کیا اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ہمارے ہاں والدین کی اکثریت محض نطفے کے ناطے والدینی کے عظیم اور حساس ترین منصب پر فائز ہے۔ سماجی سٹرکچر اتنا بے سوچا سمجھا اور بے ڈھب ہے کہ شادی کے نام پر دو اجنبی اور کئی بار تو ایک دوسرے کو ناپسند کرنے والے افراد کو آپس میں باندھ دیا جاتا ہے جو ایک دوسرے سے مخاصمت کے باوجود بچے پیدا کیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں شوہر کے لیے ایک لفظ خصم بھی بولا جاتا ہے جس کا مطلب ہی مخاصمت یا دشمنی رکھنے والا ہے۔ ممکن ہے یہ حقیقت کا ایک لاشعوری اظہار ہو۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس طرح کے رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد سماجی شعور کے حوالے سے کس طرح کے ناقص ورثے کی حامل ہوگی۔ والدین میں زیادہ سے زیادہ ایک صفت جو مشترک ہوتی ہے وہ احساس کی ہے جس کی بنا پر وہ حسبِ استطاعت اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ احساس کی یہ صفت تو خانہ بدوش والدین میں بھی ہوتی ہے مگر صرف بچے کے جسم کی سروائیول کی حد تک۔ اپنے بچے کے درد پر وہ بھی تڑپتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں اپنے بچے کو ایک شعوری وجود میں بدلنے کا خیال ناپید ہوتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ سبھی والدین اپنے بچوں کو سوسائٹی میں بہتر مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں، مگر کتنے ہوں گے جنہیں ان کے تخلیقی وجود ( جو کہ انسان کو انسان بناتا ہے) کو ترقی دینے کا ادراک ہوگا۔
ان کے نزدیک ترقی کا مطلب ہے بچے کو مقابلے کی دوڑ میں شرکت کے لیے تیار کرنا جس میں فتح کا مطلب کسی اور کے بچے کی شکست ہے۔ چاہے یہ فتح بچے کی حقیقی شخصیت کی موت پر متمکن ہو۔ مگر ان بے چاروں کو تو یہی بتایا گیا ہے کہ وہ انسانوں کی بجائے دشمنوں میں گھرے ہیں جنہیں پچھاڑتے رہنے میں ہی ان کی زندگی مضمر ہے۔
ہماری سوسائٹی اور تعلیمی ادارے بچے کو صرف ایک ہی سبق پڑھا رہے ہیں اور وہ سبق ہے مقابلے بازی کا تاکہ دوسروں کو شکست دے کر وہ مقام حاصل کیا جاسکے جو زیادہ سے زیادہ مراعات سے مرصع ہو۔۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہم بچے کو اچھا انسان بننا سکھا رہے ہیں۔ ہم بچوں کو تعلیم نہیں دلواتے بلکہ دوسروں سے مخاصمت کا سبق پڑھاتے ہیں۔
مزید المیہ یہ کہ والدین کی اکثریت اس بات سے بھی نابلد ہوتی ہے کہ ان کے بچے سکولوں میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان کے لیے تو اولاد شاید زینے کی طرح ہے جس پہ چڑھ کر خود اپنا آپ نمایاں کرنا ہے۔ اپنے احساسِ کمتری کے خلاء کو پُر کرنا ہے۔ ریاست کا مطمع و مقصود شریف شہری ہیں۔ بہت ساؤ اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے جو اس پر قابض طاقتور بدمعاشوں پر کبھی انگلی نہ اٹھائیں بلکہ ممکن ہوتو ان کی حمدوثنا کا ورد کریں۔
والدصاحبان بھی تو اپنے خاندان کی ریاست کے حکمران ہی ہوتے ہیں جو اپنی اولاد سے اسی کردار کی توقع کرتے ہیں۔ ریاست کے نالائق حکمران کو تو پھر بھی معزول کیا جاسکتا ہے مگر والد بھلے اپنی ذمہ داریاں نبھائے یا نہ نبھائے یا اپنی اولاد کا بیڑا غرق کردے، اسے کسی صورت باپ کے منصب سے معزول نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ہے ہمارا آئیڈیل خاندانی نظام جس کا دنیا کے سامنے ڈھنڈورا پیٹتے ہم نہیں تھکتے۔ ہاں یہ الگ بات کہ ہم صدیوں سے اس دنیا کے ہاتھوں بری طرح پٹتے چلے آرہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں