وفاقی وزیر صنعت و پید اوار حماد اظہر نے گزشتہ روز پی ٹی آئی حکومت کا 7.14 ٹریلین کا دوسرا بجٹ اپوزیشن کے شور شرابے میں پیش کردیا،جس کاحجم 2019-20 کے بجٹ کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے اور اس میں 3,500 بلین خسارہ دکھایا گیا ہے ۔
موجودہ حالات میں اس بجٹ کو کرونائی ہنگامی بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اس وقت کورونا کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کی حکومتوں کو خراب معاشی صورت حال اور بے روزگاری کے طوفان کی وجہ سے شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔حکومت اسے عوام دوست ریلیف بجٹ قرار دے رہی ہے کیونکہ حکومت کے مطابق اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
بجٹ کا خاص پہلو یہ ہے کہ دفاعی بجٹ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے پر اب حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ قیمتوں اور افراط زر پر کنٹرول اور کمی کیلئے ٹھوس اقدامات کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ورنہ عام آ دمی کیلئے حالات اور بھی مشکل ہوسکتے ہیں۔
حکومت نے اس بجٹ میں اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی شدید کمی کرنے کا عندیہ دیا ہے اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو یہ خوش آئندہ پہلو ہوگا۔ اس بجٹ کے دیگر اہم نکات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ درآمدی سگریٹ ،بیڑی ،سگار، جوتا ،کپڑا ،موبائلز، ڈبل کیبن اور سپورٹس، یوٹیلیٹی، گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجاویز منظور ہونے کی صورت میں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہونے جارہا ہے۔ انرجی ڈرنکس پر (FED)13 فیصد سے بڑھاکر 25 فیصد کرنے کی تجویززیر غور ہے۔
مقامی تیارکردہ موبائلز، جوتوں ،کپڑوں پر سیلز ٹیکس آٹو و موٹر سائیکل، رکشہ، 200 سی سی موٹر سائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجاویز منظور ہونے کی صورت میں انکی قیمتیں کم ہونے جارہی ہیں۔ہو ٹلوں پر ٹیکس کی شرح ستمبر تک 1.6 فیصد سے کم کرکے 0.17 کرنے کی تجویز ہے ۔
اسی طرح بچوں کے سپلیمنٹس اور ڈائٹ فوڈز پر درآمدی ٹیکس ختم کرنے کی تجویز ہے۔ فنکاروں کیلئے امدادی رقم 25کروڑ سے بڑھا کر ایک ارب کر دی گئی ہے اور احساس پروگرام کے فنڈز 187ارب سے بڑھا کر 208 ارب کر دیے گئے ہیں ۔
اس بجٹ میں کورونا سے نمٹنے کیلئے 1200 ارب رکھے گئے ہیں اور کرونا کٹس اور دیگر سازوسامان کو درآمدی ڈیوٹی سے مستشنی ٰ قراردے دیا گیا ہے ، ہائر ایجوکیشن کابجٹ 60 ارب سے بڑھا کر 64 ارب ، صحت کیلئے 75 ارب ، ٹڈی دَل سے نمٹنے کیلئے 10 ارب، کامیاب نو جوان پاکستان پروگرام کیلئے 2 ارب ، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کیلئے 1.5 ارب ، یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے 50 ارب، سائنس انفارمیشن ٹیکنا لو جی کیلئے 20 ارب ،ریلوے کیلئے 40 ارب ، ای سکولز کیلئے 5 ارب ، وفاقی ہسپتالوں کیلئے 13 ارب،مزدور طبقے کیلئے 200 ارب،ورکرز ویلفیئر فنڈزکیلئے 3 ارب،پانی کے شعبے کیلئے 70 ارب ، پبلک سیکٹرکیلئے 605 ارب ، سماجی شعبوں کیلئے 250 ارب ، مواصلات کیلئے 37 ارب ، تعلیم میں جدت و ترقی کیلئے 30 ارب ، توانائی خوراک اور دیگر شعبوں کیلئے 180 ارب، زرعی شعبہ کیلئے 10 ارب، NHA اور سی پیک کیلئے 118 ارب رکھے گئے ہیں ۔ جبکہ دفاعی بجٹ کو چیف آف آرمی سٹاف کی درخواست پر سابقہ سطح پر رکھتے ہوئے کوئی اضافہ نہیں کیا گیاجو کہ اس بجٹ کا بہت نمایاں پہلو ہے ۔
وزیر صنعت وپیداوارکے مطابق گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر کی وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوااوراس بجٹ میں جی ڈی پی کا ٹارگٹ 2.1،جبکہ 2223 ارب کے غیر ملکی قرضے حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے اور مہنگائی کی شرح 9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد کرنے کا کہا گیا ہے ۔
گزشتہ مالی سال میں پٹرولیم کی مصنوعات پر وفاقی حکومت کی طرف سے 37 ارب کی سبسڈی دی گئی۔یہ بھی اعلان کیا گیا کہ پنشن کے خطیر اخراجات کم کرنے کیلئے نیا نظام بنایا جائیگا۔ان عدادو شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو موجودہ مشکل حالات میں یہ متوازن بجٹ نظر آتا ہے ۔ بجٹ عام طور پر عدادوشمار کا گھورکھ دھندہ ہوتا ہے جس کو ماہرین اقتصادیات بھی آسانی سے سمجھ نہیں پاتے جس کے اسرارو ر موزوقت کے ساتھ ہی سامنے آتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت کس طرح سے بجٹ کی سفارشات پر عمل درآمدکرتی ہے اور کرونا کی موجودہ صورتحال ہماری معیشت اور معاشرت کوآنے والے دنوں میں کس حد تک اور کب تک متاثر کرتی ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا کہ کچھ ماہ کے بعد ضمنی بجٹ کی شکل میں نئی سفارشات پیش کی جا سکتی ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں