دو دریاؤں کے سنگم پر۔۔نعیم فاطمہ علوی

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایایہی وہ کمرے تھے جن میں پھانسی والے مجرموں کو رکھا جاتا ،پھرباری باری ایک چھوٹی سی سرنگ کے راستے اس کنویں میں لا کر پھانسی دے دی جاتی ۔اور لاش کے ساتھ پتھر باندھ کرنیچے دریائے سندھ میں پھینک دیا جاتا ۔

میں نے خاموشی سے بہتے ہوئے دریا کو دیکھااور سوچا دریائے سندھ اور کابل میں بہنے والا پانی تو ان سب داستانوں کا گواہ ہو گا۔
پھر یہ اتنا خاموش کیوں ہے۔؟

دریائے سندھ کے پانی نے قلعے کی بوسیدہ دیواروں سے ٹکریں مار مار کر چیختے ہوئے کہا اگر اذن تخاطب کا حق ملےتو میرے اندر بھی صدیوں کی خونی داستانیں ہیں ۔اگر کبھی میرا  سینہ چیر کر یہ داستانیں ابل پڑیں تو طوفان آ جائے گا ۔۔

آج اسلام آباد میں کئی  دنوں کے بعد دھوپ نکلی تھی ۔موسم گرم تھاسو ان عقوبت خانوں کی کہانیاں سننے کے لیے کوئی  بھی تیار نہیں تھا۔۔میں نے اپنے بھانجے سلیمان سے کہا ،کیا اٹک قلعے کو اندر سے دیکھنے کا کوئی  بندو بست ہو سکتا ہے۔۔کہنے لگا مامی ہو تو سکتا ہے ۔مگر کہیں اور چلتے ہیں لاہور سے آئے ہوئے میرے بھتیجے بھی اس پروگرام سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے ۔۔میاں نے بھی ناگواری کا اظہار کیا۔کتنے ملکوں کے قلعے دیکھ چکی ہو، اٹک قلعہ نہیں دیکھا تو کیا ہو جائے گا۔

تمام مخالفت کے باوجودمیں اپنے اس قدیم رومانس کے ساتھ ساحر لدھیانوی کے اس خیال پر قائم رہی
“تجھ میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو”
حق ویٹو استعمال کرتے ہوئے جب میں نے کسی اور جگہ جانے پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا تو بادل ناخواستہ ساری فیملی اٹک قلعہ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

برہان انٹر چینج سے جی ٹی روڈ پر چلتے ہوئے اٹک کے قریب ہی بائیں طرف کو سڑک مڑتی ہے جو سیدھا قلعے تک پہنچا دیتی ہے۔یہ سڑک آگے اٹک سٹیشن کی طرف چلی جاتی ہے ۔بہر حال ہم تو قلعے کے پاس ہی رک گئے۔ ہمارے دائیں طرف دریائے سندھ کے کنارے یہ خوبصورت قلعہ جو کبھی ذہین لوگوں کی ذہانت اور مزدوروں کی سخت محنت سے وجود میں آیا ہو گا۔آج بھی اسی تمکنت سے مقام عبرت اور نشان حیرت بنا کھڑا ہے۔

اٹک قلعہ1581 میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے خواجہ شمس الدین کے زیر نگرانی دو سال دو ماہ کی مدت میں تعمیر کروایا ۔یہ سولہ سو میٹر کے احاطے پر مشتمل ہے۔اس کے چار دروازے ان ناموں سے موسوم ہیں ۔ دہلی دروازہ،موری دروازہ،کا بلی دروازہ اور لاہوری دروازہ۔۔ ہم موری دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوئے تو قلعے کی داخلی کشش نے توجہ کھینچ لی۔اورپھر جوں جوں آگے بڑھتے گئے یوں لگا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

قلعہ اپنی بے توجہی خستہ حالی اور زندہ لوگوں کی بے حسی کی داستان غم سناتا رہا میری فیملی ناک پر رکھے رومال سنبھالتی رہی اور میں اشکبار آنکھوں سے اس تاریخی ورثے کی بربادی کا کو نہ کھدرا دیکھتی رہی۔

دیواریں خستہ حال خوبصورت محرابوں میں سانپ اور چمگادڑوں کی حکومت۔ایک داخلی دروازے کی اوپر بنے ہوئے ڈوم میں ہزار ہا چمگادڑوں کو میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھاجو دن کی روشنی میں بھی اڑتی پھر رہی تھیں۔صدیوں سے بسیرا کیے ہوئے ان چمگادڑوں کے علاقے میں شاید صدیوں سے کسی نے صفائی  نہیں کی تھی کیونکہ یہاں سے اٹھنے والی بدبو نتھنوں سے گھس کر دل و دماغ میں ایسی بسی کہ تادیر قوت شامہ نہ سنبھل سکی۔

یہ تاریخی ورثہ حکومتوں کی ترجیحات کے لیئے سوالیہ نشان ہے۔قلعے کے اندر بڑی دلیری سے نئی عمارتیں کھڑی کی جا رہیں
عقوبت خانوں کے بارے میں ہمارے گائیڈ نے بتایا اس زمانے میں بادشاہت تھی بادشاہ نے جو کہہ دیا وہی ہوتا تھا کوئی  سوال تھوڑے کر سکتا تھا۔۔
میں نے پوچھا اور آج۔۔۔
اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا اور مسکرا دیا
ایک دروازہ جس میں نصب لوہے کے کیل دروازے سے دور ہی رہنے کا سندیسہ دے رہے تھے۔میں نے پوچھا یہ دروازہ کبھی کھلتا بھی ہے یا پکا پکا بند ہے گائیڈ نے بے ساختہ کہا
یہ پکا پکا بند ہے اس کے پار سویلین رہتے ہیں۔۔

میری فیملی گاڑیوں میں ائر کنڈیشن آن کرکے بیٹھ چکی تھی اور میں اشکبار آنکھوں سے دریائے سندھ اور دریائے کابل کے پانیوں کو سکون کے ساتھ بہتا ہوا دیکھ کر سوچتی رہی
ہماری ترجیحات کیا ہیں!
بھوک ننگ نہیں
انصاف کا حصول نہیں
تعلیم نہیں
نظم و ضبط نہیں
حفظان صحت نہیں
تو پھر تاریخی ورثے کا نمبر کیسے آ سکتا ہے۔۔
ہے کوئی جو جی ٹی روڈ اور دو دریاؤں کے سنگم پر صدیوں سے تعمیر اس قلعے کو زمانے کی دست برد سے بچا لے
ہے کوئی
جو اشکبار آنکھوں کی پکار سن کر قلعے کے خوبصورت احاطے میں نئی طرز کی دھڑا دھڑ بنتی عمارتوں کو روک سکے۔
میرے بھتیجےسلیمان نے مجھے گاڑی ہی کے اندر سے اشارہ کرکے بلایا جب میں پاس آئی  تو کہا
مامی آؤ چلتے ہیں میں نے تو پہلے ہی کہاتھا یہاں کچھ بھی دیکھنے والا نہیں۔
میں نے کہا بیٹا بہت شکریہ آپ نے مجھے خوابوں کی دنیاسے نکال کر حقیقت کی دنیا دکھائی۔اور سب سے معذرت کہ میں نے آپ سب کا وقت ضائع کیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔