کراچی۔۔۔(2)مشتاق خان

کراچی کے عوام کراچی کے بارے میں اتنے ہی حساس ہیں جتنا پاکستان کا ادارہ یا اکثریتی فرقہ حساس ہے اور آپ سوشل میڈیا پر کراچی کے بارے میں کوئی طنز نہیں کر سکتے جبکہ حیران کن طور پر کراچی کے ادبی لوگ بس کراچی کی پرانی یادوں میں کھوئے رہتے ہیں اور کراچی کی اس بد حالی کا ذمہ حکومتوں پر ڈال کے خود کو اعلی ترین لوگ تصور کرکے خوش رہتے ہیں جبکہ کراچی کی اس بری حالت کے اصل ذمہ دار یہاں کے شہری ہی ہیں اور میرا مقصد ان بھائیوں کو ان کی کمر کے یہ داغ دکھانا ہے ۔

مزاح اور رپورٹنگ میں بنیادی فرق مبالغہ آرائی اور انداز بیان کا ہوتا ہے میری تحریر کو صرف ایک تحریر کے طور پر پڑھیے اور کسی تعصب کو جگہ نہ دیں بالکل ایسے ہی میری تحریر کا لطف لیں جیسے پنجابی بلوچ سندھی پشتون سرائیکی ہندکو بولنے والے اردو سپیکنگ مزاح نگاروں کو اپنی کمی کوتاہیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھ کے یا پڑھ کے یا سن کر لطف لیتے ہیں اور ان کو دل کی گہرائیوں سے عزت بھی دیتے ہیں ۔ اگر گجرات کے لوگوں کو جوتی چور کہہ کر، پٹھانوں کی نسوار ،سکھوں کی کم عقلی ،پنجابیوں کی بیوقوفیوں، میمنوں سکاٹش بنیوں کی کنجوسی، حتی کہ مولویوں تک کا مذاق بن سکتا ہے تو میرے کراچی کے بھائیوں کو بھی تھوڑا حوصلہ کرینا چاہیے ۔
تو خیر کراچی میں میری رہائش نارتھ کے علاقے میں ہے اور نیوز سننے کا بہت شوق بھی ہے تو کراچی منتقل ہوتے ہی اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے پر لگ گیا کہیں بھی جاتے ہوئے فور کے چورنگی کو کھدا ہوا پاتا اور پانی بھی کافی جمع رہتا تھا بہت پریشانی ہوتی یہاں سے گزرتے ہوئے پھر ایک دن نیوز میں پتا چلا کہ  کراچی میں پانی کا ایک بہت بڑا منصوبہ بن رہا ہے جس کا نام کے فور ہے بس دل مطمئن ہو گیا کہ  اتنا بڑا منصوبہ ہے وقت تو لگے گا لیکن م دل میں کھٹک سی رہی کہ  یہ چونگی کو فور کے اور منصوبے کو  فور کیوں کہتے ہیں پھر ایک دن پتا چلا کہ کے فور کا فور کے سے کوئی تعلق نہیں کہ فور اور فور کے دونوں منصوبے پانچ سال سے زیر تعمیر ہیں باقی آپ بھی سمجھدار ہی ہو ۔

کراچی کی پولیس ریلوے کے ملازمین کی طرح صبح سویرے اپنی گاڑی میں پانی کا کولر بھر کے چل پڑتی ہے اور ان کی واحد ڈیوتی یہ ہوتی ہے کہ  کون کہاں نئی کنسٹرکشن کر رہا ہے اس لئے ان پولیس والوں کو زکوٰۃ  دیے بغیر آپ اپنی بیرونی دیوار کو پلستر بھی نہیں  کر سکتے ان کی دوسری ڈیوٹی اپنے ساتھی اہلکاروں اور ان کے گھر والوں کے لئے پھل سبزی وغیرہ اکٹھی کرنا ہوتا ہے اگر کہیں پٹاخہ بھی پھوٹ جائے تو ان بیچاروں کو اپنی ٹوپیاں جوتیاں چائےچھوڑ کے بھاگتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے ۔

بلیاں جو کہ  باقی پورے پاکستان میں گھر کا ایک اہم فرد ہوتی ہیں اور بلی کو کس گھر میں رہنا ہے اس کا فیصلہ بھی وہ خود کرتی ہیں اور بہت سے معاملات میں بلیوں سے باقاعدہ مشورہ کیا جاتا ہے بلیاں گھر کے بچوں کا سب سے شاندار کھلونا ہوتی ہیں اور فطری طور پر چوہوں کو گھروں سے دور رکھتی ہیں لیکن کراچی میں اس کے بالکل برعکس بلیوں کو گھروں میں گھسنے کی  کسی صورت اجازت نہیں  دی جاتی چوروں کے بہانے باریک لوہے کی جالی لگا کے اصل میں بلیوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے ہے جبکہ چوہوں کو ہر گھر والے شوق سے پالتے ہیں اور اکثر راتوں کو پوری فیملی ان چوہوں کے ساتھ چور سپاہی کا کھیل کھیلتی ہے ۔

ایک اور خاص روایت یہ ہے کہ یہاں کے باشندے ایک دو کروڑ کا گھر تو بنا لیتے ہیں لیکن ایک دو ہزار لگا کے چھت کے پانی کو زمین تک نہیں لاتے بلکہ پائپ کا ٹکڑا چھت پر لگا کے پانی تیسری چوتھی یا دسویں منزل سے ڈائریکٹ راہ گیروں کے اوپر گرانے کا خاص انتظام کرتے ہیں اور چھت پر پانی چڑھانے والی موٹر کب بند کرنی ہے یہ فرض بھی اس راہ گیر کا ہوتا ہے کہ وہ بھیگنے کے بعد ان کو بتائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اوّل تو کراچی والوں کو پانی جو یقیناً  آب حیات سے زیادہ قیمتی اور صحت افزا ہوتا ہے، دیا ہی نہیں  جاتا لیکن اگر پانی ان کو دے دیں تو پھر جب تک یہ پانی ان کے گھر سے واپس واٹر بورڈ کے آفس یا سمندر تک نہ چلا جائے یہ موٹر بند نہیں  کرتے اور اگر آپ کسی ایسے گھر کے دراوزے پر دستک  دے دے کر ان کو اٹھانے میں کامیاب ہو بھی  جائیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ نے تو اصل میں احسان اللہ احسان یا کسی بھائی کو نیند سے اٹھا کر خود اپنے اٹھنے کا انتظام کرلیا ہے ۔
انشاءاللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا تو تھوڑا ذکر اچھائیوں کا بھی ہوجائے
میں نے کراچی کی مسجدوں کو بہت کشادہ اور سکون بخش پایا ہے اور اپنی زندگی کے سب سے زیادہ جنازے کراچی میں ہی پڑھے ہیں وجہ یہ نہیں کہ  یہاں لوگ زیادہ مرتے ہیں بلکہ یہاں جنازے زیادہ تر مسجدوں میں کسی نا کسی نماز کے ساتھ شامل کرلئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں دوسرے شہروں میں جنازے زیادہ تر جناز گاہ میں پڑھائے جاتے تو خاص لوگ ہی جنازہ پڑھ پاتے ہیں ۔
دوسری اچھی بات یہ ہے کہ  سڑک پر گندہ پانی موجود ہونے پر گاڑیوں کی رفتار سست کر لی جاتی ہے جس سے موٹر سائیکل سوار گندے پانی کے چھینٹوں سے بچ جاتے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمارے ملک پر اپنا بہت کرم کرے آپ سب کو صحت زندگی ایمان عطا فرمائے آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply