زندگی کا سب سے مشکل سفر(قسط 1)۔۔بریگیڈئیربشیر آرائیں

چھور کینٹ کی اچھی یادوں کے ساتھ ایک ایسی بری یاد بھی جڑی ہے جس نے مجھے دنیا کا سب سے بےبس انسان ثابت کر دیا ۔ جو لوگ سروس میں میرے ساتھی رہے یا جنہوں نے میرے ساتھ نوکری کی شاید کبھی وہ اس بات کی گواہی دے سکیں کہ میں لوگوں کے لئے آسانیاں ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ناممکن کو ممکن بنا دیتا تھا ۔ شاید اللہ تعالی نے مجھے ایسا ڈیزائن کر دیا تھا کہ مجھے کبھی یہ خیال تک نہیں آتا تھا کہ میری نوکری خراب ہو سکتی ہے ۔ آفیسرز چھور پوسٹ ہوتے تو پریشان ہو جاتے مگر انہیں کوئی نہ کوئی یہ دلاسہ دیتا کہ 8 فیلڈ میڈیکل یونٹ میں سیکنڈ ان کمانڈ میجر بشیر آرائیں ہے تمہیں پریشانی نہیں ہونی چاہیے ۔ میں یہ سب سنتا تو اللہ سے دعا کرتا کہ مجھے توفیق دے کہ لوگوں کی امیدوں پر پورا تو اتر سکوں ۔

چھور میں آفیسر میس واجبی سی تھی ۔ ہم زیادہ تر ڈاکٹر بغیر فیملی کر رہتے تھے ۔ فیملی کے ساتھ وہ ہوتے جو دونوں میاں بیوی ڈاکٹر تھے اور فوجی بھی ۔ میجر اطہر صدیقی بےہوشی کے  سپیشلسٹ بھی چھور پہنچ گئے ۔ انکی نفیس شخصیت نے ہمیں چند ہی دنوں میں دوست بنا دیا اور ہم نے ایک کمرے میں ڈیرے ڈال دئیے ۔ میری فیملی کراچی اور انکی لاہور میں تھی ۔ جس کی فیملی ملنے آتی دوسرا ہاسپیٹل کے آفیسر وارڈ میں شفٹ ہو جاتا اور یوں بچے چھٹیاں گزار کر چلے جاتے ۔ میجر اطہر کی بیگم جو خود بھی ڈاکٹر تھیں دو معصوم سی بچیوں کے ساتھ آتیں تو میں ہاسپیٹل کے وارڈ میں جاکر رہنے لگتا ۔ پھر مجھے بھابھی کی پکائی ہوئی مزے مزے کی ڈشز کھانے کو ہاسپیٹل میں فری ڈلیور ہوتی رہتیں ۔ بہت دور کی بات نہیں جب پوری آرمی ایک فیملی کی طرح تھی اور پھر ہم سب فوجی نہ جانے کب سیاسی ہو گئے ۔ پورا شیرازہ بکھرتا گیا ۔ قدریں بدلتی گئیں اور اب آپ امید نہیں کر سکتے کہ اکیلے رہتے کسی آفیسر کو کوئی فیملی کھانے پر بلا لے ۔

ہمار ے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی چھٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر میڈیکل سروسز حیدرآباد سے کنٹرول ہوتی تھی اور اسکے لئے پندرہ دن پہلے درخواست کرنی پڑتی تھی ۔ کسی دوسرے سی ایم ایچ سے اسی  سپیشلٹی کا ڈاکٹر آتا اور پھر جا کر چھٹی ملتی ۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ کسی ویک اینڈ پر اچانک میجر اطہر مختار صدیقی کہنے لگے سر بچیوں سے ملنے کو مرا جارہا ہوں ۔ میں نے جیپ نکالی ۔ عمر کوٹ اپنے کلاس فیلو میجر ریٹائرڈ علی نواز انیستھیٹسٹ کو ایمرجنسی کے لئے تیار کیا اور میجر صدیقی سے کہا کہ میری کار لے جاؤ ۔ کراچی ائیرپورٹ پر کھڑی کرکے لاہور نکل جاؤ ۔ دو رات گزار کر اتوار کی شام واپس آجانا ۔ اللہ بھلا کرے میجر روبینہ گائناکالاجسٹ کا جسے ہماری ان تمام حرکتوں کا پتہ تھا اور وہ آپریشن ایک آدھ دن ٹال گئیں یا شاید میجر علی نواز کو بلا لیا تھا ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ میرے کمرے میں میجر اطہر موجود نہیں ہے ۔

اتوار کا دن تھا ۔ صبح کے وقت ہم باہر بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔ کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی ۔ میں بادل نخواستہ اٹھتا ہوں اور فون اٹھاتا ہوں ۔ دوسری طرف کوئی اجنبی شخص کہتا ہے کہ مجھے میجر بشیر آرائیں سے بات کرنی ہے ۔ ایک ایمرجنسی ہے ۔ لوگ میرے بارے میں کہتے تھے کہ اگر ایٹمی جنگ بھی لگ جائے تو میں شیو کرکے ۔ نہادھو کے ۔ ناشتہ کرکے ہی سی او کو فون کرونگا کہ جنگ لگ گئی ہے مگر نہ جانے آج کیوں دل دھک سے رہ گیا تھا ۔ بتانے والے نے کہا کہ آپ کے ساتھی میجر اطہر صدیقی کی دو بیٹیاں جس کشتی میں کینجھر جھیل میں سیر کو گئی تھیں وہ کشتی الٹ گئی ہے اور اس کے بعد کسی کا کچھ پتہ نہیں ۔ آپ کینجھر جھیل پہنچیں ۔

یہ دونوں وہ بچیاں تھیں جو سال میں ایک دفعہ ہماری میس کی رونق بنتی تھیں ۔ میں عمر کوٹ سے انکے لئے آئسکریم منگواتا ۔ ہاسپیٹل کے آفیسر وارڈ میں انکے لئے چکن کڑاہی بناتا اور وہ شور مچاتیں کہ انکل مرچیں بہت ڈالتے ہیں ۔ میں نے خود کو خود ہی تسلی دی ۔ ضرورت کے پیسے جیب میں ڈالے ۔ اپنے سی او کرنل نور میمن کو فون پر سب بتایا اور باہر آکر میجر اطہر سے کہا کہ شاید آج بچیاں اپنے ماموں کے ساتھ کراچی سے ٹھٹھہ کینجھر جھیل کی سیر کو جا رہی تھیں تو کار کچھ بے قابو ہوئی اور کہیں ٹکرا گئی ۔ ہمیں ٹھٹھہ ہاسپیٹل جانا ہے تاکہ اگر چوٹ زیادہ ہو تو بہتر انتظام کر سکیں ۔ میجر اطہر صدیقی کو مجھ پر اس قدر یقین تھا کہ بغیر کسی اضافی سوال کے میرے ساتھ کار میں بیٹھ گیا ۔

موبائل فون کا کوئی نظام نہ تھا ۔ سڑک کے کنارے ٹیلیفون بوتھ لگے ہوتے تھے ۔ میجر صدیقی بوتھ کو دیکھ کر بے چین ہوتا اور کہتا کہ سر ٹھٹھہ ہاسپیٹل فون کرلیتے ہیں کہ کہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آِئی ۔ میں بھاگ کر بوتھ پر جاتا ۔ فرضی نمبر ڈایل کرتا اور کہہ دیتا کہ ڈاکٹر سے بات نہیں ہو پارہی ۔

میں اللہ کے کرم سے بہت اچھا ڈرائیور جانا جاتا تھا مگر آج کلچ بریک میرے قابو میں نہیں تھے ۔ نہ جانے کیسے باتیں کرتے ۔ تسلیاں دیتے میجر صدیقی کو لے چھور سے میرپور خاص ، حیدرآباد سے ہوتے ہوئے ٹھٹھہ کی طرف جا رہا تھا کہ کینجھر جھیل سے کچھ پہلے ایک ٹیلیفون بوتھ نظر آیا ۔ پھر کار روکی ۔ میجر صدیقی مجھ سے پہلے اتر کر بوتھ کی طرف گیا کہ اب وہ خود بات کرلے لیکن بات کس سے کرنی ہے اسے کچھ پتہ نہ تھا ۔

بوتھ کے پاس  کھڑے  دو  دیہاتیوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ فوجی ہو ۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو کہنے لگے صبح کسی فوجی کی دو بچیاں کینجھر جھیل میں ڈوب گئی تھیں اور ابھی تک نہیں ملیں ۔ وہاں بہت لوگ جمع ہیں ۔ میجر اطہر نے میری طرف حیرت سے دیکھا تو میں نے نظریں چرا لیں ۔ وہ کار کا سہارا لیکر آہستہ سے زمین پر بیٹھ گیا ۔
کچھ دیر کو میں چپ چاپ کھڑا رہا ۔ ہمت کرکے میجر صدیقی کو پکڑ کر کھڑا کرنا چاہا تو انہوں نے مجھے نہ جانے کتنے کرب سے کتنے درد سے اور کتنے شکوؤں سے پوچھا سر کیا یہ سب آپ کو پتہ تھا ؟ میں نے اپنے آنسو روکنے تھے اس لئے خاموش رہا اور اسے خاموشی سے کار میں بٹھا دیا ۔ یہی وہ ١٠ کلومیٹر کاسفر ہے جو اس کہانی کا عنوان ہے ۔ میں عمرکوٹ سے یہاں تک تو پہنچ گیا تھا مگر یہ دس کلو میٹر زندگی کا سب سے طویل اور مشکل سفر رہا ۔ کار کی رفتار ایسی رکھ رہا تھا کہ کینجھر جھیل کبھی نہ آئے ۔ نہ جھیل پر پہنچوں نہ مجھے وہاں کچھ دیکھنا پڑے ۔

جس جگہ زیادہ لوگ جمع تھے گاڑی وہیں جا روکی ۔ پہلے میجر اطہر کو کار سے اترنے نہیں دیا ۔ دور درخت کے نیچے بھابھی کو اپنے بھائی کا ہاتھ تھامے کھڑے دیکھا تو میجر اطہر کو اتار کر وہاں تک پہنچا دیا ۔ میں دوسری طرف منہ کرکے آہستہ آہستہ چلنے لگا تاکہ آہیں اور سسکیاں نہ سن سکوں ۔ پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم آرمی ہیڈکوارٹرز کو بتا چکے ہیں اور نیوی کے لوگ پہنچنے والے ہیں ۔ آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے بچیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔ زندہ ہونے کی تمام امیدیں ٹوٹ چکی تھیں ۔ مجھے پولیس افسر نے ایک جگہ لے جاکر فون مہیا کیا کہ میں جس جس جگہ اطلاع کرنا چاہوں کرلوں ۔

آرمی کا ایسا مضبوط نظام ہے کہ میں جہاں بھی فون کرتا انکو پہلے سے خبر تھی اور تمام ممکنہ وسائل حرکت میں آچکے تھے کہ بچیوں کو جھیل سے کیسے ڈھونڈھ کر نکالا جائے ۔ میں نے پولیس آفیسر سے کہا کہ مجھے کشتی میں اس جگہ لے چلو جہاں کشتی الٹی تھی اور میرے اسی فیصلے نے مجھے دنیا کا سب سے بےبس انسان بنا دیا ۔

میں اس جگہ پہنچا یہاں تحریم اور حریم بیٹی کشتی سے باہر گری تھیں ۔ کیسی بےبسی تھی ۔ کیا کرتے ۔ کیا کرسکتے تھے ۔ واپس آگیا اور کنارے لگنے سے پہلے ہی میجر اطہر نے مجھے کشتی میں دیکھ لیا اور اونچی آواز لگائی کہ وہ دیکھو میرا یار آگیا ہے وہ انکو ڈھونڈھ لائے گا ۔ میں جو کہتا ہوں وہ ضرور کرتا ہے ۔ میں نے اس کی یہ بات سنی تو سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ میں انتہائی لاچاری سے کشتی میں سیٹ سے اٹھ کر نیچے تختے پر بیٹھ گیا اور ڈرائیور سے کہا کہ کشتی واپس موڑ لو ۔ ہم دوبارہ جھیل میں اسی جگہ جا رُکے جہاں حادثہ ہوا تھا ۔ مغرب ہونے کو تھی ۔ نیوی کے غوطہ خور پہنچ چکے تھے مگر اندھیرے کی وجہ سے آپریشن صبح فجر کےبعد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

اپنے جن مضبوط اعصاب پر مجھے ناز تھا وہ چکناچور ہوچکے تھے ۔ میں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا اور جھیل کے دوسری طرف جا اترا ۔ وہاں سے اپنے سی او کرنل نور محمد میمن کو فون کیا کہ خدا کے واسطے اپنے یونٹ کے کسی افسر کو بھیج دیں ۔ میں اکیلا میجر اطہر کو کیا تسلیاں دوں ۔ میں نے میجر اطہر کا اس وقت بھی سامنا نہ کیا جب دوسرے دن ہم بچیوں کو سفید چادروں میں لپیٹ کر جھیل سے باہر آئے تھے ۔

آپ فوجی ہوں ۔ نوجوان ہوں ۔ سینہ تان کے چلتے ہوں ۔دوسرے لوگ آپ کے بل بوتے پر دشمن کو للکارتے ہوں ۔ آپ کے سہارے لوگ راتوں کو سکون کی بےخطر نیند سوتے ہوں ۔ پھر سوچیں کہ اگر آپ انکے سامنے رو پڑیں تو ماحول کیسا ہوگا ۔ ہم خوب روئے مگر چھپ چھپ کے ۔ سسکیاں نہ رکتیں تو میں کھانسنے لگتا ۔ ہم فوجی آفیسر جو کالے چشمے  سٹائل کیلئے پہنے رہتے تھے ان چشموں نے آج ہماری مردانگی کا بھرم رکھا ہوا تھا اور سوجی لال آنکھوں کو چھپایا ہوا تھا ۔ اب تک کی ساری نوکری میں ہم نے بچوں کو اپنے باپ کی گھر آئی لاش پر روتے دیکھا تھا ۔ آج میں نے سب فوجیوں کو اپنے بچوں کیلئے روتے دیکھا ۔ 5 کور میں کراچی سے چھور اور چھور سے پنوعاقل تک ہر آنکھ اشکبار تھی ۔ ان چالیس گھنٹوں میں ایک لمحے کو بھی میں نے میجر اطہر کی طرف نہیں دیکھا ۔ بچیوں کو لے کر وہ لاہور جا رہے تھے ۔ میں ائیر پورٹ پر خدا حافظ کہنے کو موجود رہا ۔ لاونج میں جانے سے پہلے میں نے پیچھے سے میجر اطہر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے جو بات زباں سے نہ کہہ سکتا تھا دل میں کہتا رہا کہ میں کتنا بھی پکا سچا یار سہی مگر سب کچھ کبھی نہیں کرسکتا ۔ قدرت کے فیصلوں سے کون لڑے ۔ وہاں بھی ہم میں کوئی بات نہ ہوئی اور وہ سب لاہور چلے گئے ۔

لوگ مجھے بہت مضبوط انسان کے طور پر جانتے ہیں مگر میرا حال یہ ہے کہ دو دہائیاں گزر گئیں میں میجر اطہر سے بات نہیں کرتا ۔ ہم چھور میں اپنے کمرے میں بیٹھے گھنٹوں اپنے بچوں کی باتیں کرتے رہتے مگر اب ایسا ہو گیا ہوں کہ میں اپنی بیٹی معصومہ کی شادی پر بھی اسے دعوت نہ دے سکا کہ اکٹھے ہوئے تو پھر ہمیں وہ دو بیٹیاں یاد آئیں گی تو ہم سوائے آنسو بہانے کے کیا بات کریں گے ۔

میں نے سالوں بعد اسے فون کرکے یہ واقعہ لکھنے کی اجازت مانگی کہ شاید میں لکھ کے اسے سمجھا سکوں کہ میں اس سے بات کیوں نہیں کر پاتا ۔

julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply