ڈاکٹر مختار ظفر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ بیک وقت محقق،نقاد، تاریخ دان اور معلم ہیں۔ڈاکٹر مختار ظفر تحقیق اور ادب کے دائرے میں مسلسل مصروفِ کار رہتے ہیں۔ان کی کوئی نہ کوئی کتاب گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی ہے۔ان کی کتابوں کے موضوعات خالصتاً تحقیقی ہیں ۔یہ تمام تر تحقیق اُنہیں تھکانے کی بجائے مزید کام کی جانب اُکسانے کا بہانہ بن جاتی ہے اور یوں وہ کچھ اور تن دہی سے متذکرہ دائروں میں خدمات انجام دینے میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ پنجاب کا تاریخی شہر ،ملتان جسے ’’مدینۃ الاولیاء‘‘بھی کہا جاتا ہے، صاحبِ کتاب کا عشق ہے اور عشق بھی یک سر بے خطر۔ تاہم، بے ثمر ہرگز نہیں کہ اُن کا پی ایچ ڈی بھی ’’ملتان کی اُردو شعری روایت‘‘ کے عنوان پر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب ’’ملتان، ادب اور تصوّف‘‘بھی مصنّف کے اِسی ’’ملتانی عشق‘‘ کا مظہر ہے۔ کتاب کے مندرجات قاری کو نہ صرف ملتان کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کرتے ہیں، بلکہ ادب اور تصوّف سے اُس کے مضبوط رشتے کا بَھرپور احساس بھی دلاتے ہیں۔ ملتان سے عشق کی ایک اور کڑی ان کتاب ” شعر و ادب کی محفلیں۔۔۔۔ ملتان کی” کی ہے۔ان کے اس عشق کے بارے ڈاکٹر محمد آمین یوں رقمطراز ہیں۔
” ملتان کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں سامنے آ چکی ہیں بیشک انہیں ماہر ملتانیات کہنا بے جا نہ ہو گا”. زیر تبصرہ کتاب” شعروادب کی محفلیں۔۔۔۔ملتان کی۔۔۔۔۔” ملتان سے عشق کا ایک اور ثبوت ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملتان کے بارے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔

” یہ قلمی کاوش پھر شہر ملتان کے حوالے سے ہے۔غالباً اس لئے کہ ملتان نے مجھے اپنے دل میں جگہ دی، شناخت دی۔ہمارے لئے یہ عروس البلاد کی مانند ہے”. حضرت بہاؤالدین زکریا کا شہر ملتان جیسے مدینہ الاولیاء کہا جاتا ہے۔یہ پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد ہے۔ملتان ہمیشہ علم وادب کا مرکز رہا ہے۔مصنف نے قدیم سے لے کر حال تک ملتان کی ادبی مجالس کا اختصار سے جائزہ لیتے ہوئے ملتان کو ادبی تاریخ کے حاشیے سے اٹھا کر مرکز میں لانے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر ان محفلوں کی ادبی، علمی اور تاریخی اہمیت کو خوب انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں ازمنہ قدیم کا پس منظر ہے۔دوسرے اور تیسرے باب میں اردو تنظیموں کی کارگردگی کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں سرائیکی اور پنجابی تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے۔آخری باب میں ضمیمہ جات کے ساتھ اصغر ندیم سید اور سجاد جہانیہ کے مضمون شامل ہیں۔کتاب کو فکشن ہاؤس نے شائع کیا ہے۔آخر میں ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ وہ راقم کو گاہے بگاہے اپنے علم سے نوازتے رہتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں