جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ مسلمان پیداہوا ہوں ۔بچپن میں معلوم ہوا کہ مسلمان کے ساتھ ساتھ سُنی بھی ہوں ۔کالج جانےتک معاشرے نے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں سے نفرت کرنا بھی سیکھا دی ۔وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ نفرت بھی بڑھتی گئی اور مذہبی جنونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ہمیشہ خود کو ٹھیک سمجھنے والا بندہ بن گیا ۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ نوازتا ہے تو کہاں کہاں سے سبب بنا دیتا ہے انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔دوسال قبل صفوان اورعمیرنامی شخص سے ملاقات ہوئی۔ان لوگوں نے میرے مذہبی جنون کو ختم کرنے کی کوشش کی ،جو بڑی حد تک کامیاب رہی ۔پھر میرا سامنا ایک عظیم شخصیت ڈاکٹر خالد ظہیر سے ہوا ۔انہوں نے مجھے نفرت سے محبت تک کا سفر طے کروایا۔جب بھی کسی الجھن کا شکار ہوا انہوں نے میری مدد کی ۔کچھ ایسے حقائق کا سامنا ہوا جو میں کبھی ماننے کو تیار نہیں تھا مگر جب بات کھل کر سورج کی طرح چمکتی میرے سامنے روشن اور واضح ہوئی تو میں حقیقت کو ماننے سے انکار نہ کر سکا۔جب بات حد سے گزر رہی تھی تو سوچاکیوں نہ قرآن کا مطالعہ کر کے دیکھا جائے اور پھر عدیل بھائی جیسے استاد محترم سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے قرآن کو کچھ ایسےانداز میں سمجھایا تو سمجھ آئی کہ قرآن کو دس حرف نیکی سے باہر نکل کر سمجھیں تو وہ انسان کی زندگی تبدیل کر دیتا ہے ۔
دیر آید درست آید کے اصول پر اب کبھی کبھی بیٹھ کر اپنے ماضی کے متعلق سوچتا ہوں تو اپنے حال اور ماضی میں 180 ڈگری تبدیلی نظر آتی ہے ۔ ماضی کی نفرت کی جگہ محبت نے لے لی ۔مذہبی جنونیت اور جذبات کی جگہ تدبروسوچ اور عقل نے لے لی ۔
ان ساری باتوں میں یہ بات کرنا میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ یہ نفرت سے محبت تک کا سفر اتنا ہی مشکل تھا جتنا بغیر پانی کے صحرامیں سفر کرنا ۔بہت سے لوگ میرے خلاف ہوئے، لوگوں نے رابطے ختم کیے ۔میرے اوپر فتوے لگنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔بہت سی نفرتوں کو برداشت کیا ۔ اس سب میں میرا ذرا بھی کمال نہیں ہے یہ سب اللہ کی ذات کا کرم ہے ۔اگر وہ نہ چاہتا تومیں آج بھی نفرت پھیلانے والا شخص ہوتا ۔
اللہ مجھے اور ہم سب کو ہدایت دے اور محبتیں پھیلانے کی توفیق دے آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں