نیب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی اور وزراء تک کو داخلے کی اجازت نہ دینا ، میاں نوازشریف کی مسلم لیگ کی صدارت سنبھالنا اور کور کمانڈرز کا طویل اجلاس چند حالیہ واقعات ہیں جو بظاہر الگ تھلگ مگر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے واقعات ہیں، جس سے ملک میں سیاسی ٹمپریچر کے بڑھنے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سرکس کی تنی ہوئی رسے پر چلنے کی کوشش کررہی ہے۔ مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلتوں سے اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ اور کردار مجروح ہوچکا ہے ۔ اب کی بار اس کی سیاسی پھرتیاں یا پولیٹکل مینی پولیشنز شاید ہی بار آور ثابت ہو ۔ پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے ۔ اندرونی اور بیرونی فضا اب اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی پھرتیوں کیلئے سازگار نہیں ۔
پنجاب کے حکمران طبقات میں انتشار ، کشمکش اور سیاسی صف بندی اداروں تک پھیل رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ منقسم ہوتی جارہی ہے ۔ اب بلوچوں ، سندھیوں اور پشتونوں کے بعد پنجاب کی سیاسی اشرافیہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی کھل کر مخالفت کرنے پر مجبور ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ میں لسانی ، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر مختلف لابیاں موجود ہیں ۔ اگرچہ چھوٹی قومیتوں اور پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کے مفادات میں فرق ہے مگر اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔
مذہبی اور لسانی تعصبات ، امتیازی رویے اور سوچ نہ صرف ادارہ جاتی ڈھانچے بلکہ بنیادی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے ۔ بالادست لابی کٹر سُنی اور پنجاب سے تعلق رکھتی ہے ۔ ٹاپ قیادت میں دیگر لسانی اور مذہبی گروپوں کی نمائندگی اور تناسب کم ہوتا جارہا ہے۔ کثیرالسانی ، ثقافتی اور مذہبی معاشروں میں قیادت کا یک جنس (homogeneous) ہونا بہت سے سیاسی مسائل اور پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے ۔ مثلاً دہشت گردی کے مسئلے کو پشتون بیلٹ اور پنجاب میں مختلف طریقوں سے ڈیل کرنا ۔ پشتون بیلٹ میں گائوں کے گائوں تباہ جبکہ پنجاب میں کریک ڈاؤن ہوتا ہے ۔ پشتون بیلٹ میں ایف 16 تک کے طیارے استعمال ہوئے ۔ اس طرح پنجاب میں کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کا زیادہ نوٹس لیا جاتا ہے بہ نسبت دوسرے علاقوں کے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے ڈٹ کر مقابل نظر آتے ہیں ۔ میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کے وقت بھی اس قسم کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی مگر ادارے کے بارے میں اس وقت عوامی سطح پر اتنی مخالفت اور غم وغصہ نہیں تھا ۔ جبکہ تنقید کا زیادہ تر نشانہ اس وقت کے منصب صدارت پر فائض غلام اسحاق خان تھے جنہوں نے 58 ،ٹو ۔بی کا استعمال کیا تھا ۔
موجودہ صورتحال اس وقت کے حالات سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سول-ملٹری تعلقات پہلے کی نسبت نہایت کشیدہ ہیں ۔ سول -ملٹری تعلقات کی موجودہ نہج کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کشیدگی افقی اور عمودی دونوں شکلوں میں پھیل رہی ہے۔ اور بات اب شخصیات کی ذاتی پسند و ناپسند تک محدود نہیں رہی بلکہ ریاستی اداروں اور سیاسی اداروں تک پھیل چکی ہے۔ نیب کورٹ میں رینجرز کی تعیناتی سے اسٹیبلشمنٹ کا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک امیج بھی خراب ہوا ہے ۔
دوسرا پہلے میڈیا اتنا طاقتور اور سوشل میڈیا اتنا موثر نہیں تھا اور نہ فریقین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اس کا اس قدر بھرپور استعمال کیا تھا۔ اب تو باقاعدہ قلم بردار اور کیمرہ بردار فوج ظفر موج ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہے۔ فوج سے وابستہ ادارے اور اس سے قریب تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا گروپس بعض حکومتی شخصیات اور ان کے خاندان کی کردار کشی میں پیش پیش ہیں ۔ میڈیا میں بھی اسٹیبلیسمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے لوگ موجود ہیں ۔ یہ بات بھی اب راز نہیں رہی کہ بعض حساس معلومات اور مواد تک ان صحافیوں کی کس طرح رسائی ممکن ہوجاتی ہے جو عام حالات میں ایک صحافی کی دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ مثلا ًٹیپ شدہ ٹیلی فونک بات چیت ، ای میل رابطے وغیرہ وغیرہ ۔
تیسرا سیاسی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئے دباؤ اور بلیک میلنگ کی پوری داستانیں موجود ہیں ۔ دھرنوں کا انعقاد ، ڈان لیکس اور آئی ایس پی آر کا غیر معمولی متنازعہ پریس ریلیز وغیرہ وغیرہ ۔ اسٹیبلشمنٹ کی بدقسمتی کہ فعال میڈیا کو کسی نہ کسی طریقے سے بھنک لگ جاتی ہے اور بہت سی باتیں اور منصوبے افشا ہوجاتے ہیں۔ چوتھا اسٹیبلشمنٹ کی غلط اور ناعاقبت اندیش پالیسیاں پہلے کی نسبت بہت زیادہ افشا ہوچکی ہیں اور اس کے تباہ کن اثرات عوام کے وسیع حلقوں تک پہنچ چکے ہیں اور اس کی بنائی گئی پالیسیوں کی کوتاہ اندیشی ، محدودیت اور مضر اثرات آشکارہ ہوچکے ہیں۔
پانچواں اسٹیبلشمنٹ اپنے روایتی سیاسی حلیفوں جو سیاسی طور پر آزمودہ کار اور عوام کو متحرک کرنے کا تجربہ اور مہارت رکھتی تھی کی حمایت کھو چکی ہے اور اب نوآزمودہ اور عسکری پس منظر رکھنے والی قوتوں پر اکتفا کر رہی ہے اور ان کے ذریعے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا نے کی کوشش جارہی ہے ۔ہلچل تو مچ جاتی ہے مگر عوامی سطح پر اس کا کچھ خاص اثر نہیں پڑتا ۔ اسلئے اس کمزوری پر قابو پانے کیلئے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے ۔
چھٹا ،پہلے کی نسبت اسٹیبلشمنٹ اب بین الاقوامی سطح پر اہم مغربی قوتوں کی سیاسی حمایت کھو چکی ہے۔ جبکہ ماضی کے برعکس اب کچھ عرصے سے بہت سے معاملات میں اہم مغربی قوتیں پاکستانی فوجی قیادت کی بجائے سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔۔ جبکہ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں بشمول چین اور روس عسکریت پسندی کے خاتمے اور علاقے میں امن اور استحکام کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ ڈو مور تقریبا ًتمام بیرونی قوتوں کا مطالبہ ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ چین اور روس جیسے ممالک نرمی سے یا بین السطور اوردیگر سختی سے یا جارحانہ انداز میں کہتے ہیں ۔

اس صورتحال میں مندرجہ ذیل سوالات اور اس کے جوابات اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔ کیا اسٹیبلشمنٹ منقسم ہوتی جارہی ہے اور نتیجتا ًحالات پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جائیگی ؟ کیا سول -ملٹری تعلقات نئے سرے سے استوار ہو جائیں گے یا توازن ملٹری کے حق میں مزید بڑھ جائیگا ؟ کیا اسٹیبلشمنٹ بند گلی میں پہنچ چکی ہے ؟ بڑھتی ہوئی داخلی کشمکش اور انتشار کا اثر ملک میں جمہوری نظام پر اچھا پڑےگا یا منفی ؟ کیا مسلم لیگ متحد رہ سکےگی یا نہیں ؟اور نوازشریف مزاحمت میں کس حد تک جاسکتے ہیں ؟ اور نئی سیاسی صف بندی کی ہئیت اور ساخت کیا ہوگی؟ نوازشریف کو مسلم لیگ کے ا ندر اورباہر تنہا کرنے کی پالیسی کتنی کامیاب ثابت ہوگی ؟ اور ان کے خلاف سیاسی قوتوں کے علاوہ مختلف مذہبی اور انتہاپسند گروپوں کو موبلائیز اور یکجا کرنےکا نسخہ کتنا کارگر ثابت ہوگا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں