• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک ماں کی اپنی بیٹی کی شادی کے وقت پر کی جانے والی انمول نصیحتیں اور آج کل کا ماحول۔۔ غیور شاہ ترمذی

ایک ماں کی اپنی بیٹی کی شادی کے وقت پر کی جانے والی انمول نصیحتیں اور آج کل کا ماحول۔۔ غیور شاہ ترمذی

یمن میں حارث بن عمروالکندی نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے۔ ایک دن اسے اطلاع ملی کہ عوف کندی نامی سردار کی لڑکی غیر معمولی طور پرحسین و جمیل ہے۔ بادشاہ نے اسی کی برادری کی عصام نامی ایک عورت کو حال معلوم کرنے بھیجا۔ وہ لڑکی کی والدہ اُمامہ بنت حارثہ کے پاس آئی اور اُسے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔

امامہ اُسے اپنی لڑکی کے پاس لے گئی اور کہا کہ یہ تیری خالہ ہے جو تجھے ملنے اور تیری شادی کے  لیے ایک اعلیٰ خاندان میں رشتہ کے حوالہ سے تیرے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئی ہے۔ اس سے کھل کربات کر اور کوئی بات اس سے نہ چھپانا۔ وہ عورت اس لڑکی کو دیکھ کر اس کے حسن و جمال اور سلیقہ مندی کی قائل ہو گئی۔ واپس آ کر بادشاہ سے صورت حال بیان کر دی اور اس کی بہت تعریف کی۔

یہ سن کر بادشاہ نے اس کے باپ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ چنانچہ اس کے ساتھ بادشاہ کی شادی ہو گئی۔ رخصتی کے وقت جب دُلہن کو پالکی میں بٹھا کر خاوند کے گھر لے جانے کا وقت آیا، تو ماں نے اسے چند نصیحتیں کیں۔ اس نے کہا:

“اے بیٹی، اگر نصیحت کسی کے عقل و خرد یا اعلیٰ نسب کی وجہ سے کی جاتی، تو میں اسے ضرور چھوڑ دیتی اور تجھ سے چھپاتی۔ مگر یہ عقل مند کے لئے یاددہانی کے طور پر اور بے سمجھ کے لیے بطور تنبیہہ کی جاتی ہے۔ اس لیے میں تجھے نصیحت کر رہی ہوں۔
اے میری بیٹی، اگر عورت اپنے والدین کی دولت مندی اور ان کی والہانہ محبت کی وجہ سے آسودہ حال ہوتی تو سب سے زیادہ میں اپنے خاوند سے لاپروا اور بے نیاز ہوتی مگر تُو جانتی ہے کہ ایسا نہیں ہے اور میں تیرے باپ کی جتنی قدر اور خدمت کرتی ہوں، تُو اُس کی گواہ ہے۔ میری بیٹی یاد رکھنا کہ جس طرح عورتوں کے لئے مَرد پیدا کئے گئے ہیں بالکل اسی طرح عورتیں بھی مَردوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ اے بیٹی، تو ایک مانوس ماحول اور وطن سے دور ایسے ماحول میں جا رہی ہے جسے تو نہیں جانتی۔ ایک ایسے ساتھی کے ہاں تجھے جانا ہے جس کے ساتھ تُو مانوس نہیں جبکہ نکاح کے بعد وہ تیرا مالک (بمعنی ولی) بن چکا ہے۔ لہٰذا تو اس کی لونڈی (بمعنی خدمت گزار) بن جانا، اس طرح وہ تیرا غلام (بمعنی چاہنے والا) بن جائے گا۔

اس سلسلے میں تو میری دس باتیں یاد رکھنا:-

٭ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ قناعت اور سادگی سے زندگی گزارنا۔
٭ اس کی بات غور سے سننا اور اطاعت کرنا کیونکہ قناعت میں دل کو راحت پہنچتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری میں مالک (خاوند) خوش ہوتا ہے۔
٭ تیسری بات یہ کہ تجھ سے خاوند کی مرضی کے خلاف کوئی بات سرزد نہ ہو۔
٭ تیرا خاوند تجھے صاف ستھرے اور مہکتے لباس میں ملبوس ہی دیکھے۔ اے میری بیٹی، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ عطر کی عدم موجودگی میں پانی سب سے خوشبودار ہے اس سے نہا اور بناؤ سنگھار کر۔ حسن پیدا کرنے کے لئے تیرے پاس سرمہ موجود ہے، اس سے زیادہ کوئی چیز اچھی نہیں۔
٭ پانچویں بات یہ ہے کہ اس کے کھانے کے وقت کا خیال رکھ۔
٭ سونے کے وقت بھی اس کے آرام کا خیال رکھ کیونکہ بھوک کی شدت ناقابل برداشت ہوتی ہے اور نیند سے اچانک جاگنا غصے کا سبب ہوتا ہے۔
٭ ساتویں بات اس کے مال کی حفاظت کرنا ہے۔
٭ آٹھویں نصیحت یہ ہے کہ اس کے رشتے داروں اور خاندان کا لحاظ رکھنا۔ کیونکہ مال کی حفاظت حسن ترتیب اور رشتے داروں اور خاندان کی رعایت حسنِ انتظام کی علامت ہے۔
٭ نویں یہ کہ اس کے رازوں کو ظاہر نہ کرنا۔
٭ دسویں یہ کہ اس کے حکم کی نافرمانی نہ کرنا۔ کیونکہ اگر تو نے اس کے راز کو ظاہر کر دیا، تو سزا سے نہ بچ سکے گی اور اگر نافرمانی کی، تو اس کے غصے کو بھڑکا دے گی۔

اے بیٹی، جب وہ  خوش ہو تو تم بھی اُس کی خوشی میں خوش ہونا اور ایسی حالت میں اپنے کسی دکھ اور غم کا اظہار کرنے سے بچنا۔ تجھے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمام چیزیں تم اپنے خاوند سے اس وقت تک حاصل نہیں کر سکو گی جب تک تم اُن تمام معاملات میں جنھیں تو پسند یا ناپسند کرتی ہے، انہیں اپنے خاوند کی خواہش اور رضا کو اپنی مرضی پر ترجیح نہ دے”۔

سوچتا ہوں کہ آج ایسی مائیں کہاں ناپید ہو گئی ہیں۔ ہماری ماؤں نانیوں دادیوں جیسی سمجھداری، سلیقہ مندی، صبر وتحمل،ایمانداری، برداشت اور دانش مندی کہاں دفن ہو چکی؟- نئی ایجادات اور سائنس کی ترقی کے ساتھ کیا یہ ضروری ہے کہ آج کل کی مائیں اپنی شادی شدہ بیٹیوں کی زندگی میں دخل اندازی کرتی رہیں۔ بڑے بزرگ اپنے تجربات سے کہہ گئے ہیں کہ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کی شادی شدہ زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک لڑکی جب شادی کرکے دوسرے گھر جاتی ہے تو اس کے لئے اُس گھر کا ماحول سب نیا ہوتا ہے۔ اس لڑکی کو اس گھر، ماحول اور لوگوں کو اپنانے میں وقت ضرور لگتا ہے۔ اللہ تعالی نے سب کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ پھر بھی کیوں یہ پڑھی لکھی لڑکیاں نادانی کا شکار ہیں؟۔ کیوں اپنا اچھا برا خود نہیں سمجھتیں؟۔ وہ کیوں اپنے سسرال کی ہر بات اپنی ماؤں کو بتاتی ہیں؟۔ “سسرال میں کیا ہو رہا ہے؟۔ کون کیا کر رہا ہے، کس نے کیا کہا؟ ۔ شوہر نے کیا کہا؟ ۔گھر میں کیا پکایا؟۔کون گھر میں آتا جاتا ہے؟”۔ ان جیسے فضول سوالات دن میں کئی مرتبہ مائیں فون کر کے اپنی بیٹیوں سے پوچھتی ہیں اور شدید حیرت یہ ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں یہ سب کچھ اپنی ماؤں کو بتاتی بھی ہیں۔ کسی بھی لڑکی کو سسرال جانے کے بعد سب سے پہلے اپنے شوہر اور گھر والوں کا دل جیتنا ہوتا ہے،”ان کے رنگ میں رنگنا ہوتا ہے۔ پیار و محبت، اپنی خدمت سے ان کے دلوں میں جگہ بنانی پڑتی ہے۔ جس طرح چندن کو گھسنے پر ہی اس میں سے خوشبو آتی ہے اسی طرح ایک لڑکی بھی اس گھر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے اخلاق و کردار سے اپنا مقام حاصل کر سکتی ہے۔

اپنی بیٹی کا ایسا باپ ہونے کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں جو اُسے اپنے دونوں بیٹوں پر ترجیح دیتا ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کا گھر بسا رہنے دیں اور میاں بیوی کی محبتوں کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ بیٹی اور داماد کے درمیان ناراضگی کے موقع پر اُن کی ذرا سی غفلت و بے پروائی، بیٹی کے ذہن میں غلط باتیں ڈالنا، بے وجہ بیٹی کی غیر ضروری طرفداری یا منفی کردار کی وجہ سے بیٹی کا گھر اُجڑ سکتا ہے۔ اگر خُدانخواستہ بیٹی اپنے شوہر سے رُوٹھ کر گھر آجائے تو ماں کو چاہئے کہ داماد اور اُس کے گھر والوں پر غصّہ کرنے اور اُن سے لڑنے پر آمادہ ہونے کے بجائے اپنی بیٹی کو سمجھائے اور اُسے فوراً سُسرال پہنچانے کی کوشش کرے، ہرگز بھی بیٹی کے دل میں لگی آگ پر کچھ غلط باتوں کا پٹرول ڈال کر اس کے دماغ میں لگی آگ کو ہوا نہ دے۔ یہ جملے بیٹی کے حق میں انتہائی زہریلے ہیں کہ “آ بیٹی بیٹھ، اب ہم دیکھتے ہیں کہ تیرا شوہر کیسے تجھے لینے آتا ہے؟۔ اُسے تیرا ذرا بھی احساس ہوگا تو وہ خود تجھے لینے آئے گا۔ چار لوگوں کو بیٹھا کر پہلے فیصلہ کرنا ہوگا۔ دیکھنا اُسے ایسا سبق سکھائیں گے کہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ جب تک وہ یہاں آکر گھٹنے نہیں ٹیکے گا تم اُس کے یہاں نہیں جاؤ گی۔ابھی ہم زندہ ہیں۔ تم بوجھ تھوڑی ہو اپنے ماں باپ پر۔ اب تو اپنے سُسرال کبھی نہیں جائے گی۔ تیرے سسرالیوں اور تیرے شوہر کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے، وغیرہ ۔ وغیرہ۔ مائیں یہ کیسے بھول جاتی ہیں کہ اس طرح کی باتیں بیٹی کو مزید ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے انتظار میں اپنے ماں کے گھر بیٹھی رہتی ہیں۔ یہ انتظار جیسے جیسے طویل ہوتا جاتا ہے ویسے ویسےاس طرح کی مائیں اپنی بیٹیوں کے کان مزید بھرتے ہوئے انہیں سُسرال نہ جانے پر اور پکّا کردیتی ہے۔اگر داماد اپنی بیوی کو منانے اپنے سُسرال پہنچ جائے تو بعض اوقات ساس سُسر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنے داماد کو جلی کٹی باتیں سُنا کر شرمندہ اور ذلیل کرتے ہیں۔ ایسے روئیے گھر جوڑنے والے نہیں بلکہ گھر توڑنے والے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی کچھ لڑکیاں اپنے شوہر کے ساتھ “انا” کی جنگ لڑتی رہتی ہیں۔ شوہر پر قابو پانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔اُس کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہیں۔ اگرچہ کچھ کیسوں میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں لیکن زیادہ تر ایسی لڑکیاں اپنی شادی شدہ زندگی میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے میں بھی ناکام ہوجاتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں جو دوسروں کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتیں اور اپنے معاملات خود نہیں سلجھاتیں، اُن کی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں کیونکہ اُن کا دھیان شوہر اور سسرال کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں نہیں بلکہ اُنہیں نیچا دکھانے کی طرف ہی لگا ہوتا ہے۔ وہ شوہر پر قابو پانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ اور نتیجتا” اس جنگ میں اکثر و بیشتر وہ ہار جاتی ہیں۔ روایتی گھرانوں میں بیاہی جانے والی لڑکیاں کبھی یہ جنگ جیت بھی نہیں سکتیں کیونکہ مرد ضد کرنے والی بیوی کے سامنے اور زیادہ ضدی ہوجاتے ہیں جبکہ نرم اور فرمانبردار بیویوں کے سامنے بہت زیادہ نرم ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کر کے جیت جائے گی اور وہ کسی بھی مخالفت کا سامنا کر لے گی تو وہ یہ بھول رہی ہوتی ہے کہ یہ جنگ وہ اپنی ضد اور زبان سے بھلے ہی جیت جائے لیکن اُس دل سے وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گی جو اسے پیار کرتا تھا۔ اُس سے محبت کرتا تھا اور اُس کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ ایک دوسرے کی عزت بھی ختم ہوجائے گی۔ حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے والی لڑکی ہمیشہ اپنی ضد پر قائم رہتی ہے۔ وہ اپنی فتح کا وہم برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اِس گمان میں رہتی ہے کہ میں جیت گئی اور شوہر ہار گیا، میں صحیح ہوں اور وہ غلط ہے۔ لیکن بزرگوں کے تجرات کہتے ہیں کہ ایسی لڑکی دوسروں کو تباہ کرنے سے پہلے خود اپنی شادی شدہ زندگی کو تباہ کر دیتی ہے اور پھر وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں بھی خراب کرتی ہے اور گناہ گار کہلاتی ہے۔اپنی بیٹیوں کی شادی شدہ زندگی میں مداخلت سے بچیے۔ یہ انتہائی غلط طرز عمل ہے۔ مانا کہ طلاق ایک جائز عمل ہے مگر یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ مشرق کی طرح مغرب میں بھی طلاق کا عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply