خوبصورتی۔۔۔محمد شمس

آسمان پر ہلکی روشنی پھیل چکی ہے لیکن سورج ابھی تک نمودار نہیں ہوا ہے۔۔۔ چاند کی چمک اب دھیمی پڑ چکی ہے، چھت پر ایک لڑکا بیٹھا  اسی چاند کو دیکھ رہا ہے، وہ دیکھتا رہتا ہے کہ سورج نمودار ہو جاتا ہے اور چاند اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے۔ ہوا کا ہلکا سا جھونکا لڑکے کے چہرے کو چھوتا  ہے، اسے ایک ہلکی سی لرزش کا احساس دلاتا ہے۔ کوّے اور چڑیا بھی اسے اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔

فضا کی طرف جب لڑکے کی اچانک نظر پڑتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ایک ٹڈی جس کے پیچھے چڑیا اس طرح پڑی ہے جیسے 1112 نوکیا موبائل میں سانپ  اُس نقطے کے پیچھے ہوتا ہے، ٹڈی اوپر چھت کی دیوار سے ٹکرا کر زمین پر گرتی ہے اور پھر چڑیا اسے اپنی  چونچ میں دبوچ کر درخت کی طرف پنکھ  پھیلا کر اُڑ جاتی ہے۔

چھت پر بیٹھا ہوا لڑکا اب افسردگی کے ساتھ سوچتا ہے کہ ہرن اپنی پوری زندگی ڈر کے ساتھ گزارتا ہے کہ میں کسی کے منہ کا نوالہ نہ بن جاؤں۔۔۔
کبوتر جو آسمان میں اپنے  پَر  ہلاتے فضا میں تیر رہا ہوتا ہے، اسے بھی اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں مجھے کسی کے پنجے نہ دبوچ لیں۔۔۔
کیا یہی قدرت کی خوبصورتی ہے؟

میں قدرت کی خوبصورتی کو کس طرح سمجھتا ہوں؟ خرگوش کی خوبصورت آنکھیں،ہرن کا خوبصورت بدن،سمندر جو قالین کی طرح بچھا ہوا ہے۔۔۔
خرگوش خود کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
کیا ہرن کی خوبصورتی اس کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے؟
سمندر جو ہزاروں فٹ اوپر سے دیکھیں  تو آپ اسے کس نظر سے دیکھیں  گے؟
تو خوبصورتی کیا ہے؟
لڑکا اپنی سوچ میں مگن تھا کہ نیچے سے آواز آئی
“آؤناشتہ کرو”۔۔
لڑکا اسی آواز کے پیچھے نیچے چلا جاتا ہے اور سوال ادھورا رہ جاتا ہے۔
90 مرتبہ سورج کا مشرق سے مغرب کی طرف جانے کے بعد لڑکا وہاں پہنچتا ہے جہاں کوئی مخصوص علم رکھنے والا اپنی علم کی روشنی سے دوسروں کو روشن کرتا ہے۔
یونیورسٹی، جہاں ایک مخصوص وقت میں کسی مخصوص علم سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
شیڈیول، وہ مخصوص وقت آچکا تھا، جہاں اس لڑکے کو اس کے کھوئے ہوئے اور پیچیدہ سوالوں کے جواب ملنے والے تھے۔ لڑکا ایک ایسے جھنڈ میں شامل ہو جاتا ہے، جہاں سب علم کی طلب رکھتے ہیں۔ پھر وہ جھنڈ کمرے کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ کمرے میں آنے کے بعد ہر کوئی اپنی مخصوص نشست پر بیٹھتا ہے اور ایک ایسی “علم رکھنے والی” کا انتظار کرتا ہے، جو اسلام کے علم سے روشن ہے۔

اسلامیات کا “علم رکھنے والی” جب کمرے میں آتی ہے تو کمرے میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ علم کی طلب رکھنے والے اسکی موجودگی کا احترام خاموشی سے کرتے ہیں۔

“علم رکھنے والی” کے چہرے پر نقاب تھا اور ان کی آنکھوں کے نیچے ہلکی سی سیاہی تھی۔ وہ اپنے علم کو الفاظوں میں سمیٹ کر دوسروں کو پہنچانا شروع کرتی ہے۔ ان کے الفاظوں کے پیچھے ایک احساس تھا، ایک بے چینی تھی۔۔ لیکن شاید یہ ایک اور بی بےچینی تھی جو اس کے علم سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ وہ اپنے الفاظوں میں “oneness of god” اور “oneness of mandkind” کا ذکر کرتی ہے۔ یہ وہی الفاظ تھے جو لڑکے کی اسی سوچ کو زندہ کرتے ہیں۔۔۔ لڑکا “علم رکھنے والی” کے انداز سے بہت متاثر ہوکر گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گھر پہنچ کر لڑکا اپنے کمرے کی طرف جاتا ہے، وہ وہاں فرش پر بیٹھ جاتا ہے اور سوچتا ہے، وہ سوچتا رہتا ہے، لیکن اسے جواب نہیں ملتا۔۔۔ اور وہ اپنے سوالوں کی وجہ سے کافی دیر تک پریشان سا بیٹھا رہتا ہے۔ اس دوران لڑکا کچھ کتابیں کھولتا ہے اور انہیں پڑھنے لگتا ہے۔ پاس میں لڑکے کی کوئی “ہمدرد” آتی ہے، ایک گلاس میں پانی لیے، وہ لڑکے کو پانی دے کر چلی جاتی ہے۔
پھر لڑکا سوچتا ہے کہ
میری ہمدرد نے مجھے پانی دیا لیکن بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگا۔ یہ سوچتے ہی سوچتے خیال آیا کہ
میرے ابو اپنا سب کچھ مجھ پر کیوں لٹا رہے ہیں؟
میری ماں جو بچپن سے آج تک، میرے لیے اتنا کچھ کرتی رہی لیکن بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگا۔۔۔۔ آخر کیوں؟
پانی کا گلاس ابھی بھی لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ اس نے پانی پینا شروع کیا۔۔۔ پانی کو لبوں سے لگایا اور اپنے حلق سے اتار دیا۔۔۔ لڑکے نے گلاس زمین پر رکھا، وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظوں کو سمیٹنے میں ناکام ہوگیا اور سوچنے لگا۔۔۔
پانی بھی تو بدلے میں کچھ نہیں مانگ رہا۔۔۔
درخت بھی تو کچھ نہیں مانگ رہے لیکن وہ اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔۔۔
سوال ابھی بھی ادھورا ہے۔۔۔ لڑکا اپنے کمرے سے باہر برآمدے کی طرف کچھ دیر ٹہلتا ہے اور اچانک گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔۔۔ باہر ٹہلتے ہوئے وہ ارادہ کرتا ہے کہ اب وہ اپنے دوست کی طرف جائے گا۔۔۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد وہ اپنا رخ دوست کے گھر کی طرف کرتا ہے۔۔۔ لیکن پھر اسے یہ خیال ستانے لگتا ہے کہ
میں اس کی طرف کیوں جارہا ہوں؟
کیا مجھے کچھ چاہیے اس سے؟
نہیں! میں تو اپنا وقت لے کر جارہا ہوں (لڑکا سوچ رہا ہے)۔
میں اس کو اپنا وقت دے رہا ہوں، مگر کیوں؟
یہ سوچتے ہی لڑکا خود کو کہتا ہے؛
میں اس سے پیار کرتا ہوں، مجھے وہ پسند ہے۔ مجھے اس کے ساتھ بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔
ارے ہاں، پیار (لڑکا خود سے کہتا ہے)
لڑکا اپنا ارادہ بدلتے ہوئے گھر کی طرف واپس لوٹتا ہے۔ گھر پہنچتے ہی وہ سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے۔۔۔
کیا دینا ہی پیار ہے؟
کیا یہ قدرت پیار کر رہی ہے؟
درخت، ہوا ،پانی، سورج اور چاند خود کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے، شاید یہ پیار کررہے ہیں۔۔۔.
کیا پیار ہی سب کو جوڑ رہا ہے؟
کیا پیار ہی تو “oneness” نہیں ہے؟
لڑکے کا آخری سوال اب اس کو خاموش کردیتا ہے۔۔۔
لڑکے کی اس شدید خاموشی کے بعد اس کی آنکھوں سے پانی نکل کر اس کے گال پر بہنے لگتا ہے۔ وہ اپنے ان آنسوؤں کی وجہ سمجھ نہیں پاتا، وہ اب خود کو کھو بیٹھتا ہے۔
اپنے بہتے ہوئے اشکوں کو صاف کرنے کے دوران اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔۔
“تو یہ ہے خوبصورتی۔۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔