹ کر کھایا۔ اگلی پچھلی کسر نکالی اور ساتھ ہی یہ دُعا بھی کی۔
”پروردگار کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے اُس گارجیئن کو روز کوئی نہ کوئی کا م پڑجائے اور وہ ہمیں اکیلے سیر سپاٹے کے لئے بھیج دیا کرے۔“
اور جب واپسی کے لئے چٹا گانگ کے لئے روانہ ہونے کے لئے گاڑی میں بیٹھے وہ اُنہیں بتا رہا تھا کہ اگر اُ س کے پاس وقت ہوتا تو وہ اُنہیں بند ر بن کاعلاقہ دکھاتا۔ بندر بن کے جنگلوں میں چکمہ اور مونگ قبیلوں کے لوگ بانسوں کے جھونپڑوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ خوبصورت اور خونخوار جانور اُن کے ساتھی بھی ہیں اور دشمن بھی۔ اِن جنگلوں میں دلکش پہاڑی لڑکیاں جب سیرونگ باندھے گزرتی ہیں۔ تب جنگل اتنے خوفناک نظر نہیں آتے۔ یہاں بُدھ بھکشو بھی ملتے ہیں۔ دفعتاً اُس نے رُخ پھیر کر پیچھے اُس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔
”نجمہ آپ نے کبھی بدھ بُھکشو دیکھے ہیں۔“
اُس نے سادگی سے اپنی لابنی پلکیں جھپکائیں اور سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔
”نہ میں نے دیکھے ہیں اور نہ مجھے اُن کے متعلق کچھ علم ہے۔“
شام یقیناً بُہت خوبصورت ہوگی۔ شفق ضرور خلیج بنگالہ پر اپنا حُسن بکھیر رہی ہوگی۔ مگر چٹا گانگ کی نیومارکیٹ کی Escalators پر با ربار اُترتے اور چڑھتے ہوئے اُن لڑکیوں کو سلونی شام کے حُسن سے لُطف اندوز ہونے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ البتہ ضرور چاہ رہا تھا کہ اس وقت انہیں ساحل پر ہونا چاہیے۔رانگا متی سے واپسی پر آرام کرنے کے بعد وہ نیو مارکیٹ میں آگئے اور اب لڑکیاں مارکیٹ سے نکلنے کا نا م نہ لے رہی تھیں۔
ایک دُکان سے اُس نے چند وئیو کارڈ خریدے۔ بیرونِ ملک اپنے تینوں بہن بھائیوں کے نام پتے اُن پر لکھے۔ پہلی بار اُس نے اُن کے ناموں کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا اور اپنے نام کے ساتھ بھی۔
اگلے دن وہ کاکس بازار میں تھے۔ دوپہر کو چلے تھے اور مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ کھانے سے فارغ ہو کردو منزلہ ریسٹ ہاؤس میں آئے۔ بستر پر نیم دراز ہوئی تو غنودگی کے بوجھ سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔ کانوں میں ملحقہ کمرے سے آتا شور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح لگ رہا تھا۔
نازلی ”بابل تیرا نیراچھوٹو جاہے ہے“ اُونچے اُونچے گا رہی تھی۔ ساحل سے موجوں کی مہیب آوازیں فضا کو بُہت پُراسرار بنا رہی تھیں۔ کھڑکی کے شیشوں سے وی۔آئی۔ پی ریسٹ ہاؤس کی سفید عمارت لقی کبوتری کی طرح نظر آ رہی تھی۔
وہ نیند کے غبار میں ہولے ہولے ڈوبے جا رہی تھی۔ سب لوگوں نے اُسے کہا بھی کہ وہ بیٹھے اور تاش کھیلے۔ پر اُسے تاش کھیلنا آتا ہی نہ تھا اور اپنے آپ کواس محفل میں اجنبی محسوس کرنا اُسے عجیب سالگتا تھا۔ خجالت اور شرمندگی کے احساسات سارے سریر میں دوڑنے لگتے تھے۔تھکاوٹ اور نیند کی آڑ لی۔یوں بھی وہ کچھ نڈھال سی ہو رہی تھی۔
صُبح جب اُس کی آنکھ کھُلی۔ باتھ رُوم سے شل شل پانی کے گرنے کی آواز آرہی تھی۔ صفیہ دوسرے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ اُس کی کھُلی آنکھیں دیکھ کر بولی۔
”خدا کا شکر ہے کہ تم بیدار ہوئیں۔ لگتا تو یوں تھا جیسے اب کوئی صور اصرافیل ہی بجائے گا تو تمہاری نیند ٹوٹے گی۔ رحمان بھائی کب سے چلاّ رہے ہیں کہ تم لوگوں کو بُہت سویرے ساحل پر جانا چاہیے۔ دن چڑھے لہروں کا اُتار چڑھاؤ کم ہو جاتا ہے۔“
صفیہ بڑی لا اُبالی قسم کی لڑکی تھی۔ من موجی سی۔ اُس نے اُسے ٹام بوائے کانا م دے رکھاتھا۔ آنکھ کھُلتے ہی اُس ٹام بوائے کا یہ بورسا لکچر اُسے ناگوار گذرا۔ اُ س نے اُٹھنے کی کوشش کی پر اپنے اُوپر ایک خوش رنگ قیمتی کمبل دیکھ کر حیرت زدہ سی ہوگئی۔
”ارے یہ کس کا کمبل ہے اور میرے اُوپر اِسے کس نے ڈالا؟“
”بھئی رحمان بھائی اپنا ڈال کر گئے تھے۔ رات بُہت ٹھنڈہوگئی تھی۔ تم تو دُھت سو رہی تھیں۔“
صفیہ نے یہ سب بتانے کے ساتھ ساتھ تکیہ اُٹھاکر دھپ سے بیڈ کی پائنتی پر مارا اور اُس پر سر رکھتے ہوئے غسل خانے کی طرف رُخ کرتے ہوئے چلاّئی۔
”بھئی صبیحہ بیگم اگر آپ باتھ رُوم سے جلدی نکل آئیں تو یہ بندی آپ کی ممنون ہوگی۔ پلیز اپنے اشنان کو ذرا مختصر کر دیجئے نا۔“
وہ گُم سُم بیٹھی تھی۔ صفیہ نے کمبل ڈالنے کا ذکر عمومی انداز میں کیا تھا جیسے یہ کوئی خاص بات نہ ہو۔
کسی کے لئے خاص بات ہو یا نہ ہوپر وہ تو جی جان سے دہل گئی تھی۔ اُس کا دل سینے میں اِس شدت سے دھڑکا تھاجیسے وہ گوشت پوست کے سارے پردے چیر کر ابھی باہر نکل جائے گا۔
وہ کبھی اتنی اہم بھی ہو سکتی ہے کہ ایک اعلیٰ افسر اُس پر رات کو کمبل ڈالتا ہے۔ اِس ڈر سے کہ کہیں اُسے سردی نہ لگ جائے۔ اتنا خیال تو جننے والی ماں نے بھی کبھی نہ کیا تھا۔ وہ اُنہیں پیدا کر نے کی ذمہ دار ضرور تھی پر ماؤں والے لاڈ ونخرے کبھی نہ کئے۔اول تو وہ سب بھائی بہن بڑے سخت جان تھے۔سخت سردیوں میں ایک قمیض میں ہی گھومتے پھرتے۔ بیمار ہونا تو درکنار نزلہ زکام بھی قریب نہ پھٹکتا۔ اگر خدانخواستہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا تو بھی خاص پرواہ نہ ہوتی۔ پانچ چھ دن بیماری کے تھپیڑے سہہ کر وہ خود ہی ٹھیک ہو جاتے۔ نہ کبھی کوئی فکر مند ہوتا۔ نہ کوئی مہنگی دواؤں کے چکر میں پڑتا۔ بس معمولی سا دوا دارو ہوتا۔اِسی میں آرام آجاتا۔
کاکسِس بازار کے ستر70 میل لمبے سنہری ساحل پر بیٹھے خلیج بنگال کی اُونچی اُونچی لہروں سے وہ ذرا بھی لُطف نہ اُٹھا رہی تھی۔ رحما ن بھائی اور گورا دونوں ریسٹ ہاؤس میں ہی تھے۔لڑکیاں اکیلی ساحل پر آئی تھیں۔
نازلی اور ثریا دونوں پانی میں بُہت دُور تک چلی جاتیں۔ لہریں آتیں اور اُنہیں گردن گردن تک بھگو جاتیں۔ صفیہ ریت سے گھروندے بنا رہی تھی اور صبیحہ تصویریں اُتارنے میں مصُروف تھی۔
پریشانی سے اُس نے سر جھٹکا اور اُلٹی سیدھی سوچوں سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی۔ وہ دراصل اِن معاملوں میں بالکل کو ری تھی۔ یوں ہر انسان کی طرح اُسے بھی چاہے جانے کی شدید تمنا تھی۔ لڑکیوں سے جب اُن کے فسٹ اور سیکنڈ کزنوں کے قصّے سُنتی تو مارے رَشک وحسد کے جل جل جاتی۔ خیر سے خالہ زادوں اور پھوپھی زادوں کی تو اُس کے گھر میں بھی کمی نہ تھی پر وہ سب کم بخت جُوتیاں مارنے کے قابل تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر چُغد اور کاؤبو ائے کہ اُنہیں دیکھنے کو بھی جی نہ چاہے کجا کہ اُن پر محبت کی نظر ڈالی جائے۔ گھر میں کچھ دُور نزدیک کے رشتہ داروں کے بیٹے بھی پڑھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی اُسے پسند نہ تھے۔ اُن کے طور طریقوں پر دیہاتی پن کی گہری چھاپ تھی۔
کالج سے آتے جاتے وقت دوسرے کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے
لڑکوں سے مستقل قسم کا واسطہ رہتا تھا کیونکہ آمدورفت کے اوقات تقریباً ایک جیسے ہی تھے۔ پر گھر کے سخت اور کڑے ماحول نے ذہن کی طنابیں یوں کس کر رکھیں کہ اِن میں ذرا سی کبھی ڈھیل نہ پیدا ہونے دی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں