میں نے سب سے زیادہ محسن داوڑ کے خلاف لکھا، کرک میں تحریک انصاف کی مقامی قیادت کیخلاف لکھا، ایسے ایسے مسائل میں ذاتی طور پر الجھ بیٹھا جہاں جان بھی جاسکتی تھی۔ آپریشین ضرب عضب میں فوج کے خلاف لکھا۔ ایک بار نامعلوم نمبر سے مجھے میری اوقات یاد دلانے کی کوشش کی گئی مگر جلد ہی ان کو بھی معلوم ہوگیا کہ بندہ بیوی گزیدہ ہے، گالیوں کا عادی ہے۔
آج بھی اپنے آس پاس ایسا کچھ نظر آجائے تو بنا سوچے سمجھے فوراً لکھ بیٹھتا ہوں، کہ مقصود صرف اور صرف انصاف ہے اور مظلوم کی دادرسی ہے۔
کافی لوگوں نے خبردار کیا کہ پی ٹی ایم کے جوشیلے کارکن آپ کی جان لے سکتے ہیں۔ ادارے آپ کو غائب کرسکتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ڈر بھی جاتا ہوں کہ واقعی ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے بعد ان کا کوئی سہارا بھی نہیں ہے۔
دبئی میں ہمارے وزیرستان کے لوگ زیادہ ہیں لہذا کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے خود کو بچانے کیلئے پی کیپ پہن کر گھومتا تھا۔ ایک دن الغرور مال میں ونڈو شاپنگ کررہا تھا۔ کہ پانچ چھ وزیرستان کے جوان جو میٹریس لے رہے تھے۔ آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ ایک کہنے لگا کہ اس میٹرس پر “مامتے” کے خشک کولہے نہیں جچتے۔ اس میٹرس پر آذربائیجان کے کولہے اچھے لگیں گے۔ مامتے جو پاس ہی تھا اپنے کولہوں کی یہ بے عزتی برداشت نہیں کرسکا فوراً جواب دیا”اپنی دادی کیلئے خرید کر میرعلی بھیج دو۔” میرا بے ساختہ قہقہہ نکل گیا۔ چاروں حیرت سے مجھے دیکھنے لگے کہ شارٹ پہنا یہ دیسی انگریز کون ہے جو ہماری ٹھیٹھ وزیرستانی زبان سمجھ کر قہقہے لگا رہا ہے۔ میں آگے بڑھنے لگا تو پیچھے سے بھاگتے ہوئے ایک نوجوان “لالہ” پکارتا ہوا قریب آیا۔ “لالہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ آپ سے ملاقات یوں بھی ہوسکتی ہے۔” میری ہوا خشک ہوگئی کہ خٹک ایک دو تھپڑ اور گالیوں کیلئے ذہنی طور پر خود کو تیار کرلو یا چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے بھاگ لو۔ جم کا فائدہ اٹھانے کا اس سے بہتر وقت نہیں ملنے والا۔
پانچ منٹ بعد معلوم ہوا کہ موصوف وہی بندہ ہے جو فیک آئی ڈی سے ماں بہن کی گالیاں دیکر دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ وہ پی ٹی ایم کا سرگرم کارکن تھا۔ گرمجوشی سے گلے لگا کر جو محبت کا اظہار کیا تو میں نے پوچھا کہ یاد ہے ایک دفعہ آپ نے کہا تھا کہ خٹک کسی دن ہاتھ لگ جاؤ تو آپ کو بتاتا ہوں۔ شرمندہ ہوکر پھر گلے لگایا کہنے لگا لالہ دل سے پیار کرتا ہوں۔ آپ کی کہانیاں اور طنزومزاح ڈیرے پر سارے گرائیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں البتہ متفقہ طور پر ایک گالی ضرور آپ کو دیتے ہیں “کیا حرامی بندہ ہے مذاق مذاق میں ہم پشتونوں کی شلواریں بیچ چوراہے پر لٹکا دیتا ہے۔”

پچھلے دنوں بلوچستان میں ایک شرمچار سے ملاقات ہوئی۔ ملنے کے بعد جو محبت نچھاور کی وہ یادگار رہیگا۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ورچوئل رشتے وہ نہیں ہوتے جو ہمیں سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ ہمارے آپس میں کافی اختلافات ہوں گے مگر روبرو آپ ایک دوسرے کو فیس بک اور ٹویٹر سے بہت الگ پائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ ۔
البتہ “ڈالے” والے دوستوں سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ جب روبرو ملیں گے تو دیکھتے ہیں وہ کون سی محبت منہ پر نچھاور کرتے ہیں اور کونسی تشریف پر۔
کبھی ایسا ہوا تو ضرور بتاؤں گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں