• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کربلا یزید اور ہمارا نظام عدل(کافروں کی عدالت کا تاریخی فیصلہ)۔۔عامر عثمان عادل

کربلا یزید اور ہمارا نظام عدل(کافروں کی عدالت کا تاریخی فیصلہ)۔۔عامر عثمان عادل

یہ 27 اگست کا واقعہ ہے ۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائس چرچ کی عدالت کھچا کھچ بھری  ہوئی تھی ۔چار روز سے جاری سماعت کا آج آخری روز تھا ۔ عدالت میں موجود ہر شخص سانس روکے فیصلے کا منتظر تھا۔نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار رونما ہونے والے دہشت گردی کے سانحے کا مقدمہ عدالت کے روبرو تھا۔

گزشتہ سال 15 مارچ کو اسی شہر میں جب مسلمان مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے، 29 سالہ آسٹریلوی نژاد ملزم نے بے گناہ نہتے نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں اور بربریت کے مناظر اپنے ماتھے پر آویزاں کیمرے کے ذریعے فیس بک پر لائیو دکھانے لگا۔
51 نہتے ، معصوم نمازی اس کی وحشیانہ فائرنگ سے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔کچھ نمازی جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ورنہ ہلاکتیں زیادہ ہوتیں۔

سماعت کے پہلے تین دن 64 سے زائد گواہوں کے بیان قلمبند کیے گئے۔فیصلہ سنائے جانے سے قبل پورا ایک گھنٹہ فاضل جج نے مجرم کو اس کے ہاتھوں مارے جانے والے اور زخمی ایک ایک شخص کا نام لے لے کر جھنجھوڑا۔۔اب وہ لمحہ آن پہنچا جسے نیوزی لینڈ کی تاریخ بننا تھا۔۔
فیصلہ سناتے ہوئے جج نے مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
” تمہارا یہ فعل انتہائی  غیر انسانی عمل ہے ،جس پر تم کسی رعایت کے  مستحق  نہیں ہو ۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ تمہارے چہرے پر کوئی  ندامت ہے نہ پشیمانی۔تمہارا جرم اس قدر گھناؤنا ہے کہ تمہاری جان نکلنے تک بھی تمہیں قید میں رکھا جائے تو سزا کا حق ادا نہیں ہوتا۔
میں تمہیں 51 بے گناہ لوگوں کے قتل عمد ، 40 لوگوں کے ارادہ قتل اور دہشت گردی کے ارتکاب پر عمر قید کی سزا سناتا ہوں جس میں تمہیں پیرول پر رہائی  نہیں ملے گی نہ ہی تم اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہو “۔

عدالت میں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار اور انصاف ملنے پر دل سرشار تھے۔یہ مجرم اب کبھی سورج کی روشنی دیکھ پائے گا نہ آزادی کی تمنا اس کا مقدر۔یہ ہر روز جیے گا اور ہر روز مرے گا دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کے موت کی تمنا کرے گا۔

یاد رہے نیوزی لینڈ کے قانون کے مطابق عمر قید پاکستانی عدالتوں کی مانند کچھ برس نہیں بلکہ تا حیات ہوتی ہے۔

میرے دوستو !
عالم کفر کی ایک عدالت میں فیصلہ سنانے والا قاضی تھا ،نہ  راسخ العقیدہ مسلمان۔۔مجرم بھی غیر مسلم اور جج بھی کافر،لیکن مدعی کون تھا کلمہ گو مسلمان۔۔کافروں کی وزیر اعظم کا رد عمل اس سزا پر دیکھیے۔۔
” مقام شکر ہے کہ مجرم کو کسی فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے نہ ہمیں اس کے متعلق سوچنا پڑے گا۔
ہم اب اس بارے کبھی کچھ نہیں سنیں گے “۔
یوں ایک سال چند ماہ لگے 51 افراد کے مقدمہ قتل کا فیصلہ سنائے جانے میں۔

اب آ جائیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظام عدل کی جانب۔۔
عمریں بیت جاتی ہیں مظلوموں کی عدل کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں خجل خوار ہوتے،طاقتور بااثر وقت کے فرعون بے گناہوں کو پہلے حقیر کیڑے مکوڑوں کی مانند مسلتے ہیں،اور پھر انصاف کی خاطر پیشیاں بھگتنے جانے والوں کو سر راہ یا عین عدالت کے باہر گولیوں سے بھون کر ہر نشان مٹا دیتے ہیں،

کل دس محرم تھی۔۔
یہ درس کربلا کا ہے
کہ خوف بس خدا کا ہے
لیکن آئیے ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہے؟

نہیں میرے دوستو
کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف مل گیا ؟
کیا وہاں کربلا بپا نہیں ہوئی  تھی؟
سانحہ ساہیوال کے بے گناہوں کے یتیم بچوں کے سروں پہ کسی نے دست شفقت رکھا ؟
کیا ان معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے کربلا کی تاریخ نہیں دہرائی  گئی تھی؟

اور ہم اپنی فیس بک کو شہادت کے رنگوں سے مزین کرنے والوں میں سے کسی نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دہرانے کی جرات کی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو پھر آئیے اعتراف کریں کہ ہمارے آس پاس ہر گام کوئی  نہ کوئی  زمینی خدا یزید بنا بیٹھا ہے۔اور ہم حسینی ہونے کے کھوکھلے دعوے کرنے والے کوفیوں سے بھی بد تر ہیں۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply