یوں ہاتھ میں ایک پتلا سا ڈنڈا اٹھایا، بانس کے اس لکڑ کی قسمت یا بدبختی کی ریت کے ڈھیر پر لکیریں تراشتا گیا، آنکھوں میں ہار کا غصہ، پیشانی پہ پڑی شکنیں، ہاتھ میں سلگتا سگار اور پھیپھڑوں میں موجود گرم دھواں رگوں میں بہتے خون کو بدلہ لینے پہ مجبور کر رہا تھا۔۔۔!
اس لکڑ اور لکیروں کا کردار کیا ہے؟
بربادی ہے، عوامی بغاوت و جنگ و جدل ہے۔
سر ریڈکلف جو کہ ایک برطانوی وکیل تھے، ان کو برٹش ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھیجا گیا تھا۔یہ لکیریں غصے میں کھینچی گئی تھیں نہ کہ پریشانی میں۔ ان کے پیچھے سوچا سمجھا ایک منصوبہ تھا جو مغرب کے باشندوں کے خون میں سینکڑوں برسوں سے چلتا آ رہا تھا۔تاریخ کے صفحات یہی بتاتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تباہ کاری عوامی انتشار کی وجہ سے ہوتی ہے۔معاشرے میں عوامی، قبائلی و قومی جنگ ہی کسی بھی ریاست کو دیمک کی طرح چاٹ کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا بنا دیتی ہے۔ریڈکلف نے بھی اپنا منہ اوپر کر کے دھواں ہوا میں اڑایا ہوگا اور دل ہی دل میں کہا ہوگا کہ یسوع مسیح تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ اتنی بڑی بربادی کی بنیاد مَیں بنا۔ اپنا بوریا بستر سنبھالتے ہوئے اس نے بھی ہندوستان کی سرزمین پر دو تین لاتیں زور کی ماری ہوں گی کہ دیکھنا اب کتنا خون بہے گا تیری چھاتی پہ۔
بلوچستان بلکہ پاکستان بھر میں آج کل سب سے بڑا مسئلہ سرسید کا تراشیدہ دو قومی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایک مختلف دو قومی نظریہ ہے جس کا عقائد و کلمہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سیاست سے تعلق ہے۔ افغانستان کے چند علاقے بلوچستان کے ساتھ شامل کر دیے گئے۔ جن میں پشین، قلعہ سیف اللہ و قلعہ عبداللہ، ژوب، لورالائی، موسیٰ خیل کے علاقہ جات شامل ہیں۔بلوچستان میں موجود پشتونوں کو بلوچ آبادی کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ساحلی علاقہ جات میں پشتونوں کے لیے کاروبار کے مواقع بہت کم ہیں۔ چوں کہ دو قومی نظریے کی اصطلاح استعمال کی جا چکی ہے چنانچہ بلوچوں کی کثرت ساحلی علاقوں میں موجود ہے۔
تعلیمی حوالے اور دیگر کئی حوالوں سے پشتون آبادی مشکلات کا شکار ہے۔ ایسا ان کے ساتھ اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ ان کی آبادی کہیں کاروبار کے حصول کے لیے اور کہیں تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے بکھری ہوئی ہے۔ ان کو ایک ہی جا ء پر منظم کر کے اور تمام تر مواقع فراہم کر کے اُن کی اِن مشکلات کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ پشتونوں کو جنوبی پشتونخوا کے نام سے ایک الگ صوبہ منظم کر کے دیا جائے جس میں موجود علاقوں کا نام اوپر بیان کیا گیا ہے یا انہی علاقوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ملایا جائے۔ایسا کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوں گے اور بلوچستان میں موجود افغان مہاجرین کا قصہ بھی ہمیشہ کے لیے نمٹ جائے گا۔ پشتون ایک ہی جگہ پہ منظم ہو جائیں گے۔ ریڈکلف کا بچھایا ہوا جال بھی ٹوٹ جائے گا اور خطے میں ایک مکمل پُرسکون اور پُرامن فضا قائم ہو جائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں