عیدالفطر کا تہوار ہر سال تمام دنیا کے مسلمان انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں ۔۔ امسال بھی پاکستان میں اس روایت کو برقرار رکھا گیا۔۔
مگر حالات و واقعات کی بنا پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ معاشی بحران کے باوجود، روزگار بند ہونے کے باوجود، امدادی بارہ ہزار کم ہونے کے باوجود، اس سال عید پہ مہنگے ترین ”نئے کپڑوں“ کی خریداری کی گئی
جس کی قیمت آج تک روزانہ کی تقریباً ستّر اسّی لاشیں ادا کر رہی ہیں ۔۔ جس کی قیمت کئی خاندانوں کے چشم و چراغوں نے ادا کی جن کی روشنی نے انکے والدین کی بڑھاپے کی تاریکی کو پرنور کرنا تھا۔
جس کی قیمت ہسپتالوں میں ناپید وینٹی لیٹرز کی دستیابی پہ خود کو خوش قسمت سمجھنے والے بے حس و حرکت جسموں نے ادا کی ۔
جس کی قیمت ایمبولینس میں تڑپتی، آکسیجن کو ترستی مایوس سانسوں نے ادا کی ۔۔۔۔۔ ۔۔
دھڑکنیں رک گئيں کاروبار چل پڑے۔۔دکانیں کھل گئيں
کئی خاندان ہِل گئے ۔۔
مگر ،
مرنے والوں کو ، جینے والوں کو
”نئے کپڑے“ تو مل گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں