آمد ِ خط سے ہو ا ہے سر د جو بازار ِ دوست
دود ِ شمع کشتہ تھا شاید خط ِ رخسار ِ دوست
ستیہ پال آنند
بندہ پرور، آپ سے پوچھوں ، بصد عجز و نیاز
کیا نہیں اس شعر میں اوچھی سی، اک گھٹیا سی بات؟
پوچھتا ہوں اس لیے میَں با ادب ، بندہ نواز
صاف گوئی، سادہ وضعی تو ہے پاکیزہ مذاق
تذکرہ یو ں ’’آمد خط ‘‘ کا رُخ ِ معشوق پر
اور اُس کے چاہنے والو ں کاُ اس سے اجتناب
ہے نہیں یہ عامیانہ سفلگی ، بے غیرتی؟
آپ کی شائستگی سے یہ توقع تو نہ تھی
مرزا غالب
مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تم ، اے ستیہ پال
اس مو قف پر ابھی کچھ اور کہنا چاہتے ہو
میں بھی جویا ہوں کہ کوئی تو مجھے چوکس کرے
ہاں، کہو اس باب میں کیا ہے تمہارا نظریہ؟
ستیہ پال آنند
صنف تو معشوق کی ظاہر ہے اس اک بات سے
مردوا ہے، ایک لڑکا ہے، ابھی کم عمر ہے
لفظ ’’لونڈا‘‘ نا روا ہے ، نجس ہے، ناپاک ہے
اس لیے میں نے نہیں برتا کہ ہے گندا، کثیف
کیا غلط میں نے کہا ہے؟ آپ کچھ فرمایئے
مرزا غالب
تم سے کیا پردا ، عزیزم ! میرا یہ دستور ہے
اک خزانہ عامرہ الفاظ کا ہے ذہن میں
قفلِ ِ ابجد اس تجوری کا اگر کھل جائے، تو
اپنے مطلوبہ سھی الفاظ چن لیتا ہوں میں
لفظ ’’لونڈا‘‘ پر تمہاری نکتہ چینی ہے درست
پر اسے خود میر ؔ نے برتا ہے، گو تحقیر سے
ستیہ پال آنند
آپ، قبلہ، میرؔ سےکیوں لے رہے ہیں یہ ثبوت؟
آپ تو خود میرؔ کے قائل نہیں ہیں،سر بسر
اس کو تو ’’اگلے زمانے کا کوئی‘‘ کہتے ہیں آپ
مرزا غالب
میرؔ کو ’’عطار کا لونڈا‘‘ بھی حرف ِ عفو ہے
اور غالبؔ کے لیےکوئی سبکدوشی نہیں؟
واہ، ستیہ پال، یہ محسن کشی استاد کی
ستیہ پال آنند
جی نہیں،اے محترم استاد، ایسا کچھ نہیں
مجھ کو تو اک ’’مردوا معشوق‘‘ پر ہے اعتراض
کل جہاں میں تین سو بارہ زبانیں ہیں، مگر
یہ غلاظت ہے اگر تو فارسی میں ہے ، حضور
اور چونکہ ہم تتبع میں بہت ہشیار ہیں
اس لیے ہی پیروی میں یہ برائی حسب ِ حال
مرزا غالب
اب کہو کچھ شعر کی تخلیقیت کے ضمن میں
ستیہ پال آنند
طنز ہے یا پھر اہانت ہے یہاں محبوب کی
یہ بھی اک نکتہ ہے ہم سب کے سمجھنے کے لیے
گویا اک چٹکی بجا کر آپ کا کہنا ۔۔۔ ’’میاں
خط کی آمد نے کیا ہے تجھ کو یوں بد حال، دیکھ
ایک تو چہرے کی آب و تاب ہی گم ہو گئی
اور اس پر یہ بلا، ، عاشق بھی سب عنقا ہوئے
کیا نہیں یہ نا مناسب خردہ گیری، اے جناب؟
مرزا غالب
کوئی خوبی بھی ہے کیا اس شعر میں، اے ستیہ پال؟
ستیہ پال آنند
مثل شمع تھا یقیناً وہ رخ ِ پر نور ۔۔۔۔پر
خط کی آمد نے اسے یک لخت ہی گل کر دیا
خط کی یہ کالک تھی گویاشمع کے بجھنے کا رنگ
یہ یقینا ً استعارے کا ہے وہ حسن ِ ملیح
جس کے قائل آپ بھی اور دوسرے شاعر بھی ہیں
اور بھی اک بات ہے جس نے مجھے خوش کر دیا
آپ نے معشوق کو جب ’’دوست‘‘ کا رتبہ دیا
میں نے تو اس وقت ہی دل میں کہا تھا ’’مرحبا‘‘
’’دوست‘‘کا درجہ تو اوپر ہےکسی ’’معشوق‘‘ سے

مر زا غالب
بر سبیل ِ تذکرہ اس بات کو سمجھو، عزیز
حسن کم ہونے لگا جب روشنی مدھم ہوئی
اور سب جھوٹے تماشائی رفو چکّر ہوئے
صرف گویندہ ہی باقی رہ گیا اس بزم میں
دوست کا درجہ تو ’’عاشق‘‘ سے بھی اونچا ہے،عزیز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں