• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ہم پاکستان میں لیڈرز پیدا کر رہے ہیں؟۔۔میر افضل خان طوری ـ

کیا ہم پاکستان میں لیڈرز پیدا کر رہے ہیں؟۔۔میر افضل خان طوری ـ

انسان نے اپنی  ایک ایک صلاحیت کو درک کرنے کیلئے صدیوں محنت کی ہے ان صلاحیتوں کے بل پر انسان آج اپنے اردگرد کے ماحول کو مسلسل تبدیل کر رہا ہے۔دنیا کا ہر انسان خود اپنی ذات کا لیڈر ہوتا ہے ,انسان اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کیلئے اعضاء جسمانی کو لیڈ کرتا ہے ,انسان کے اعضاء و جوارح اسکے دماغ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔جو انسان خود اپنے وجود کو لیڈ کرنے میں کوتاہی کا مرتکب ہوجاتا ہے اس کو پھر کوئی اور اپنے مقصد کیلئے لیڈ کرتا ہے اس طرح انسان کسی دوسرے کے مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے تگ و دو کرتا ہے۔

انسان کیلئے سب سے مشکل ترین کام خود اس کی اپنی ذات کو لیڈ کرنا ہوتا ہے اس لئے ہر انسان کی سب سے پہلی ترجیح خود اسکی اپنی ہی ذات کی راہنمائی ہونی چاہیے۔

لیڈرشپ محض نعرے لگانے اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے فالورز بنانے کا نام نہیں ہے بلکہ لیڈرشپ مزید لیڈرز پیدا کرنے کا دوسرا نام ہے اگر آپ دو لوگوں میں انکی ذات اور مقاصد کے بارے میں  آگاہی پیدا کر رہے ہیں تو ضرور آپ ایک لیڈر ہیں۔

لیڈرشپ معمولی کاموں کو غیر معمولی طریقوں سے کرنے کی طرف انسان کو مائل کرتی ہے لیڈرشپ انسان کی عزت نفس کی آبیاری کرتی ہے اگر ہمارے سکول کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچوں کی عزت نفس  کی آبیاری نہیں ہو رہی ہے تو ہم لیڈر پیدا نہیں کر رہے۔

ہم لکیر کے فقیر اور روایتوں کے اسیر پیدا کر رہے ہیں ہم صرف روایتی بتوں کی پرستش کیلئے نئے براہمن پیدا کر رہے ہیں، اگر ریاست لوگوں کی عزت نفس کو پروان نہیں چڑھا رہی ہے تو وہ سٹیٹ نہیں ہے بلکہ وہ قبضہ گروپوں کی آماجگاہ ہے لیڈرشپ روایتی بتوں کو توڑنے اور نئی  منزل کی تلاش  کے عمل کو پروان چڑھاتی ہے۔

لیڈرشپ عزت کرانے کا نام نہیں ہے لیڈرشپ عزت دینے کا نام ہے ،لیڈر نئی امنگوں اور امیدوں کا پیامبر ہوتا ہے، لیڈر لوگوں میں جیت کی امید اور کامیابی کا جذبہ پیدا کرتا ہے ،لیڈرشپ لوگوں کو مشکلات سے بھاگنے کی بجائے مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی  ہے ،لیڈر ہمیشہ مشکلات کو مواقع سمجھ کر ان کو اپنے حق میں تبدیل کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری ریاست اور تمام تر تعلیمی ادارے جب تک عوام کو روایتی اسیر بننے کی بجائے لیڈر بننا نہیں سکھاتے تب تک ہماری قوم کی حیثیت کنویں کے  مینڈک  جیسی ہی رہے گی، پھر ہم میں اور مویشیوں کے ریوڑ میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا ،ہم کبھی بھی اپنے مقاصد اور ترجیحات طے نہیں کر سکیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply