روٹی۔۔اسامہ ریاض

سارا دن وہ گلیوں میں آوارہ پھرتے گزارتا اور رات باقی بہن بھائیوں کے ساتھ پھٹی ہوئی ایک رضائی میں۔ اُسے آج تک زیادہ بہن بھائی ہونے کا ایک ہی فائدہ سمجھ میں آیا تھا کہ سردیوں میں اُن کی واحد رضائی جلدی گرم ہو جاتی تھی۔

دن بھر کا تھکا ہارا ، وہ رات سونے  کے لیے گھر آتا تو پہلے روٹی کے لیے لڑائی ہوتی پھر رضائی کے لیے۔ باپ شرابی ہونے کے ساتھ ساتھ جواری بھی تھا۔ گھر کی سب قیمتی چیزیں بیچ چکا تھا۔ کچھ سال پہلے ایک بچے کو بھی دو لاکھ کے عوض ہار چکا تھا۔

ماں سارا دن دوسروں کے گھروں میں کام کرتی یا پھر سرکاری ہسپتال کے چکر لگاتی۔ ہر گزرتے سال گھر میں ایک بچے کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ رضائی میں جگہ کی لڑائی کے ساتھ ساتھ روٹی کی  لڑائی بھی جاری تھی۔ پہلے اُسے دو روٹیاں ملتی تھیں۔ اب وہ کم ہو کر کبھی ایک یا کبھی آدھی رہ گئی تھی۔ کبھی کبھار تو اُسے بھوکے بیٹ رہنا پڑتا تھا۔ بڑے بھائی کے چھوٹے کپڑے وہ پہنتا اور ایک سال بعد اُسے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبرار ہونا پڑتا۔

وہ سفید اور سرخ رنگ کی شرٹ اُس کی سب سے پسندیدہ تھی ،مگر ایک سال بعد وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چھوٹے بھائی کی ہو چکی تھی۔ چھوٹا بھائی بےدھیانی میں اُس کے بٹن گھما رہا تھا اور وہاں دوسری جانب اُس کا دل گول گول گھومتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ وہ بھائی کو بہانے سے گاؤں سے بہت دور لے گیا اور بٹن کو گول گول گھماتے گھماتے اُس کا سر چکنا چور کر دیا۔

یہ پہلا دن تھا جب اُس نے اپنا حق زبردستی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ گھر میں چھوٹے بھائی کی لاش پہنچی تو ہر طرف شور  مچ  گیا ،مگر کچھ دیر بعد ہی روٹی روٹی کی دلخراش آوازوں میں وہ شور کہیں دب کر رہ گیا۔

جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اُس کی روٹی کا سائز کم ہوتا گیا۔ روٹی کے لیے اُس نے ڈاکے ڈالنے شروع کر دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دن فرار ہوتے ہوئے پولیس سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ پولیس کے کچھ جوان مارے گئے۔ عدالت نے اُسے سزائے موت سنائی۔ فجر سے پہلے جیلر نے اُس سے آخری خواہش پوچھی ’’ میں پیٹ بھر کر روٹی کھانا چاہتا ہوں ‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply