اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچادو۔۔ہُما

19 ستمبر سوشل میڈیا پر ایک بچے کی ویڈیو وائرل ہوئی
یہ بچہ گندے سیلابی پانی میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ کے نیچے بغل میں مرا ہوا مرغ دبائے دوسرے ہاتھ سے دہائیاں دے رہا تھا اور حکومت وقت وفاقی اور صوبائی دونوں سے مطالبہ کررہا تھا ۔۔
اساں کی تباہ کری ویو ۔۔۔ہمیں تباہ کردیا
اساں کی بھلے پرانا پاکستان دیو ۔۔۔۔
ہمیں چاہے پرانا پاکستان دو
ہمیں پینے کا صاف پانی دو، میرا مرغا یہ گندا پانی پینے سے مرگیا ،ہم بھی یہ گندا پانی پی کر مر جائیں گے
بلاول ہماری مدد کرو، تم ہمیں صاف پانی دو

احمد نامی اس بچے کا تعلق اندرون سندھ کھپرو عمر کوٹ روڈ کے ایک گاؤں محمد صدیق مری سے ہے۔

احمد اندرون سندھ کا وہ خوش قسمت بچہ تھا جس کا مرغ مرگیا تو اسے اس کا غم اور غصہ مشتہر کرنے کے لئے کوئی سہولت کار مل گیا اور اس نے خاموشی سے رونے کے بجائے چیخ چیخ کر حکومت وقت سے اپنے لئے پینے کے صاف پانی کا مطالبہ کردیا ۔

احمد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بہت سی فلاحی و غیر فلاحی تنظیمیں احمد کے پاس ککڑ (مرغ) لے کر پہنچیں

جن میں سب سے پہلے ایک فوجی وفد احمد کے پاس کچھ ضروری سامان خیمہ، پانی اور مرغ لے کر گیا،

احمد بیچارے نے شاید اسی پر خوش ہوجانا تھا لیکن پھر جمعیت علمائے اسلام کا ایک وفد بھی جاپہنچا ،منرل واٹر کی بہت سی بوتلیں، بسکٹ، مچھر دانی اور ککڑ احمد کو دے کر احمد کا شکریہ ویڈیو کی صورت میں لیا گیا۔۔

آخری تصویر دیکھنے تک احمد کے پاس رنگ برنگی جماعتوں کی جانب سے بارہ ککڑ (مرغ) جمع ہوچکے تھے۔یعنی احمد کا ایک مرغ مرنے پر اس کی جذباتی تقریر نے وہ جادو دکھایا کہ اس پر تقدیر بارہ مرغوں کی صورت فدا ہوگئی ۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احمد نے اپنی غصے والی ویڈیو میں مرغ کے ساتھ اپنا ذکر بھی کیا تھا کہ ہم بھی یہ گندا پانی پی کر مرجائیں گے

کیا احمد کو ملنے والی منرل واٹر کی بوتلیں اس کی ضرورت کے لئے کافی ہوچکی ہیں؟

کیا احمد وہ واحد بچہ تھا جس کو پینے کے صاف پانی کی ضرورت تھی؟؟

کیا سندھ یا پورے پاکستان کا ہر بچہ احمد کی عمر میں ہی حکومتوں کے گریبان پکڑے گا کہ مجھے پینے کا صاف پانی دو تو اس کی داد رسی کو بھاگے بھاگے جائیں گے؟؟؟

ہماری حکومتیں چاہے صوبائی ہوں یا وفاقی، عدالتیں ہوں یا دوسرے اعلیٰ ادارے وہ عوام کو اس کی بنیادی ضروریات زندگی دینے کے لئے کس قدر سنجیدہ ہیں؟
اس کا اندازہ  ان اداروں کی کارکردگی اور ترجیحات سے لگانا بہت آسان ہے ۔۔۔
ایوانوں میں بیٹھے حکمران فقط اپنے بچاؤ اور اقتدار کی کھینچا تانی میں مصروف عمل ہیں ۔۔جب کہ عام آدمی روٹی اور پانی کی بنیادی ضرورت کے لئے بھی ترس رہا ہے ۔۔
پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔
ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

پینے کا صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقی کے اہداف sustainable development goals کے چھٹے ہدف کے مطابق سنہ 2030ء تک ہر شخص کو محفوظ اور سستا پینے کا پانی میسر ہوجانا چاہیے۔
واٹر ایڈ (WaterAid) نامی بین الاقوامی غیرمنافع بخش تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں 2.1 کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہيں ہے۔
The Water Gap – The State of the World’s Water 2018
نامی اس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پینے کے پانی تک رسائی میں سب سے زيادہ محروم دس ممالک کی فہرست میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پینے کا صاف پانی صرف امیروں کی ملکیت ہے جب کہ غریب اس پہنچ سے دور ہیں ۔۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس پانی کی کمی نہیں  البتہ اگر اس پانی کو  محفوظ کرنے والا برتن نہیں  بنایا گیا تو 2025 تک پاکستان کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔۔

برتن مطلب ڈیم۔۔۔

ہمارے ہاں ڈیمز کے معاملے پر عوام کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ڈیم فول بنانے کا عمل جاری ہے ۔سندھ حکومت ہمیشہ سے کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیمز کی مخالف رہی ہے اور اپنی عوام کو سیاسی طور پر مشتعل کرتی رہی ہے ۔ڈیم بن جائیں گے تو لوگ بے گھر ہونگے، ہم سے ڈیمز کے اخراجات نہیں برادشت ہونگے، زلزلہ آگیا تو ڈیمز کی وجہ سے نقصان ہوگا،اور اسی قسم کی بہت سی باتیں ڈیم مخالف کی جاتی ہیں۔
لیکن ہرگز یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس وقت ہم اپنی ضرورت کا صرف اور صرف دس فیصد پانی محفوظ کرتے ہیں۔باقی نوے فیصد پانی ہمارے پاس ہر سال آتا ضرور ہے لیکن کھیتوں، کھلیانوں، گاؤں دیہاتوں کو تباہ کرکے ویرانیاں برساتا ہوا گزر جاتا ہے ۔ستر دہائیاں گزر جانے کے بعد پاکستان آج تک ملکی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہ ہوسکا اور ہر بار اسے لسانی اور صوبائی معاملہ بناکر دبا دیا جاتا ہے۔

احمد کی طرح ہر سال لاتعداد بچے سیلابی پانی کی وجہ سے اپنے مال مویشی کو مرتے دیکھتے ہیں اور بے گھر ہوجاتے ہیں اور بے بسی سے حکمرانوں کے راہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔۔اور جب حکمران بے اعتنائی برتتے ہیں تو چارو ناچار وہی سیلابی گندا پانی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات اتنی سی ہے کہ ہمارے مفاد پرست حکمرانوں کے کانوں میں سیسسہ ہے، انہیں اگر کوئی بات پہچانی ہو تو احمد کی طرح چیخ چیخ کر کہرام مچانا ہوگایعنی خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی۔اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچادو۔۔۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply