وہ بھی کیا دور تھا جب قائداعظم اور انکے بعد صدر ایوب خان چین کے توسیع پسندانہ خطرات کیخلاف پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دفاع چاہتے تھے ۔ خالقِ پاکستان کے ذہن میں پاک و ہند کے درمیان سوفٹ بارڈرز اور دو طرفہ اچھے تعلقات کا واضح خاکہ تھا ۔ ایک الگ نظریاتی ملک حاصل کرنے کے باوجود دونوں کے بیچ مذہب ، زبان ، ادب ، نظام تعلیم اور کھانوں میں یکسانیت جبکہ تاریخ ، ورثہ اور جغرافیاؤں میں اپنائیت سے انکار ممکن نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ قائد نے بمبئی میں اپنی مینشن کو اپنی تحویل میں رکھنا چاہا تاکہ آنا جانا لگا رہے ۔ مسلمانوں کی مساجد ، قبرستان اور تاریخی ورثے جبکہ علی گڑھ جیسے احیائے علوم کے نامور تعلیمی ادارے اور دارالعلوم بریلی و دیوبند جیسے اسلامی مراکز اُدھر ہندوستان میں موجود تھے ۔ سیاسی ، مذہبی و آزادی کی تحاریک کے منبع مقامات بھی وہیں تھے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی آبادی سے کہیں زیادہ مسلمان ابھی بھی وہاں سکونت پذیر تھے ۔
دوسری طرف ہندوؤں کے بیشمار مذہبی و تاریخی مقامات اِدھر پاکستان میں تھے تو کچھ لوگ بھی یہاں رہ گئے ۔ کراس مائیگریشن کرنے والے اکثر خاندان تقسیم ہو کر دونوں ممالک میں بکھرے پڑے تھے ۔ قائد کی وژن کے مطابق دونوں جانب کے لوگوں کو دوسری طرف موجود اپنے عزیزوں سے ملنے اور تاریخی و مذہبی مقامات کی زیارات کیلئے آسان اجازت دی جاتی تو دونوں ممالک کے بیچ مذہبی ، تعلیمی اور سیاحتی ٹورازم باقاعدہ انڈسٹری بن کر اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ۔ جس سے دونوں معاشروں میں رکھ رکھاؤ ، بردباری اور مذاہب کے مابین ہم آہنگی و رواداری کا عام چلن ہوتا اور دونوں ممالک کی عوام میں خوشحالی یقیناً بڑھتی ۔ آمد و رفت میں حائل خونی سرحدوں کی بجائے یہ بارڈرز لازوال دوستی کے پُل بن جاتے ۔ مگر ہندو حکمرانوں کو اس وقت پاکستانی راہنماؤں کی دوراندیشی سمجھ نہ آئی ۔ جس کا خمیازہ دونوں عوام آ ج تک بھگت رہے ہیں ۔
دونوں ممالک میں یکساں معروف و مقبول صحافی کلدیپ نائر کے مطابق انہوں نے ایک بار جناح سے پوچھا تھا کہ اگر کوئی ملک بھارت پر حملہ کرے تو آپ کی حکمت عملی کیا ہو گی ۔ اس پر جناح نے اپنا واضح اور دو ٹوک موقف کچھ یوں دیا تھا : “ہم بھارت کی مدد کریں گے ۔ ہم دونوں ممالک مل کر ڈریگون یعنی چین کو مار بھگائیں گے” ۔ اس موقع پر قائد نے جرمنی اور فرانس کی مثال دینا بھی ضروری سمجھا کہ دو ممالک کی باہمی جنگوں کی طویل تاریخ کے باوجود وہ آج کیسے دوستانہ تعلقات میں گُندھے ہوئے ہیں ۔
شاید 1959 میں دیگر زمینی و دفاعی حقائق کے علاوہ قائد کے یہ خیالات بھی صدر پاکستان ایوب خان کے پیش نظر رہے ہونگے ۔ جب انہوں نے غالباً گوادر اور گرد و نواح کے مشترکہ گرم پانیوں کو چین سے محفوظ رکھنے کیلئے بھارت کو دو بار مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی ۔ چین کے خلاف مشترکہ دفاع پر مبنی دور رس نتائج کی حامل اس پاکستانی پیشکش کو دونوں بار بھارتی نیتاؤں نے رد کر دیا تھا ۔اس سے قبل 52 کےبعد سے ہی چین کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کا واضح جھکاؤ امریکہ کیطرف ہونے لگا تھا ۔ اور پاکستان امریکی چھتری تلے سیٹو اور سینٹو جیسے چین مخالف مغربی معاہدوں کا حصہ بن چکا تھا ۔
امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا روس کے بعد سرخ چین کو دنیا کیلئے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہی تھی ۔ دنیا کے انگ انگ میں چین کا خطرہ رچ بس چکا تھا ۔ خاموشی و مستعدی سے دفاعی استحکام سے بڑھ کر اسکے روس کیساتھ ملکر جارحانہ جنگی تیاریاں اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی چغلی کھا رہی تھیں ۔ اور اس سمت ہر اقدام اور پیشرفت دنیا کو کھٹک رہی تھی ۔ اسکے برعکس بھارت ان خطرات سے غافل چین سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں کوشاں رہا ۔
بھارت نے چین کی آزادی کے بعد مغربی ممالک کی مخالفت کے باوجود اسے UNO کا ممبر بنانے کیلئے کافی جستجو کی ۔ تب ہند میں “ہندی چینی بھائی بھائی” کے دلکش نعرے کانوں میں رس گھولتے تھے ۔ مگر چین کو بھارتی دوستی سے ہٹ کر کچھ اور چاہیے تھا ۔ اسکا انتخاب جلد ، بدیر یا بتدریج سامنے آنے والا تھا ۔ دوسری طرف پاکستان نے PIA کے ذریعے چین کا فضائی رابطہ پوری دنیا سے استوار کیا ۔ اور یوں غیر ملک جانے اور واپس آنے والے چینی باشندوں جبکہ پوری دنیا سے چین آنے والے سفیروں اور دیگر مسافروں کو پہلے کراچی میں سلامی دینی پڑتی تھی ۔ آگے جا کر پاکستان جیسے اس چھوٹے ملک نے چین جیسے بڑے ملک کیلئے اور بھی بہت کچھ کیا جس سب کیلئے آج بھی اسے ہمارا شکرگزار ہونا چاہیے ۔ شکر گزار تو اسے بھارت کی گرانقدر کوششوں کا بھی ہونا چاہیے تھا ۔ مگر جلد ہی ثابت ہو گیا کہ قائداعظم اور صدر ایوب کی نظروں نے بھارتی زعماء کے برعکس چینی خطرات کو ٹھیک بھانپا تھا ۔
چین نے تبت پر تسلط مضبوط بنانے کے بعد اپنے مزید توسیعی عزائم کو 1962 میں حقیقت کا رُخ دیا ۔ اس نے تبت تک بھارت کا راستہ بند کرنے ، کشمیر ، بھارت ، بھوٹان ، نیپال ، پاکستان اور گوادر کے پار گرم پانیوں تک توسیعانہ نظر جمائے رکھنے کیلئے لداخ کے کلیدی مقامات راتوں رات فوج کشی سے بھارت سے ہتھیا لئے تھے ۔ زمین کی چھت کی حیثیت سے جانے والے اس علاقے میں آج پھر دونوں ممالک اپنے اپنے مسلز آزما رہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ اس برفیلی زمین سے جنگ عظیم سوئم کی چنگاریاں پھوٹیں جو تمام ایٹمی و سپر طاقتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے ۔ باسٹھ میں چینی یکطرفہ کاروائی کو المناک و شرمناک شکست قرار دینے والے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ بھارت نے سرے سے جوابی وار کیا ہی نہیں تھا ۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کے اس بیان پر بے انتہا تنقید ہوئی تھی کہ “وہاں ایک تنکا تو اگتا نہیں” ۔ یاد رہے ، ایسا ہی بیان ربع صدی بعد جنرل ضیاء سے بھی منسوب کیا گیا جب سیاچین پر بھارتی قبضے کیبعد انہوں نے کہا تھا کہ “سیاچین پر تو گھاس بھی نہیں اگتی” ۔ جس پر انکی مخالف بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ “گھاس تو جنرل کے سر پر بھی نہیں اگتی” ۔
خیر اچانک آئی اس چینی افتاد پر ایک بار بھارت کو ہماری پیشکش کی خوب یاد آئی ۔ گو انہوں نے باضابطہ مدد مانگی تو نہیں مگر انہیں آس ضرور لگی رہی کہ شاید پاکستان انکی اخلاقی و فوجی حمایت کرے گا ۔ بھارتیوں کو یقین تھا کہ اس موقع پر پاکستان انکی مدد کرتا تو چین کو یہ سب کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ تاہم امریکہ کے علاوہ چین کے سابق دوست ، محسن و مربی اور نظریاتی قبلہ و کعبہ روس نے اس موقع پر کھل کر بھارت کی اخلاقی و سفارتی حمایت کی ۔ جبکہ بھرپور چینی شہہ کے باوجود پاکستان نے اس تاریخی موقع کا فائدہ بھی نہ اٹھایا اور غیر جانبدار رہا ۔ کیونکہ کچھ تو اسوقت چین پر اعتماد کا فقدان تھا اور کچھ امریکہ کی لاج بھی ضروری تھی ۔
رات گئے چین سے موصولہ پیغام لیکر جب صدر کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب نے عالم خوابیدگی سے ایوب کو بیدار کر کے چینی صدر کا پیغام سنایا تو انہوں نے اس پر کسی مثبت ردعمل دینے کی بجائے اپنی نیند جاری رکھی ۔ پیغام میں کشمیر آزاد کرانے کیلئے پیش قدمی کی دعوت کیساتھ بھرپور فوجی معاونت کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ مگر ایوب چونکہ گردن تک مغربی الائنس میں دھنس چکے تھے ، اتحادیوں کی ناراضگی کے خوف سے اس چینی آفر کا فائدہ نہ اٹھا سکے ۔
بھارت کیخلاف جارحانہ فتح جبکہ پاکستان کیلئے پیشکش جیسے چینی اقدامات نے ایوب کو مہمیز بخشی اور انہوں نے بالآخر 1963 میں چین کیساتھ کچھ لے دے کر کے سرحدی تصفیات کر لئے ۔ یہ چین کی زبردست کامیابی تھی ۔ کیونکہ پاکستان اسکا یکطرفہ انتخاب اور اسکی دوستی کب سے چین کی پہلی ترجیح بن چکی تھی ۔ جبکہ پاکستان تو شروع سے ہی اس کیخلاف بھارت کیساتھ دفاعی معاہدے کا متمنی رہا تھا ۔ اور بھارت تھا کہ چین کا آنچل پکڑے جا رہا تھا ۔ یوں نہ بھارت کی مراد بر آئی نہ پاکستان کی ۔ بلکہ جس کی مراد پوری ہوئی وہ فقط چین تھا ۔ اس نے شاید شروع ہی سے جو گول سیٹ کئے تھے ان پر پورے عزم کیساتھ بتدریج چلتا رہا اور آج ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی ہیں اور اُسی گوادر میں بذریعہ سیپیک پوری دنیا سے تیز سمندری رابطے قائم کرنے جا رہا ہے ۔
چینی پیشکش کا جب دوسرے راہنماؤں کو معلوم ہوا تو ضائع گئے موقع پر انہیں انتہائی قلق و تاسف ہوا ۔ تبھی یہ سوچ کر کہ باسٹھ میں شرمناک شکست کے بعد بھارتی افواج کے حوصلے پست ہونگے ، کیوں نہ انہیں ایک گوریلا آپریشن کر کے کشمیر میں دبوچ لیا جائے ۔ ہم نے یہ تخمینہ لگا کر صریحاً ایک مِس ایڈونچر کیا کہ بھارتی افواج کو بین الاقوامی بارڈرز پر جنگ ڈکلیئر کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو گی ۔ آپریشن جبرالٹر کے نام سے ہم نے کشمیر میں کمانڈوز تو گھسا لئے مگر کچھ تو ہوم ورک ادھورے رہ گئے تھے اور کچھ بھارتیوں کے مورال بارے ہمارے اندازے بھی غلط ثابت ہوئے ۔ کیونکہ جوابی اقدامات کے طور پر جلد ہی بھارت لاہور اور سیالکوٹ کے انٹرنیشنل بارڈرز پر افواج لے آیا تھا ۔ ایک بار پھر مشرف نے اسطرح کا بلنڈر کارگل میں اس تخمینے پر کیا کہ بھارت وہاں ائیر فورس کو نہیں لا سکے گا ۔ مگر جب اس نے ایسا کر لیا تو مشرف نے راتوں رات نواز شریف کو قائل کر کے امریکہ بھیجا کہ وہ اب کسی بھی طرح بھارت کے فضائی حملے رکوائے ۔ تب کلنٹن نے پاکستان کیساتھ کمزور پڑتے تعلقات کے باوجود پاک بھارت جنگ کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
جہاں تک پاک امریکہ ریلیشنز میں گرمجوشی کی کمی اور سرد تعلقات میں تناؤ کا معاملہ ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس مغربی الائنس کا حصہ بنے تھے جو روس اور چین جیسے کمیونسٹ ممالک کیخلاف تھا ۔ ان معاہدات کے تحت ملنے والے تمام اسلحہ جات ہم صرف انہی ممالک کیخلاف استعمال کرنے کے پابند تھے ۔ مگر ہماری نظریں کہیں اور تھیں اور نشانہ کہیں اور تھا ۔ روایتی بھول پن یا غلط فہمی سے ہم نے سوچا کہ امریکی و یورپی وار ویپنز ایک بار مل تو جائیں ، بعد میں دیکھا جائے گا ۔ جب ہمارا پیسہ لگا ہو گا تو ہماری مرضی ہو گی کہ جہاں چاہیں استعمال کریں ۔ پھر دشمن چاہے روس ہو چین یا بھارت ، اسلحہ فروخت کنندگان کو اس سے بھلا کیا غرض ہو گی ۔ مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ہمارا حد سے بڑھا ہوا اعتماد غلط تھا ۔
پھر انہی غلط فہمیوں بلکہ دھوکے کے احساس میں غلطاں تاؤ کھاتے ہم یکطرفہ طور پر امریکہ سے بتدریج دور ہوتے گئے ۔ اس میں کافی حد تک کردار بہرحال شہد سے میٹھی دوستی کے سحر کا بھی تھا ۔ جبکہ بھارتی واویلے کا بھی اہم کردار رہا ۔ جو ظاہر ہے کچھ فسانہ تھا تو بہرصورت کچھ حقیقت بھی تھی ۔ کیونکہ ہمارے ارادے بھارت کیلئے کوئی سربستہ راز بھی تو نہیں تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی حمایت سے پاکستان چاہے روس سے نبرد آزما تھا یا طالبان سے ، بھارت کا ایف سولہ کی ڈیل پر سیخ پا ہونا یقینی ہوتا ۔ اسکی تسلی کیلئے معاہدات میں امریکہ ہر ممکن یقینی بناتا کہ یہ طیارے کبھی اسکے خلاف استعمال نہ ہو سکیں ۔ مگر پھر بھی اسکا اصرار ہےکہ فروری 19 کی فضائی مڈبھیڑ کے دوران پاکستان نے اسکے خلاف ان طیاروں کا استعمال کیا تھا ۔ اسکی شکایات اور پریشر پر اعلی ٰ امریکی قیادت نے اس معاملے کو پاکستانی اکابرین کیساتھ اٹھایا تھا اور بظاہر یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔
قوم کو جھوٹے بیانیوں کے پیچھے لگانے والے میڈیا میں ایسی خبریں آخر کہاں آتی ہیں ۔ اور ہم شکایت کرتے ہیں کہ سب ہمارے خلاف ہیں ۔ دریاؤں کی تقسیم ہو ، IMF سے قرضوں کا حصول ہو ، موٹرویز کی لین کی تعداد میں تبدیلی کا معاملہ ہو اور سینڈک کا معاہدہ کرنا ہو یا اسکی تنسیخ ، دستخط کرتے وقت یا تو افسر بابو معاہدوں کی جزئیات دیکھتے نہیں یا بعد میں سیکریٹریز اور وزراء میسنی بہو بن کر اپنے خلاف ساس کے مظالم کی داستانیں سناتے ہیں ۔ ان جیسی داستانوں کو مشرف دور میں جب روایتی ساس بہو کے جھگڑوں جیسی تشبیہہ دی گئی تو ہیلری کلنٹن کافی محظوظ ہوئی تھیں ۔
امریکہ سے ناچاتی کی دوسری اہم وجہ ہمارا نیوکلیئر پروگرام تھا ۔ ایٹمی کلب کے تین مغربی ممبران کا شروع سے ہی واضح موقف تھا کہ دنیا کو درپیش خطرات کے پیش نظر کلب کو قطعاً وسعت نہ دی جائے ۔ اور چاہے سپین و اٹلی اور جرمنی جیسے یورپی برادر ممالک بھی کیوں نہ چاہئیں ، انکی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف امریکی سینیٹر بہت سرگرم رہے ۔ اور افغان جنگ میں تعاون کیوجہ سے ہر سال امریکی صدر کو سینیٹ میں ایک جھوٹا تصدیق نامہ پیش کرنا پڑتا تھا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت نہیں کر رہا ۔ مگر جونہی افغانستان سے روسی افواج کا انخلاء ہوا تو امریکی صدر نے ایسا تصدیق نامہ جاری کرنا روک دیا ۔ نتیجتاً پاکستان کو امریکی فوجی امداد میں تعطل آ گیا ۔ اور پاکستان یکطرفہ طور پر امریکہ سے دور ہوتا گیا ۔
امریکہ کا دیگر ممالک سے اتحاد کرنے کا محور چونکہ کمیونسٹ نظریات کی مخالفت رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاک چین دوستی کے بلندیوں کو چھونے کے بعد امریکہ کو احساس ہوا کہ چین دشمنی کیوجہ سے اب بھارت ہی اسکا قدرتی حلیف ہے ۔ باقاعدہ دوستی سے پہلے بھی امریکہ صرف اسکی جمہوریت کی وجہ سے اسکا کافی لحاظ اور ناز نخرے اٹھاتا رہا ہے ۔ دوسری طرف چین پاکستان کو ایک حلیف سے بڑھ کر کیا مقام دیتا ہے ، وہ سمجھانے کیلئے ایک چینی جرنیل نے امریکیوں کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا تھا کہ : ” پاکستان چین کا اسرائیل ہے “۔ مگر اس کے برعکس ہمیں ثابت کرنا ہو گا کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کے باوجود ہم کسی کے بغل بچے نہیں بلکہ ایک آزاد و خود مختار قوم ہیں ۔
بغل بچے سے یاد آیا کہ دنیا کی دوسری فوجی طاقت روس میں آجکل ایک نظریہ کافی فلوٹ ہو رہا ہے کہ چین روس کو اپنا بغلی بچہ بنانا چاہتا ہے ۔ آج روسی انٹیلیجنسیا بھی ایشیائی ریاستوں میں چین کے بڑھتے قدموں سے خائف ہے ۔ چین کی توسیع پسندی کا خوف و خطرہ بیجا ہرگز نہیں ۔ ہر وہ ملک جو کبھی آمناً و صدقناً چین کی معاونت کرتا رہا ، چین نے ضرور بالضرور اسے نیچا دکھایا ۔ اس نے نہ عالمی برادری کا فعال حصہ بنانے والے بھارت سے وفا کی ، نہ ہی ایٹم بم اور جنگی ٹیکنالوجیز میں بھرپور اعانت دینے والے سوشلسٹ قبلہ ، مربی و گرو روس کا ساتھ نبھایا ۔ اور نہ ہی مارکیٹ اکانومی کے نام پر ایک کمیونسٹ ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لاؤ لشکر اور پلانٹس سمیت صنعتی ترقی کا سیلاب لانے والے مغربیوں کو کبھی محسن سمجھا ۔ بلکہ یہ کہنے میں بالکل مبالغہ نہ ہو گا کہ چین کی حکمران لادین کمیونسٹ پارٹی وہ سخت گیر ادارہ ہے جس سے چینی عوام بھی محفوظ نہیں ۔
چینی حکومت کے سفاکانہ حکم سے 1990 میں تیانمین اسکوائر میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران یونیورسٹی طلباء پر ٹینک چڑھا کر مرکزی چوک میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ دوسری طرف مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم بھی اب ڈھکے چھپے نہیں رہے ۔ انہیں نام رکھنے اور روزہ ، نماز و تلاوتِ قرآن کی آزادی نہیں ۔ ہٹلر کے بعد آج اگر کوئی ملک مذہب کی بنیاد پر اپنی معصوم مسلم اقلیت کو عقوبت خانوں یا کنسنٹریشن کیمپس میں قید کر رہا ہے تو وہ ملک صرف چین ہے ۔ مجال ہے کہ اسلامی ممالک میں اسکے خلاف کوئی بات کرے ۔ کیا چینی مسلمان امت محمدیہ کا حصہ نہیں ؟
جنرل حمید گل نے ایک بار چینی جرنیلوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں بہتے مسلمانوں کے خون کیوجہ سے چین ابتلاؤں سے بچا پڑا ہے ۔ تو انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی ۔ کیونکہ افغان جنگ کے بعد عراق و لیبیا اور بعد میں شام و یمن میں خون خرابوں کیوجہ سے امریکہ کی چین پر سے سخت گرفت ڈھیلی پڑی اور یوں وہ نا صرف درپیش خطرات سے بچا رہا بلکہ اس دوران خود کو معاشی و دفاعی طور پر مضبوط بناتا رہا ۔ کیا ہوتا اگر اسی بات کی خاطر چین اپنی مسلم اقلیت کو نہ ریاستی جبر کا نشانہ بناتا اور نہ ہی خود مغربی تنقید کا سامنا کرتا ۔ آج کے کرونا ایشوز پر بھی مغربی اداروں کو زبردست شکوہ ہے کہ چین نے مقامی وبا کو پینڈیمیک بننے سے روکنے کیلئے ضروری مستند معلومات کو عالمی برادری سے مخفی رکھا ۔ اور جو بھی معلومات شیئر کیں انہیں توڑ مروڑ کر پیش کیا ۔
کرونا ایشو پر چین و امریکہ کے مابین سرد جنگ کے دوران جاپان اور مغربی دنیا چین سے اپنی ٹیکنالوجیز ، انڈسٹریل پلانٹس اور انویسٹمنٹ نکال کر بھارت منتقل کرنا چاہتے تھے ۔ اس سے باز رکھنے کیلئے چین بھارت کو ایک غیر محفوظ ملک دکھانا چاہتا ہے ۔ چین کے مفادات کی خاطر ہمیں کسی بڑے خطرے میں کودنے سے پہلے ہزار بار سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپریشن جبرالٹر اور کارگل کو بھی یاد رکھنا ہو گا اور چینیوں کی کرنیوں کو بھی ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
ممالک کے مابین دوستی و دشمنی دائمی نہیں ہوتی بلکہ اقوام کے درمیان تعلقات بدلتے مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے قومی مفادات مقدم رکھیں ۔ چاہے چین ہو یا امریکہ ، دوست تو بنائیں مگر مالک و آقا کا مقام ہرگز کسی کو نہ دیں اور طاقتوں و ھمسایوں کے درمیان ہر ممکن ایک توازن قائم رکھیں ۔

قائد کی واضح سوچ اور اس سمت میں ایوب کی پیشرفت بالکل صحیح تھی ۔ اگر بھارتی حکمران انسٹھ میں سمجھ جاتے تو نہ بھارت کو آج امریکہ کی اور نہ ہمیں چین کی یوں ضرورت ہوتی ۔ جیسے ہم کبھی امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے تھے ۔ ویسے آج بھارت یورپ سے آتی امریکی افواج کے انتظار میں لداخ تو کیا کشمیر سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں