فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر

میں عمران خان کی حکومت سے اس قدر مایوس ہو چکا ہوں کہ آج اس کی مخالفت میں ایک بھرپور کالم لکھ رہا ہوں۔عمران خان کے آنے سے ملک کا کتنا نقصان ہوا اس سے ہر محب ِ وطن (یہاں محب ِ وطن سے مراد صرف نون لیگی اور پیپلز پارٹی کے کارکن لیے جائیں)پاکستا نی واقف ہے۔میں بھی چونکہ ایک سچا اور کھرا پاکستانی ہوں لہٰذا میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ملک کو سب سے خسارہ اسی دورِ حکومت میں ہوا،ورنہ آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کیسے کیسے عظیم بادشاہ سلامت اس ملک کو میسر آئے جنہوں نے ایک ایک روپیہ اس ملک و قوم کی بہتری میں صرف کیا اور جیسے خالی ہاتھ حکومت میں آئے تھے،ویسے ہی خالی ہاتھ چلے گئے۔اگر کسی بادشاہ نے کوئی دولت کا بینک بیلنس بنایا بھی تو یقین جانیں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک ان بادشاہوں اور سچے اور کھرے حکمرانوں کی منی ٹریل ہی ثابت نہیں ہو سکی۔یقین جانیے یہ ایک سچے پاکستانی کی نشانی ہے،وہ اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔آپ عمران خان کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں جب اس کے خلاف کیس چلا،اس نے پندرہ سال پرانی منی ٹریل بھی ثابت کر دی۔

عمران خان سے پوچھا گیا کہ بتاؤ تم نے بیوی کو پیسے واپس کیے،بیوی نے کہا ہاں جی واپس کر دیے مگر اس کے باوجود اُس کا ریکارڈ مانگا گیا اور عمران خان چونکہ ایک نااہل آدمی تھاسو اس نے کئی سال پرانی ٹرانزیکشن بھی عدالت اور عوام کے سامنے رکھ دی لہٰذا یہ کیس جیت گیا مگر عوام کی نظروں میں یہ عمران خان کی شکست ہے ورنہ ایک محب ِ وطن ہوتا تو کبھی منی ٹریل ثابت نہ کر سکتا۔

مزید آپ دیکھیں سچا حکمران ہمیشہ مافیا کو ساتھ لے کے چلتا ہے یعنی سچے حکمران کی خواہش ہوتی ہے کہ جمہوریت خطرے میں نہیں پڑنی چاہیے لہٰذا وو جمہوریت کو بچانے کے لیے ہر طرح کے مافیا سے دوستی کرتا ہے اور کرنی بھی چاہیے کیونکہ جمہوریت خطرے میں پڑنے سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔

اب یہاں بھی عمران خان کی نااہلی ملاحظہ کریں کہ اس نے آتے ہی مافیا سے ہاتھ ملانے کی بجائے ان سے بگاڑ لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جمہوریت پر خدشوں کی تلوار لٹک گئی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔کبھی پیٹرول کا بحران،کبھی چینی مافیا کی غنڈہ گردی اور کبھی منی لانڈرنگ والوں کی دھمکیاں۔اسی لیے آج ایک سچا پاکستانی ہونے کے ناطے میرا خیال ہے کہ حکومت واپس شریف اور ذرداری خاندان کو ملنی چاہیے کہ جمہوریت کا حقیقی حسن انہی دو خاندانوں کے پاس ہے۔جب سے عمران خان آیا ہے جمہوریت پنپنے کی بجائے خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے۔

آپ مزید عمران خان کی نااہلی دیکھیں،اس نے آتے ہی میرٹ کا نعرہ لگا دیا اور کرپشن فری پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ بالکل ہی ناممکن ہے، بھلا وہ بھی کیسا ملک ہوا جہاں تھوڑی بہت کرپشن نہ ہو۔ مثلاً کہیں کسی سرکاری محکمے سے کام کروانا تو کچھ نہ کچھ دینا تو ہوتا ہے،اب عمران خان چونکہ نالائق آدمی ہے سو وہ اسے کرپشن سمجھتا ہے حالانکہ سرکاری زبان میں اسے”چائے پانی“کہتے ہیں اور عمران خان تو ایک کنجوس آدمی ہے جو مہمانوں کو بھی چائے نہیں پوچھتا لہٰذا اس نے حکومت میں آتے ہی سرکاری ”شہزادوں“ کا چائے پانی بند کر دیا اور یوں ایک اور مافیا اپنے خلاف کر لیا۔حالانکہ عمران خان کا کیا جاتا اگر وہ اس مافیا سے کہتا کہ کرپشن اور رشوت نہیں لینی،ہاں مگر”چائے پانی“تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے لہٰذا وہ لیا جا سکتا ہے۔

آپ عمران خان کی ایک اور نااہلی دیکھیں،اس نے آتے ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام ِ عالم کے سامنے پیش کر دیا اور یوں دنیا کے کئی ایسے بڑے اسلامی ممالک بھی عمران خان کے خلاف ہو گئے جو بھارتی تجارتی منڈی کے سر پہ منافع کما رہے تھے۔ حالانکہ یہ ایشو بھی پہلے حل ہو ہی چکا تھا،آپ دیکھیں ہمارے ہر دل عزیز مولانا فضل الرحمن جو تقریباً پندرہ سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے،تمام سرکاری مراعات بھی کھاتے رہے اور مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوا؟کبھی وہاں کوئی لڑائی جھگڑا سنا؟جب سے عمران خان آیا ہے،انڈیا بھی ہمارا دشمن بن گیا اور کشمیر بھی بک کیا۔کیا اچھا ہوتا کہ کشمیر کمیٹی ہمارے ہر دل عزیز مولانا کے پاس رہتی اور مودی ہر سال کسی نہ کسی شادی پہ پاکستان آتا رہتا۔یہ بڑے میاں صاحب ہی تھے جو حقیقی جمہوریت پسند لیڈر تھے، تبھی مودی صاحب ہمارے پاس آتے جاتے رہے۔اب جب سے عمران آیا،کشمیر بھی بیچ دیا اور مودی سے بھی بگاڑ لی۔لیکن یار ِ من اگر اب بھی عمران خان کو مودی کا یار کہیں تو ہم کیا کہیں،مودی کا دوست حقیقت میں میرا محب ِ وطن لیڈر نواز شریف تھا جس کی درجنوں مثالیں ہماری گنہ گار تاریخ کا حصہ ہیں۔

آپ عمران خان کو جو بھی کہیں مگر مجھے تو صرف یہ کہنا ہے کہ عمران خان کو مافیا کو ساتھ لے کے چلنا چاہیے۔عمران خان کو مک مکا سیاست پر یقین کر لینا چاہیے تبھی مزید اڑھائی سال کچھ کام کر پائے گا ورنہ اگر عمران خان ایسا ہی ضدی اور ہٹ دھرم بنا رہا،ایسے ہی مافیا اور ماضی کے سچے اور کھرے(شریف اینڈ کمپنی اور بھٹو اینڈ برادرز،مولانا اینڈ سنز)سے الجھتا رہا تو جمہوریت مزید خطرے میں پڑ جائے گی اور عمران خان پانچ سال بعد جیسے خالی ہاتھ آیا ہے ویسے ہی خالی ہاتھ لوٹ جائے گا۔اگر عمران خان چاہتا ہے اسے صدیوں اور نسلوں حکمرانی کا شرف نصیب ہو تو اسے ماضی کے شاندار حکمرانوں سے سبق سیکھنا چاہیے،جو قرضے لے کر ادارے بناتے تھے اور مزید قرض لینے کے لیے وہی ادارے گروی رکھ دیتے ہیں۔جو اپنوں کو نوازتے تھے اور بعد میں انہی کو این آر او دے دیتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہٰذا این آر او وہ واحد راستہ ہے جس سے حکومت بھی بچ سکتی ہے اور عمران خان کی سیاست بھی۔ورنہ عمران خان جب اڑھائی سال بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی چھوڑے گا تو اس کے پاس نہ تو لندن میں فلیٹس ہوں گے،نہ سوس بینکوں میں اکاؤنٹ ہوں،نہ مودی اور ٹرمپ اس کے یار ہوں گے،نہ عمران خان کے بچے مزید حکومت میں آ سکیں گے،نہ ہی مافیا اسے ”منتھلی“بھجوائیں گے،نہ مافیاز اسے دوبارہ حکومت میں آنے دیں گے،نہ ہی عمران خان تیس سال بادشاہت کر سکیں اور نہ ہی عمران خان کو یہ ملک ایک محب ِ وطن کے طور پر یاد کرے گا۔بس اب فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے،اگر وہ کچھ ڈیلیور کرنا چاہتا ہے تو ماضی کے سچے اور کھرے حکمرانوں کو مکمل طور پر این آو او دے، مافیاز کوپروٹوکول دے اور خاص کر کے اداروں میں ”چائے پانی“کھول دے،جس نے جو جو لوٹا یا کھایا وہ انہیں بیرونِ ملک میں بیٹھ کر بغیر ڈکار لیے ہضم کرنے دے اور پھر خود دیکھے کہ تمام محب ِ وطن(نون لیگی اور پیپلز پارٹی)اسے کیسے عزت اور پروٹوکول دیتی ہے۔یہی ایک حل ہے جس سے عمران خان اپنی نااہلی چھپا سکتا ہے ورنہ عمران خان آنے والے وقتوں میں ایک ظالم اور نااہل حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply