عزت

واہ بھئی ۔آج تو لگتا ہے کہ عید ہے۔ اتنے عرصے بعد آپ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انھیں گلے لگاتے ہوئے کہا۔
بالکل سر ۔ میں بھی یہی کہنے والا تھا۔لمبی سفید داڑھی والے بزرگ نے مجھ سے کہا۔
میرا ان سے تعلق پانچ سال پہلے اس وقت گہرا ہواجب وہ ہماری ٹیم کا حصّہ تھے جنہیں میرے ساتھ مل کر ایک بڑا فنکشن کروانا تھا۔ان کی شرافت اوردیانت باقی لوگوں کے لیے ضرب المثل تھی۔اُس کے بعد ایسے بچھڑے کہ آج ملاقات ہوئی۔
میں:آج کل کیا ہو رہا ہے۔کہاں ہیں؟
بزرگ:اللہ کا شکر ہے کہ دس ماہ پہلے عزت سے ریٹائر ہو گیاہوں۔ الحمداللہ 35 سال ملازمت کی۔
میں:بہت خوب۔تو اس کا مطلب آزادی۔ پھر کہیں اور کام شروع کیا؟
بزرگ:نہیں سر۔ابھی تو اپنے کاغذات وغیرہ پورے کر رہا ہوں۔
میں:وہ کس چیز کے؟
بزرگ:سر پنشن اور دوسرے واجبات کے لیے۔ بس اسی میں وقت گزر جاتا ہے۔
میں:اچھا ۔ لیکن دس ماہ بہت وقت نہیں ہو گیا؟
بزرگ:جی سر ۔ بس میں تو اپنی پوری کوشش میں لگا ہوں۔روزانہ صبح ناشتے کے بعد سرکاری دفتر پہنچ جاتا ہوں۔اکثر متعلقہ آدمی سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔ میں انتظار میں بیٹھ جاتا ہوں۔ اگر ملاقات ہو ، تو وہ جہاں جانے اور کاغذات لانے کا کہتا ہے،وہاں چلا جاتا ہوں۔
میں:تو آپ نے کسی سے کہلوایا ہوتا؟یہ تو بہت وقت ہو گیا۔
بزرگ:جی سر۔آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔لیکن وہاں تو مجھ سے بھی بوڑھے لوگ اسی طرح آتے جاتے ہیں۔یہ تو معمول ہے۔ظاہر ہے۔طریقۂ کار ہی یہی ہے۔
میں:چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔آپ کوئی اور مصروفیت شروع کریں۔یہ کام خود ہو جائے گا۔
بزرگ:ہنستے ہوئے۔نہیں سر۔آپ کو شاید معلوم نہیں۔سرکاری کام ایسے نہیں ہوتے۔پیچھے جانا پڑتا ہے،کچھ دل کو جلانا پڑتا ہے۔ پھر اور کام کیا کروں؟کچھ جیب میں ہو توسہی ۔سوچا تھا جو رقم ملے گی اس سے کچھ سامان خرید کرچھوٹی سی دکان شروع کر لوں گا۔سرکاری ملازمت میں تو آپ کو پتہ ہے۔ بچتا کب ہے۔اسی لیے انتظار میں ہوں کہ رقم ملے تو کچھ شروع کروں ۔
میں:آپ کی تعلیم تو اچھی خاصی ہے؟پھر سے کوئی ملازمت کیوں نہیں کر لیتے؟
بزرگ:جی سر۔میں گریجویٹ ہوں۔مگر عزت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب خوف رہتاہے کہ کہیں حالات سے مجبور ہو کر ملازمت میں خیانت نہ کر بیٹھوں۔اس لیے چاہتا ہوں کہ بس کچھ چھوٹا موٹا اپنا ہی کام کر لوں۔
میں سوچنے لگا ہم کیسے لوگ ہیں ۔کیا بوڑھے شخص کو اپنا حق لینے کے لیے ایسے ہی جوتیاں چٹخانا چاہئیں؟ 35 سال دیانت داری سے سرکاری ملازمت کرنے والے کو خلعت فاخرہ نہ دیں، کم از کم عزّت تو دے دیں۔

Facebook Comments

عمران حسن خان
ایسوسی ایٹ پروفیسر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply