سٹریس کا سرکٹ ایسے توڑیں( سٹریس ویکسین سیریز)قسط5۔۔عارف انیس

سب سے پہلے تو تمام پڑھنے والوں کا شکریہ، جنہوں نے اپنے سٹریس کے سرکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ سٹریس کا سرکٹ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم نے سیکھا کہ سٹریس خود بخود نہیں ہوجاتا۔ پہلے ایک “واقعہ” ہوتا ہے اور دماغ سٹریس ہارمون چھوڑ کر “ٹیاؤں ٹیاؤں” شروع کر دیتا ہے، جس کا رد عمل ہماری ہارڈ ڈرائیو کے اندر پراسیس ہوتا ہے ۔ہارڈ ڈرائیو میں ہمارے ماضی کے معاملات، تجزیات اور عادات موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ تقریباً “خود کار” طریقے سے ردعمل ظاہر ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر چشم زدن میں ہوجاتا ہے، مگر یہ اپنے سٹیپس /مراحل پورے کر کے سرکٹ مکمل کرلیتا ہے۔

سینکڑوں پڑھنے والوں نے اپنے تجربات شیئر کیے کہ وہ اپنے آپ کو سٹریس کیسے کرتے ہیں۔ بہت سوں نے بتایا کہ ان کے اندر آڈیو کیسٹ چلتی ہے۔ بہت سوں کو تصویر نظر آتی ہے۔ ایک بھاری تعداد نے وڈیو کے بارے میں بتایا یعنی تصویر بھی آواز کے آہنگ کے ساتھ۔ قدرے کم تعداد کو جسم کے اندر علامات محسوس ہوتی ہیں، جیسے متلی کی کیفیت، آدھے سر کا درد، معدے میں بھاری پن یا تیزابیت کی علامات وغیرہ۔ عموماً یہ جسمانی علامات ان لوگوں میں نمایاں ہوتی ہیں جو طویل عرصے تک سٹریس کی آگ پر پکتے رہتے ہیں اور اب تناؤ کی کیفیت کسی نہ کسی جسمانی علامت میں ظاہر ہوچکی ہوتی ہے۔

یہ سب بری خبریں ہیں، اچھی خبر یہ ہے کہ ہر طرح کی سٹریس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قیمتی بات یہ ہے کہ سٹریس ایک سیکھا ہوا سبق ہے۔ اسے بھلایا بھی جاسکتا ہے۔ دوہرایا بھی جاسکتا ہے۔ یاد بھی کیا جاسکتا ہے۔

یاد رکھیں کہ آپ کی %80 سٹریس آپ کے %20 قریبی ترین لوگوں کی وجہ سے ہے۔ جو لوگ آپ کی زندگی کے قریب نہیں ہیں وہ آپ کو غصہ تو دلا سکتے ہیں، مگر سٹریس نہیں۔

اب یہ ایک طویل بحث ہے کہ سٹریس کیسے شروع ہوئی اور اس کے پیچھے کون کون ملوث ہے۔ عام طور پر سٹریس دینے والوں میں ہمارے قریب ترین رشتے، اماں، ابا، بہن بھائی، بھابی، شوہر، بیوی، محبوب، محبوبہ، باس، کولیگ ،پارٹنرز، دوست احباب شامل ہوتے ہیں۔ یہ میدان انہی کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ ہم بچپن سے انہی کو دیکھ کر غیر شعوری طور پر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہم نے سٹریس کیسے لینی یا دینی ہے، چیخ چلا کر، برتن توڑ کر، یا کمرے میں اپنے آپ کو بند کرکے خاموش آنسو بہا کر، یا پھر سر پر پٹی باندھ کر آسمان سر پر اٹھا کر، ہم بچپن سے یہ “ماڈلنگ” سٹارٹ کر دیتے ہیں۔

یہ ذہن میں رکھیں کہ سٹریس لینے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے، تاہم آپ کے اندر موجود سرکٹ کی وجہ سے چند ثانیوں میں فیصلے ہوجاتے ہیں اور آپ سے اس بارے میں پوچھا نہیں جاتا۔

ابھی جو بات آپ سننے والے ہیں، شاید یہ سٹریس سیریز کی سب سے کارآمد اور یادگار بات ہے جو ہر صورت آپ کو پلے سے باندھ لینی چاہیے۔ یہ بات جاننے کے بعد “سٹریس جانم” کے ساتھ آپ کے تعلقات ایک نیا رخ اختیار کر لیں گے۔ آپ نے زندگی کا سارا علم، سارے رویے، ساری عادتیں دیکھ کر سن کر اور پڑھ کر حاصل کیے اور سٹریس ہونا بھی اس طرح سیکھا ہے۔ دنیا کا سارا علم جن حواس سے حاصل ہوتا ہے وہ بہت سادہ سے ہیں۔ آپ نے جو کچھ آج تک سیکھا ہے وہ دیکھ کر، سن کر، سمجھ کر، کر کے، یا محسوس کر کے سیکھا ہے اور پھر لگاتار اس کی پریکٹس کی بے۔ الف ب سیکھنے سے لے کر، لکھنے کی مہارت سے لے کر، کمپیوٹر استعمال کرنا، کھانا بنانا، فون استعمال کرنا، ڈرائیونگ کرنا، یہ سب آپ نے دیکھ کر، سن کر، کر کے سیکھے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ نے سٹریس بھی بالکل اسی طرح سیکھی ہے اور پھر برسوں اس کی پریکٹس کی بے، یہی آپ کا سرکٹ ہے۔

بہت غور سے سنیے گا یہ جاننا قطعاً ضروری نہیں کہ آپ کو سٹریس کیوں ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور آپ کو سٹریس کیوں ہونا یا نہیں ہونا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ آپ کیوں، کب، کیسے سٹریس میں ہیں۔ آپ بس سرکٹ میں سے پلگ نکال دیں۔
اب پلگ کیسے نکالیں؟

جواب پھر وہی ہے، زندگی ہمیں روز مارتی ہے۔ سٹریس لینے کے لیے دنیا میں کوئی بھی واقعہ ہوا، آپ نے اس کے بارے میں سوچا، تصویر آپ کے دماغ میں لہرائی، یا آڈیو بیان چلا یا پھر پوری بھرپور وڈیو۔۔۔۔۔ گیم آن ہوگئی۔ اب سرکٹ اپنا چکر پورا کرے گا اور اپنے انجام کو پہنچے گا۔ نتیجہ آپ کے سر میں پھوڑا، یا معدے میں تیزابیت کی شکل میں نکلے گا

اس کی سب سے کلاسیکی مثال ہمارے کلچر میں “دیو داس” کی   محبت ناکام ہوگئی، اب محبوب کی تصویر نکال کر بار بار کہنا اور سوچنا کہ اب اسے یاد نہیں کرنا۔ اب اگلے پچاس برس تک دیوداس محبوبہ کو نہیں بھلا پائے گا جب تک اس کی تصویر کو کسی اور تصویر سے بدل نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح ایک تصویر کو دوسری من چاہی تصویر کے ساتھ، وڈیو کو پسندیدہ وڈیو کے ساتھ، اور ڈائیلاگ کو پسند کے ڈائیلاگ کے ساتھ بدل لیں ورنہ کیسٹ پلیئر ایک ہی چیز بجا بجا کر تھک جائے گا۔

اسی طرح کی ایک اور مثال سگریٹ نوشی ترک کرنے کی ہے۔ اگر آپ بستر پر لیٹ کر یہی سوچیں گے کہ میں نے سگریٹ چھوڑ دینے ہیں، تو پھر نتیجہ کیا نکلے گا؟

یہ ایسے ہی ہے کہ یہ سطریں پڑھتے ہوئے میں آپ سے کہوں کہ نیلے رنگ کے بندر کے بارے میں مت سوچئے گا جس نے اورنج کلر کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ اب کسی صورت میں ہو ہی نہیں سکتا کہ پڑھتے ہوئے یہ نیلا بندر اور نارنجی ٹوپی آپ نہ دیکھیں بلکہ اس کی بتیسی بھی نکلی ہوئی دیکھیں گے۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر حالات حاضرہ کے بارے میں سوچ کر، پڑھ کر آپ کی شوگر، سٹریس اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اخبار پڑھیں اور رات کو سونے سے پہلے ٹاک شو دیکھیں تو یہ موذی مرض میں مبتلا ہونے کا نسخہ ہے جب تک اس عادت کو بہتر عادت سے بدل نہیں دیتے /دیتیں۔

تو ثابت کیا ہوا؟ یہ کہ اگر دماغ وڈیو یا آڈیو پلیئر ہے تو اس پلیئر پر کون سی وڈیو یا گانا لگے گا، وہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یا تو وہ آڈیو یا وڈیو چلتی رہے گی جو بچپن میں سٹور کی تھی، یا پھر ڈیلیٹ کرکے اپنی مرضی کا گانا، یا قوالی ریکارڈ کر لیں۔

کیا آپ یہاں تک میرے ساتھ ہیں؟

مختصر یہ کہ آپ کی زندگی کی تمام حسین یا بدترین یادیں، احساسات، جذبات یا تو تصویریں ہیں، یا وہ الفاظ یا ڈائیلاگ ہیں یا پھر وڈیوز ہیں۔ اب سب سے شاندار بات یہ ہے کہ آپ یہ تصویریں، ڈائیلاگ اور وڈیوز خود اپنی مرضی سے لوڈ یا آف لوڈ کرسکتے /سکتی ہیں۔ آپ کو ماہرین نفسیات کے ساتھ لمبے لمبے سیشن کرکے لاکھوں روپے اس بات پر نہیں لگانے کہ آپ کو سٹریس کیوں ہورہا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے تصویر یا وڈیو بدل کر اپنا پورا سرکٹ بریک کرسکتے ہیں۔ آپ کی تیس سال پرانی سٹریس بھی گھنٹے میں سرکٹ توڑ کر ختم کی جاسکتی ہے۔ پچھلے بیس برس میں میں ان گنت سٹوڈنٹس /کلائنٹس کے ساتھ یہ سب کچھ کرچکا ہوں اور یہ اتنا ہی آسان یا مشکل ہے۔
جس طرح آپ نے پریشان ہونا سیکھا ہے اسی طرح جینا بھی سیکھ سکتے /سکتی ہیں، مگر ٹولز الگ ہیں
وجہ جو بھول جائیں، سرکٹ کو توڑیں۔۔۔۔ وجہ ہمیشہ باقی بھی رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر یہاں تک پہنچ چکے /چکی ہیں تو اب اپنے سٹریس سرکٹ کو دماغ میں گھمائیں اور پکڑنے کی کوشش کریں۔ یا اپنی آنکھ کھولیں اور دیکھیں کہ آپ سٹریس کیسے لیتے /لیتی ہیں۔ اپنا پیٹرن پکڑیں اور منٹوں میں اس سے نجات پائیں۔ اگلی قسطوں میں، میں آڈیو، وڈیو اور تصویر کی مکمل مثالوں کے ساتھ پورا پراسیس آپ کے حوالے کروں گا۔

تو پھر کیا سمجھے /سمجھیں؟
(عارف انیس کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس)

julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply