خان صاحب فیصلہ کرلیجیے۔۔مجاہد خٹک

ہم نے مشرف کے آخری دور سے لے کر ن لیگ کے گزشتہ دور تک دیکھا ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور ٹی وی چینلز کسی حکومت کے خلاف اکٹھے ہو جاتے تھے تو وہ مفلوج ہو کر رہ جاتی تھی اور وزیراعظم کو رخصت ہونا پڑتا تھا۔

عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سب سے پہلے ٹی وی چینلز کمزور ہوئے ہیں اور ان کی طاقت بہت کم ہو گئی ہے۔ اس سے قبل چند ٹاپ کے پانچ چھ اینکرز مل کر پروگرام کرتے تھے تو حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے تھے۔ عدلیہ انہیں ہتک عزت کے دعوؤں سے محفوظ رکھتی تھی اور جواب میں اینکرز ججز کی فرمائش پر پروگرامز کیا کرتے تھے اور خبروں میں ان کے ریمارکس گھن گرج کے ساتھ پیش کیے جاتے تھے۔ پیچھے اسٹیبلشمنٹ ڈور ہلا کر اس صورتحال میں اپنا لچ تلتی رہتی تھی۔ میڈیا کے کمزور ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے اس طاقتور ہتھیار کی دھار کُند ہو چکی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کورونا کے معاملے پر حکومت کو رگیدنے کی کوشش کی تو معاملہ الٹ پڑ گیا اور سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد عدلیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ مستقبل میں بھی اس ادارے کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ اگر چند بار مزید اس ادارے کو دائرے سے باہر قدم رکھنے کے باعث تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا ہتھیار بھی اس طرح تیز دھار نہیں رہے گا جیسا گزشتہ حکومتوں کے دوران ہوا کرتا تھا۔

چاہے اس سب کے پیچھے حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہو تب بھی میڈیا اور عدالتوں کی اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر شاٹس لگانے کی صلاحیت کمزور ہو گئی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کی اپنی قوت کم ہوئی ہے۔ اگر مستقبل میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی ہوتی ہے تو شاید سویلین قیادت بہتر انداز میں مقابلہ کر سکے گی۔

آپ تاریخ میں مختلف حکمرانوں اور سلطنتوں کے متعلق تفصیل سے پڑھیں تو حکمران عموماً اپنے ایک دشمن کو شکست دینے کے لیے دیگر مخالفین سے سمجھوتے کر لیا کرتے تھے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر وہ ایک ہی وقت میں تمام محاذ کھول لیتے تو خود تباہ ہو جاتے۔ عمران خان کی حکمت عملی بھی یہی رہی ہے۔ پارٹی کے اندر اور اتحادیوں سے لے کر مختلف حکومتی اداروں کی اس طاقت کو کمزور کیا گیا ہے جو ایگزیکٹو کو اپنا کام نہیں کرنے دیتی تھی۔

ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کے بڑے بڑے مسائل کا باعث ایگزیکٹو کا کمزور ہونا ہے۔ اس سے پہلے نہ وہ میڈیا کو چھو سکتی تھی، نہ عدالتوں کا ایکٹوزم قابو میں کر سکتی تھی اور نہ ہی طاقت کی راہداریوں میں گھومتے دیگر طبقات کو قانون کے دائرے میں لا سکتی تھی۔

جہانگیر ترین اور دیگر طاقتور کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کر کے اپنی جماعت کے ان افراد کو تنبیہ کر دی گئی ہے جو کسی بھی اشارے پر گراؤنڈ سے باہر جانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس میں بعض اہم اتحادی بھی شامل ہیں جن کے خلاف مضبوط مواد اکٹھا کر کے انہیں باندھ دیا گیا ہے۔ نیب کے ذریعے اپوزیشن کو کمزور کر دیا گیا ہے اور وہ کہیں سے بھی حکومت کو چیلنج کرنے کے قابل نہیں نظر آ رہی۔

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو سینیٹ الیکشن کے ذریعے ایوان بالا میں اپنی اکثریت حاصل کرنی چاہیئے اور پھر ایک بولڈ فیصلہ کرتے ہوئے مڈٹرم انتخابات کی طرف جانا چاہیئے کیونکہ حکومت کی سب سے بڑی کمزوری اس کی انتہائی کمزور اکثریت ہے۔ اسے دور کیے بغیر بہتر حکمرانی کرنا ممکن نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان کو اپنے ایجنڈے میں کامیابی کے لیے بڑی اکثریت چاہیے تاکہ بڑے فیصلے کرتے وقت وہ ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو اور اسے اپنی پیٹھ میں کسی طرف سے چھرا گھونپے جانے کا خدشہ نہ ہو۔ بطور کپتان انہوں نے بڑے بولڈ فیصلے کیے ہیں۔ اب سیاست میں بھی ایسے ہی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply