کچھ احباب شہدا کوئٹہ کے جسد خاکی کو لوکل وین پہ آبائی وطن بھیجے جانے کو انسانیت کی تذلیل قرار دے رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ حضور پورے بلوچستان میں سرکاری ایمبولینسز کی تعداد ساٹھ نہیں بنتی کہاں سے لاتے ایمبولینسز..؟
پورے بلوچستان میں دو بڑے ہسپتال ہیں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے رہائشی علاج کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کر کے یا کوئٹہ جاتے ہیں یا ملتان کا رخ کرتے ہیں اول تو مریض کے راستے میں دم توڑ جانے کے قوی امکانات ہوتے ہیں اگر کوئی خوش نصیب بڑے ہسپتال تک پہنچ بھی جائے تو بڑی تعداد میں مریضوں کے دباؤ کی وجہ سے عملے کی کمیابی بیڈز اور دوائیوں کی عدم دستیابی جیسے مسائیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
پاکستان سے الحاق کے وقت سے سنتے آ رہے ہیں کہ بلوچستان سے نا انصافی ہو رہی ہے اک ہی سکرپٹ کو آنے والی ہر حکومت دہراتی ہے یعنی کردار بدلتے رہتے ہیں فسانہ وہی رہتا ہے اور ان کی محرومی دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا ہر حکومت سرداروں کے بل پر حکومت کرنا چاہتی ہے احساس محرومی دور کرنے کے لئے تعلیم پہ زور دینے کا راگ الاپا جاتا ہے یہ بلوچ اگر سرداروں کے چنگل میں رہتے تو اچھا تھا مگر آپ کی مختلف سکالر شپس نے انہیں تعلیم کی طرف راغب تو کر دیا اب جب وہ پڑھ لکھ گئے ہیں تو ان کے لئے روزگار نہیں.اُس بے روزگار بلوچ نوجوان کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں جو روز اس امید پر اٹھتا ہے کے شاید آج کا سورج اس کے لیے خوش خبری لائے مگر شام تک ناامیدی اور گہری ہوجاتی ہے. اب تو یہ حال ہے خاکروب کی نوکری کے لیے بھی ایم اے پاس نوجوان درخواست دیتے ہیں ، لیکن ان کو وہ بھی نہیں ملتی. مایوسی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے. امیر صوبے کے غریب تعلیم یافتہ نوجوان اب مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں. ہر سال صوبہ بلوچستان کی حکومت تین سے چار ہزار ملازمتوں کا اعلان تو کرتی ہے، پر سال و ماہ گزر جاتے ہیں لیکن ان اعلانات پر عمل درآمد نہیںکیا جاتا. وفاق میں تو بلوچستان کا کوٹہ صرف 6 فیصد رکھا گیا ہے جس میں صرف ایک تا چار گریڈ کی ملازمتیں ہوتی ہیں، اس سے زیادہ نہیں.ظا ہر ہے جب انسان بھوکا ہو تو وہ یقیناََ غلط راستے کا ہی انتخاب کرے گا اوپر سے ٹیکنالوجی نے ہر چیز دسترس میں کر دی ہے نوجوان چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں آٹے میں نمک کے برابر درجہ چہارم کی ملازمتیں دے کر اوپر پنجابی بیوروکریسی مسلط کر دیتے ہیں سوئی کی گیس سے لے کر سینڈک کے سونے تک ان کی آنکھوں کے سامنے نکال کے لے جایا جاتا ہے اور بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے افسران کی طرف سے جھڑکیاں اب اک باشعور نوجوان نسل کس طرح احساسِ محرومی، ناانصافی اور جبر میں جیے گی؟وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا جو کوٹہ رکھا گیا ہے، اس پر عمل درآمد نہیںہوتا. جس سے نوجوانوں میں احساسِ محرومی بڑھتا ہے اور اس احساس محرومی کو سردار اور دوسری پاکستان مخالف قوتیں ہتھیار بنا کر نوجوانوں کو ورغلاتی ہیں اوپر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناروا سلوک جلتی پہ تیل کا کام کرتا ہے گمشدہ افراد کی لسٹ میں بڑھتا ہوا اک نیا نام اک خاندان کو باغی کرنے کا موجب بنتا ہے.
انسانیت کے نام پہ ٹسوے بہانے سے بہتر ہے کہ بلوچستان کو اس کا حق دینے کی بات کریں.. گمشدہ افراد کی بازیابی کی بات کریں..سوئی کی گیس کی رائلٹی دیں سینڈک کے سونے میں حصہ دیں گوادر میں حق ملکیت دیں انڈسٹریز لگانے کی بات کریں روزگار کے ذرائع بڑھانے کی بات کریں صاف پانی تعلیم صحت اور دوسرے بنیادی حقوق کی بات کریں.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں