• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میں حرام رزق پر حرام موسیقی کو ترجیح دیتا ہوں۔۔اسد مفتی

میں حرام رزق پر حرام موسیقی کو ترجیح دیتا ہوں۔۔اسد مفتی

یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب میں بحیثیت فلم ڈائریکٹر “ناگ منی’کا بیک گراؤنڈ میوزک کمپوز کروارہا تھا،اور نثار بزمی فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔وہ صبح سے شام تک ناگ منی کے ایک ایک فریم پر اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے، جب آدھی سے زیادہ فلم کا میوزک بن چکا تو اچانک ایک دن ایورنیو سٹوڈیو کے تھیٹر ہال میں انہوں نے مجھ سے پوچھا،
تمہارا پسندیدہ راگ کونسا ہے؟
میں نے کہا:مجھے راگ بھیروی اور پہاڑی پسند ہیں۔
بزمی صاحب کا جواب مجھے آج بھی یاد ہے اور شاید کبھی بھی بھول نہ پاؤں۔۔۔کہنے لگے
تمہیں فلم ہدایتکار کی بجائے موسیقار ہونا چاہیے تھا!

حقیقت میں نثار بزمی صاحب کا بڑا پن،عظمت اور انی آنکھ کا حسن تھا۔جس نے مجھ جیسے موسیقی کی ابجد سے ناواقف شخص میں موسیقی کی جان پہچان دیکھ ڈالی۔
آج لگ بھگ پچاس برس قبل کا یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ حال ہی میں ریڈیو سے نشر ہونے والا نوشاد صاحب کا ایک انٹر ویوسننے کا موقع ملا،اس انترویو میں انہوں نے جن راگوں کی تعریف و توصیف کی تھی،وہ یہی راگ بھیروی اور پہاڑی تھے۔
انٹرویو سن کر مجھے اپنا قد کچھ اور نکلتا ہوا محسوس ہوا۔۔
نوشاد صاحب سے میری پہلی ملاقات بہت کم رہی،اتنے عظیم موسیقار سے صرف دوبار ملنا حج تو کیا عمرے کے برابر بھی نہیں ہے۔
پہلی ملاقات علی صدیقی مرحوم کی منعقد کی ہوئی اردو انفرنس دہلی میں ہوئی،پاکستان سے بھی بہت سے شاعر ادیب حضرات مدعو کیے گئے تھے،اور یورپ سے مجھے دعوت دی گئی تھی،اسی کانفرنس کے دوران علی صدیقی صاحب نے میرا تعارف نوشاد صاحب سے کروایا،اور بتایا،یہ ہالینڈ میں رہتے ہیں۔
انہوں نے پوچھا ہالینڈ تو پھولوں کادیس ہے،وہاں آپ کیا کرتے ہیں
میں نے کہا،آوارہ گردی۔۔اور اس آوارہ گردی کا کارن آپ ہیں۔
حیران ہوئے۔۔مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے،بھئی میں کیوں؟
میں نے کہا،دیکھیے۔۔جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے،ہمارے ساتھ “حادثہ”یہ ہوا کہ ہمارے کان میں اذان کی بجائے آپ کی موسیقی کی کان میں چلی گئی۔بس پھر کیا تھا دین کے رہے نہ دنیا کے۔یوں سمجھیے اسی دن سے آپ کے گرویدہ ہوگئے۔

میری بات سُن کر نوشاد صاحب بہت خوش ہوئے۔کہنے لگے۔۔صاحب آپ نے تو ہمیں فلک پر پہنچا دیا۔ویسے جوانی میں آنکھیں اور کان دل کا ساتھ دیا کرتے ہیں اور آپ جوان ہیں۔
میں نے کہا ویسے لوگوں کا قد سر سے پاؤں تک ناپا جاتا ہے،مگر کچھ لوگوں کا پاؤں سے آسمان تک۔یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔کچھ دیر تک فلم و ادب اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعدمیں نے انہیں اپنا وزیٹنگ کارڈ پیش کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا۔۔نہیں بھئی،آپ سے ابھی اتا پتا نہیں لیں گے،آپ سے ہمیں پھر ملنا ہے۔
میں نے ان کے بڑے سے دل میں چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔
میری ان سے دوسری ملاقات بھی دہلی میں ہوئی،اس ملاقات میں دنیا جہان کے موضوعات پر بات چیت ہوئی،لیکن میرے خیال میں ان موضوعات کو احاطہ ء تحریر میں لانے کے لیے کوئی اور وقت اٹھا رکھتے ہیں۔یہاں میں صرف موسیقی اور اپنے پسندیدہ راگوں بھیروی اور پہاڑی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
جب میں نے اپنے پسندیدہ راگوں میں بھیروی اور پہاڑی کا نام لیا تو انہوں نے میری پسند کی تائید کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ فلمی موسیقی کے بھی کئی حوالے دئیے،شہنشاہ موسیقی کی باتیں میرے دل پر نقش ہوتی چلی گئیں۔
مجھے یاد آتا گیا کہ نوشاد صاحب کے بہترین گیت اسی راگ بھیروی کی دین ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین نغمے بھیروی میں پیش کیے۔۔اور مجھے کیوں یہ راگ پسند ہے؟۔۔آئیے اس سے آپ کو واقف کرواتا ہوں۔
کہتے ہیں موسیقی کی دیوی کے آٹھ روپ ہیں۔ان میں سے ایک راگ بھیروی کہلاتا ہے۔
اس راگ نے یہاں تان سین سے لیکر نوشاد علی تک سے خراج ِ عقیدت وصول کیا ہے،اس راگ کی بھارت میں نوشاد اور شنکر جے کشن اور پاکستان میں نثار بزمی اور واجہ خورشید انور نے اپنی انمول اور سحر انگیز دھنوں میں بکثرت استعمال کیا ہے،راگ بھیروی جہاں عوام میں نامور رہا،وہاں خواص میں بھی مقبول ہے۔بھیروی نا صرف کامل راگ ہے،بلکہ یہ سات سُروں کی بجائے بارہ سُروں کے ساتھ ایک خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا راگ ہے۔کہ یہ راگ علی الصبح کا راگ ہے،اس لیے اس میں روشنی،تازگی،نازکی،خوشبو اور بادِ صبا جیسی نفاست کی جھلک ہے۔
آئیے آپ کو نوشاد کے چند ایسے گانوں کے بارے میں بتاؤں جن کا خمیر راگ بھیروی سے اٹھا ہے،اور وہ میرے پسندیدہ نغموں میں شمار ہونے کی وجہ سے ہر دم میرے ہونٹوں پر مچلتے رہتے ہیں،
1946میں لاہور میں بھاٹی گیٹ کے رہنے والے اے آر کاردار نے شاہجہاں کے نام سے ایک فلم بنائی،اس کے موسیقار نوشاد تھے،اس کا ایک نغمہ جس کو نوشاد نے اپنی سحر انگیز موسیقی میں ترتیب دیا تھا،اور کے ایل سہگل کی سدا بہار آواز میں ہم تک پہنچا تھا،یہ نغمہ تھا “جب دل ہی ٹوٹ گیا”۔
اس نغمے سے جو واقعہ وابستہ ہے،وہ یوں ہے کہ یہ گیت خود سہگل کو اس قدر پسند تھا کہ انہوں نے مرنے سے قبل نوشاد سے وعدہ لیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے جنازے اس گانے کی دُھن بجائی جائے۔چنانچہ کے ایل سہگل کے جنازے پر نوشاد نے اس پُردرد اور پُرسوز دُھن کو بجا کر عظیم گلوکار دوست کو خراج تحسین پیش کیا۔
اس کے بعد نوشاد نے لتا منگیشکر کو “دُلادی”میں موقع دیا۔انہوں نے پھر اسی راگ میں لتا سے اس فلم کے لیے یہ دل موہ لینے والا گیت ریکارڈ کروایا۔۔
اے دل تجھے قسم ہے تو ہمت نہ ہارنا
دن زندگی کے جیسے بھی گزرے،گزارنا
میرے حساب سے لتا منگیشکر کی یہ لاجواب آواز پاک و ہند میں نوشاد کے اسی گیت کی وجہ سے پہنچی تھی۔نوشاد نے فلم بیجوباورا ے تمام نغمے کسی نہ کسی راگ میں بنائے تھے،اور یہ عمل محض راگ برائے راگ تک نہ تھا۔بلکہ نوشاد کی یہ شعوری کوشش تھی کہ ہر ایک نغمے کو ایک الگ الگ راگ میں پیش کیاجائے۔
بیجو باورا کا مشہور گانا تھا
تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا
راگ بھیروی میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع ی جوڑی نے گایا تھا۔اسی طرح دلیپ کمار،نمی اور مدھو بالا کی فلم اَمر،جسکی موسیقی اسی جادو گر نوشاد نے ترتیب دی تھی،کا یہ ہمیشہ زندہ رہنے والا گیت
انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے۔۔
محمد رفیع نے گایاتھا۔(یہاں سینکڑوں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں)۔
نوشاد کے فن کا کمال صرف راگ بھیروی تک ہی محدود نہیں تھا،انہوں نے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ پاپولر میوزک اور فوک سنگیت کو یکجا کردیا تھا۔میرے حساب سے ان کی موسیقی مندر و چرچ کی گھنٹیوں اور اذان کی آواز میں مکس ہوکر ایک خوبصورت نغمے میں ڈھل جاتی ہے۔چونکہ انسان موسیقی کا پیدائشی عادی ہے،اس لیے اس نے کسی نہ کسی شکل میں موسیقی کو گلے لگا رکھا ہے۔
ہماری مذہبی کتابوں میں دعائیں ملتی ہیں،یا قرآن مجید کی بعض سورتوں ہیں،جن میں بے پناہ نغمگی ہے،کہ آپ معنی سمجھیں نہ سمجھیں،لیکن آپ کو اس کو کسی سلیقے والے آدمی سے سنتے ہیں تو اس کا ایک تاثر ہوتا ہے کہ موسیقی زبان کی محتاج نہیں،اس کی زبان اور پہنچ ہے،موسیقی حقیقتاً ایک جادو ہے سُر انسان کے اندر ہوتے ہیں،آلات موسیقی تو محض انہیں باہر لانے کا ایک وسیلہ بنتے ہیں۔
یہاں مجھے نوشاد کا کمپوز کیا ای ک بھجن یاد آرہا ہے۔
من تڑپت ہری درشن کو آج
کہتے ہیں یہ بھجن پنڈت نہرو کو بے حد پسند تھا،پنڈت جی مذہبی آدمی نہیں تھے،لیکن نوشاد کے اس بھجن کی کمپوزیشن پر فدا تھے،جب نوشاد کی بیجوباورا ریلیز ہوئی اور نمائش سے پہلے ہی اس کے گیتوں نے آسمان سر رپر اٹھا لیا توبھارت کے صدر بابو راجندر پرشاد نے پنڈٹ جی کی ہمراہی میں بیجوباورا دیکھنے کا پروگرام بنایا،طے ہواکہ یہ فلم نوشاد صاحب کے جلو میں دیکھی جائے گی،(واہ:کیا زمانے تھے)سو بابو راجندر پرشاد،پنڈٹ جواہر لعل نہرو،اور نوشاد علی تینوں نے اکٹھے فلم بیجو باورا دیکھی،جب محمد رفیع کی آواز میں بھارت بھوشن نے یہ بھجن گایا،تو دونوں سیاستدانوں نے بے اختیار عظیم موسیقار کو گلے سے لگا لیا۔
لینن نے بیتھون کے بارے کہا تھا کہ میرے خیال میں APPASLONATAسے زیادہ خوبصورت شئے کوئی نہیں،میں جہاں کہیں بھی ہوں اس کی گونج میرے کانوں میں آسانی سے آجاتی ہے،یہ اپنی طرز کی دل آویز،انوکھی اور بے مثال موسیقی ہے،میں جب بھی اس کے بول سنتا ہوں تو بڑے فخر و غرور اور بچوں ے سے بھولپن سے سوچتا ہوں کہ انسان کیا کچھ نہیں کرسکتا۔
اب تو آپ سب جان ہی گئے ہوں گے کہ مجھے بھیروی اور نوشاد کیوں پسند ہیں؟

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔