اگر آجکل آپ رات کو آسمان پر نگاہ دوڑائیں گےتو لال رنگ کا ایک نقطہ آسمانِ دنیا پر جگمگاتا دکھائی دے گا! کبھی ایک وقت تھا کہ یہ نقطہ نسل انسانی کےلئے خوف کی علامت تھا مگر اب یہ امید کی کرن کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ فلکیات سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے اور دل ہی دل میں اس کو چھُونے کا ارمان بھی سجاتا ہے۔یہ نقطہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا پڑوسی سیارہ مریخ ہے! یہ سیارہ آہستہ آہستہ زمین کے قریب آرہا ہے، اور اکتوبر 2020ء میں یہ زمین کے انتہائی قریب ہوگا، جس وجہ سے اگلے چند ہفتے ہم مریخ کے متعلق ہی بات کریں گے، اور اُن مشنز کو تفصیلاً کُریدنے کی کوشش کریں گے جن کے تحت جنونی انسانوں کا ایک گروپ اِس سُرخ سیارے کو تسخیر کرنے بھیجا جائے گا، اور وہ گروپ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
کائنات کے پیش و خم کو انسان نے جب سے سمجھنا شروع کیا تب سے اُسے یہ زمین ایک ذرے کی مانند دکھائی دی اور یہ انسانی فطرت ہے کہ زمین اگر ذرے جتنی محسوس ہوگی تو اس میں رہنے والی مخلوق اِس قید خانے سے نکلنے کے جتن بھی کرے گی۔ زمین نے کشش ثقل کی بیڑیوں میں ہر شے کو جکڑا ہواہے،ان بیڑیوں کو انسان نے سب سے پہلے تب توڑا جب روسی خلاء باز یوری گیگرین نے خلاء میں پہنچ کر خلائی سفر کی بنیاد رکھی۔ اس خلائی سفر کی اگلی منزل چاند کو تسخیر کرنا تھا جسے 1969ء میں نیل آرمسٹرانگ نے قدم رکھتے ہی پالیا، یکے بعد دیگرے مزید11خلاء بازوں نے چاند پر قدم رکھ کر نسل انسانی کو نئے سنگ میل کے نشانات فراہم کیے۔آج انسانیت کی اگلی منزل مریخ ہے۔ یہاں پر زیادہ ٹف صورتحال اس وجہ سے ہے کہ ہمارا مشن اب چاند کی طرح مریخ کو صرف تسخیر کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر آبادکاری بھی ہے جو کہ یقیناً ایک لمبا پراسیس ہے، جسے ہم درجہ بدرجہ اس سیریز کے آنے والے حصوں میں تفصیلی ڈسکس کریں گے۔چونکہ زمین کے قریب ترین اجسام کی فہرست میں چاند اور زہرہ کے بعد مریخ کا تیسرا نمبر ہے جس کے باعث یہ شروع سے ہی انسان کے لئے حیرت کا منبع بنا رہا ہے۔ کبھی اس کو “دیوتا” کہا گیا تو کبھی اس کو “دُنیا کے خاتمے کی نشانی”قرار دیا گیا، لیکن تحقیق کے سفر کے دوران انسان کو سمجھ آئی کہ یہ توکوئی دیوتا نہیں بلکہ ایک “ستارہ” ہے جو ایک مقررہ راستے پر گامزن ہے ،یہ ستارہ نہیں بلکہ سیارہ ہے ، یہ تو بہت بعد میں ہمیں پتہ چلا۔ آج ہم جانتے ہیں سورج سے بہت دُور ہونے کے باعث مریخ کا سورج کے گرد محور (orbit)زمین سے دُگنا ہےجس وجہ سے مریخ تقریباً ہر دو سال بعد retrograde motion ظاہر کرتا ہے یعنی ہر دو سال بعد مریخ کچھ ہفتوں کے لئے مغرب سے مشرق کی جانب سفر کرتا ہے،مریخ کے اس عجیب وغریب محور کا اندازہ انسان نے آج سے 3500سال پہلے ٹھیک ٹھیک لگا لیا تھا ، اس کے بعد جدید بابلی سلطنت کے دور آیا جس میں انسان نے بہت سے سیاروں کے مدار بھی ٹھیک طرح معلوم کرلیے تھے۔کائنات کے اسرار و روموز کو پانے کی یہ پیاس تھی کہ بڑھتی چلی جارہی تھی، اسی دوران ڈھائی ہزار سال قبل ارسطو نے ایک انوکھا واقعہ دیکھا، اُس نے دیکھا کہ مریخ چاند کے پیچھے چھپ گیا ہے جس کے بعد ہمیں پہلی بارمعلوم ہوا کہ مریخ تو چاند سے بھی زیادہ دُور ہے!
اس دریافت نے انسانی تجسس میں مزید اضافہ کیا، جسکے بعد 500صدی عیسوئی میں بھارتی فلکیات دان نے پہلی بار مریخ کا سائز ناپنے کی کوشش کی۔اور پھر 16 صدی میں ٹیلی سکوپ جیسی نعمت انسانوں کو میسر ہوئی تو جیسے فلکیات کے میدان میں طوفان برپا ہوگیا ہے،یوں 400 سال پہلے سائنسدانوں نے مریخ کا زمین سے فاصلہ ناپنے کی پہلی بارکوشش کی۔ 1840ء میں میڈلر نے دس سال تک مریخ کو ٹیلی سکوپ کے ذریعے observe کیا جس کے بعد اس کا پہلا نقشہ تیار کیا گیا،چونکہ مریخ کی atmosphereہلکی ہے جس کے باعث اس پر شہابیوں کی bombardment ہوتی رہتی ہے لہٰذا اس نقشے سے ہمیں معلوم ہوا کہ مریخ پر بھی چاند کی طرح کے دھبے موجود ہیں۔جیسے جیسے ٹیلی سکوپ کی ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ویسے مریخ کے mapsمیں نکھار آتاگیا۔ شروع میں فلکیات دانوں کو ٹیلی سکوپ سے مریخ کو دیکھنے ،طوفان آنے اور موسموں کے تغیر ات کے باعث یہ گمان ہوا کہ وہاں پانی کی نہریں اور زندگی کے واضح نشانات موجودہیں، جس وجہ سے ایک عرصے تک مریخ کو اہمیت حاصل رہی اور یقین رہا کہ وہاں کسی قسم کی خلائی مخلوق موجودہے، یا پھر مریخ پر ہمارے جیسے انسان بستے ہیں لیکن یہ حسین خواب اس وقت چکنا چور ہوا جب 70 سال پہلےMariner-9 نامی پہلا غیرانسانی مشن مریخ پر بھیجا گیا جس نے اس کی سطح کا قریب سے جائزہ لے کر ہمیں اس سیارے کی “حقیقت” سے آگاہ کیا ۔اب تک مریخ پر درجنوں خلائی مشنز بھیجنے کے بعد انسان کو معلوم ہوچکا ہے کہ جسے ہم آباد اور سرسبز وشاداب سمجھ رہے تھے وہ تو دراصل بنجر و بیابان سیارہ نکلا،چونکہ وہاں دریاؤں کے بہنے کے نشانات آج بھی موجود ہیں، لہٰذا ہمیں اس متعلق یقین ہے کہ آج سے کروڑوں سال پہلے مریخ پردریا بہتے تھے اور شاید زندگی بھی پنپی ہوگی مگرآج یہ زندگی سے خالی ایک صحرا ہے۔اِس وقت مریخ پر تقریباً 10 مشنز موجود ہیں جو ہمہ وقت زمین کے باسیوں کو اُن کے پڑوسی سیارے کی معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں، ان 10میں سے 6 مشنز مریخ کے مدار میں موجود ہیں جبکہ 4 خلائی گاڑیاں مریخ کی سطح پر موجود ہیں، ان چار میں سے اب صرف ایک ہی ایکٹو ہے جس کا نام کریوسٹی روور ہے۔اس وقت بھی مریخ کی جانب تین مشنز گامزن ہیں جو جولائی 2020ء میں بھیجے گئے تھے اور اگلے سال مریخ پر اتریں گے، ان مشنز کے متعلق تفصیلی ویڈیو آپ مضمون کے آخر میں موجود لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔بہرحال اب تک مریخ پر موجود تمام خلائی گاڑیاں ناسا کی جانب سے بھیجی گئی ہیں اور مختلف آلات سے لیس ہیں ،ان آلات میں on-board drill،لیزر ،سپرے اور دیگر تجرباتی آلات شامل ہیں، جن کے ذریعے مریخ کی سطح میں معمولی کھُدائی کرکے ان میں موجود معدنیات کو جانچا جاتا ہے۔مریخ کا سائز ہماری زمین سے تقریباً آدھا ہےجبکہ اس میں کشش ثقل کی قوت زمین کی کشش ثقل کی قوت کے مقابلے میں 33 فیصد ہےیعنی اگر آپ کا وزن زمین پر 60 کلو گرام ہے تو مریخ پر 20 کلو گرام ہوگا، چونکہ اس پر آئرن آکسائیڈ کی بھرمار ہے جس وجہ سے اس سیارے پر سنہری اور لال رنگ نمایاں ہے،یہی وجہ ہے کہ زمین سے دیکھنے پر یہ سیارہ سُرخ دکھائی دیتا ہے ۔مریخ پر کسی قسم کی مقناطیسی فیلڈ موجودنہیں ہےلہٰذا اگر آپ مریخ کی سطح پر کھڑے ہونگے تو وہاں (compass) کام نہیں کرے گا،ہمیں تحقیق کی بدولت آج یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ زمین اور چاند کی طرح مریخ پر بھی زلزلے آتے رہتے ہیں۔مریخ کی آدھی سے زیادہ سطح گڑھوں سے بھری پڑی ہے، ان شہابیوں کے گرنے کی بدولت مریخ پر پڑنے والے گڑھوں میں سب سے بڑا گڑھا تقریباً10600 کلومیٹر وسیع ہے، اس گڑھے کو Borealis Basin کہا جاتا ہے ، اس نے مریخ کی آدھی سطح کو cover کیا ہوا ہے۔ اس گڑھے کی وجہ سے ہمیں علم ہوا ہے کہ آج سے 4 ارب سال پہلے مریخ کا پلوٹو جتنی جسامت کے کسی سیارے سے تصادم ہوا تھا جس کے باعث یہ گڑھا پڑا، اس ٹکراؤنے مریخ کی جغرافیائی تبدیلیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ٹکراؤ اور اس کے اثرات کےمتعلق تفصیلی ویڈیو مضمون کے آخر میں موجود لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
مریخ پر ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا پہاڑ بھی موجود ہے جسے Olympus Mons نام دیا گیاہے ، اس پہاڑکی اونچائی 25 کلومیٹر ہے( ہماری زمین پر موجود سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8.8 کلومیٹر ہے)، ماہرین فلکیات کا اندازہ ہےکہ Olympus Mons آج سے تقریباً 3 ارب سال قبل وجود میں آیا ، مریخ کی کم کشش ثقل کے باعث یہ پہاڑ آج بھی وہاں موجود ہے، وگرنہ اگر مریخ کی کشش ثقل زمین کی طرح شدید ہوتی تو ایسے بڑے پہاڑ کا کھڑے رہ پانا ناممکن تھا۔اگر سُرخ سیارے کی سطح پر موجود ہماارے ننھے جاسوس روورز سے ملنے والے ڈیٹاکو پرکھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ زمین کی طرح مریخ پر میگنیشم، سوڈیم، پوٹاشیم اور کلورین کافی مقدار میں ہے،یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی سیارے پر زندگی اپنی روانی کے لئے انہی عناصرپر انحصار کرتی ہے،جس کے باعث شک گزرتا ہے کہ شاید یہ زندگی کے signatures ہوں جو ہمیں چیخ چیخ کر بتانے کی کوششوں میں مصروف ہوں کہ مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی ،اور وہاں پھر سے زندگی “اُگائی” جاسکتی ہے۔ خلائی گاڑیوں نے کھُدائی کرکے جو سیمپلز اکٹھے کیے ان سےمعلوم ہوا ہے کہ مریخ کی مٹی میں پانی بھی موجود ہے جس کے ظاہر ہوتاہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے پانی کے وسیع ذخائر ہوسکتے ہیں،چونکہ مریخ پر زندگی کی تلاش کے لئے سب سے اہم عنصر پانی ہے، لہٰذااس ضمن میں مریخ کے مدار میں موجود اسپیس کرافٹس سے ملنے والی معلومات بھی حیران کن رہی ہیں ،2018ء میں ہمیں یورپین اسپیس ایجنسی کی سیٹلائیٹ Mars Express Orbitor کے ذریعے معلوم ہوا کہ مریخ کے قطب میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی برف کے نیچے 20 کلومیٹر طویل پانی کی جھیل موجود ہے، اس دریافت کے بعد مریخ پر زندگی کے آثار کے امکانات کافی بڑھ گئے، کیونکہ سائنسدانوں کے خیال میں جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی موجود ہوگی لہٰذا اب دوبارہ یہ خیال کیا جارہاہے کہ بظاہر بنجر دکھائی دینے والا یہ سیارہ ہوسکتا ہے کہ اپنی سطح کے نیچے زندگی کی مختلف اقسام سموئے بیٹھاہو۔مریخ کے قطبین میں پانی برف کی صورت میں اس قدر تعداد میں موجود ہے کہ اگر ہم اس تمام پانی کو پگھلا کر مائع حالت میں کردیں تو یہ پانی پورے مریخ کو ڈھانپ لے گا اور اس کی بلندی11 میٹر (36 فٹ)تک ہوگی۔ہم نے ابھی سمجھا کہ مریخ پر موجود کئی مقامات پرtraces سے معلوم پڑتا ہے کہ کبھی اس سیارے پر بھی ندی نالے اور دریا موجود تھےاور یہ ابھی چند کروڑسال پہلے کی ہی بات ہے ،اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہاں پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ Red Planetپر موجود سارا پانی کہاں گیا؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس پانی کا کچھ حصہ آج بھی مریخ پر موجود ہے مگر مریخ کی سطح کے نیچے ہے، جبکہ سطح کے اوپر رہ جانے والا پانی atmospheric pressure کم ہوجانے کے باعث liquidحالت میں نہیں رہ سکا اور خلاء میں بکھر گیا۔مریخ کی سطح پر جپسم،jarosite, hematite اور goethiteنامی مادنیات کی موجودگی بھی اس امر کی جانب اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ کبھی مارس پر پانی ارتھ کی طرح وافر مقدار میں تھا کیونکہ یہ معدنیات پانی کی موجودگی کے بغیرنہیں بن سکتیں۔ 28ستمبر 2015ء کو ناسا کے Mars Reconnaissance Orbitor نے مریخ کے ایک حصے میں غار کے قریب نمکین پانی کی بارش کے تازے نشانات بھی دیکھے، جس سے معلوم ہوا کہ مستقبل میں نسل انسانی کے پڑاؤ ڈالنے کےلئے یہ غار اہم ہونگے۔ہماری زمین پر عموماً طوفان ایک مخصوص علاقے میں آتا ہے اور ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رہتا مگر آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ مریخ کی سطح پر طوفان آتے ہیں اور کئی کئی ماہ رہتے ہیں، یہ طوفان ایک چھوٹے سے علاقے سے شروع ہوتے ہیں اور پورے مریخ کو ڈھانپ لیتے ہیں،ان طوفانوں کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی کئی ماہ مریخ کی سطح تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، مریخ مکمل اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ انہی طوفانوں کی بدولت ہم Opportunity rover کھو چکے ہیں، جُون 2018ء میں مریخ پر ایسی نوعیت کا شدید طوفان آیاجو 5 ماہ تک جاری رہا، اس دوران Opportunity rover کے سولر پینلز پر ریت کی تہہ جم گئی اور وہ اپنی بیٹری چارج نہ کرسکا، ناسا کے ماہرین کئی ماہ تک اس سے رابطے کی کوشش کرتے رہے، بالآخر13 فروری 2019ء کو ناسا نے Opportunity rover کے مشن سے جُڑے سابقہ اور موجودہ تمام ممبران کو دعوت دی اور اُن کی موجودگی میں آخری بار Opportunity rover کو کمانڈ بھیجی گئی مگر Opportunity rover نے جواب نہ دیا، وہ جواب بھی کیسے دیتا وہ 16 سال سے لگاتار ڈیٹا ہم تک ارسال کرکر کے تھک چکا تھا اور اب آرام چاہتا تھا، یوں جون 2018ء سے فروری 2019ء تک ایک ہزار سے زیادہ بار کوشش کرنے کے باوجود جواب نہ مل پانے کی وجہ سے ناسا نے Opportunity rover کو ایکسپائر قرار دے دیا،اپروچیونٹی روور کو صرف 90 دن تک کام کرنے کےلئے بنایا گیا تھا، مگر یہ 15 سال تک ایکٹو رہا۔دوستوں آجکل آپ مریخ کو آسمان پر سُرخ نقطے کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، بلکہ 2020ء میں اکتوبر کے مہینے میں مریخ زمین کے انتہائی قریب آئے گا جس وجہ سے رات کو آسمان پر جنوبی سمت میں یہ بہت واضح اور چکمتا ہوا دکھائی دے رہا ہوگا۔یاد رہے 2003ء میں مریخ زمین کے اس حد تک قریب آگیا تھا کہ کیلکولیشنز کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ اتنا قریب مریخ آخری مرتبہ 62000 سال پہلے آیا تھا۔ 2020ءمیں مریخ زمین کے جتنا قریب آئے گا دوبارہ اتنا قریب سینکڑوں سال بعد آئے گا لہٰذا باہر نکل کے آسمانی پردے پر دکھائی دینے والے ان مناظر سے لازمی لطف اندوز ہوں، مریخ انسانوں کا اگلا ٹھکانہ ہے، ہوسکتا ہے سینکڑوں سال بعد دوبارہ جب مریخ اور زمین ایک دوسرے کے “اتنا” قریب آئیں تو ہماری نسلیں مریخ پررہتے ہوئے آسمان پہ زمین کو ایک نقطے کی صورت میں دیکھ رہی ہوں۔
بہرحال آج کی قسط سے ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ مریخ پر پانی کے وسیع ذخائر موجودہیں، کہاجاتا ہے کہ پانی اور زندگی لازم وملزوم ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو مریخ پر زندگی کی کوئی قسم موجود ہونی چاہیے، لیکن وہ زندگی ہمیں دکھائی کیوں نہیں دے رہی؟ مریخ تو ہمارا پڑوسی سیارہ ہے ، کتنی حیرت انگیز بات ہیے کہ ابھی ہم نے اپنی کائنات کو سمجھنے کا آغاز کیا ہے کہ زندگی کے امکانات ہمیں پڑوس سے ہی ملنا شروع ہوگئے ہیں، تو یہاں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا بقیہ کائناتی گوشوں میں بھی زندگی موجود ہے؟اگر ہاں تو ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ اس سیریز کے اگلے حصے میں ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، جب تک آپ نسل انسانی کے مستقبل کے گھر (مریخ) کو آسمان پہ دیکھیے جو زمین کی دہلیز پر ہمیں خوش آمدید کہنے پہنچا ہوا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں