ماہ و سال :مشاہدات و تجربات اور ہماری سوچ۔۔عاصمہ حسن

امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات نے ثابت کر دیا کہ انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ـ، یہ اعداد و شمار کا کھیل ہے جس کے بڑھنے سے تجربات و مشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے ـ جس شخص کی  عمر کا ہندسہ جتنا زیادہ ہو گا وہ اتنا ہی پُر وقار’ تجربہ کار’ سمجھدار و معاملہ فہم ہوگا اور اس کی بات میں اتنا ہی دم ہو گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وائیٹ ہاؤس میں موجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِسی سال اپنی  74ویں  سالگرہ منا چکے تھے جبکہ ان کے حریف بائیڈن الیکشن کے وقت  78ویں  سالگرہ سے چند دنوں کے فاصلے پر تھے۔ ـ

امریکہ کے الیکشن 2020 میں ریکارڈ ووٹ ڈالے گئے اور ان کی عوام نے جو بائیڈن کو صدر منتخب کیا جو عمر میں دونوں امیدواروں میں بڑے تھےـ جس سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ انسان کی قابلیت اور اہلیت عمر کے بڑھنے کے ساتھ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ـ۔

ہر شخص اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت عمر کا ہندسہ بڑھنے کے ساتھ اس میں حالات و واقعات کو سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہو جاتی ہے اور نوجوانوں کی نسبت ان میں جذباتیت کا مادہ بھی کم ہو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ کئی بہاریں اور کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں کئی مشکل فیصلے کئے ،زندگی کے سفر میں دشوار گزار رستوں پر چلنے کے بعد وہ کندن بن کر اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں ـ۔

جبکہ ہمارے ہاں عمر 70 سے تجاوز کرنے پر بڑوں کو ایک سائیڈ پر لگا دیا جاتا ہے کہ اب آپ کا وقت گیا، آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، آپ صرف اللّٰہ اللّٰہ کریں، ہمارے لئے دعائیں کریں، ـ حتٰی کہ ہم ان کو روز مرہ کے کاموں میں مشاورت کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔

ـہمارے معاشرے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ 50 کا ہندسہ عبور کر لیا تو بوڑھے ہو گئے ،یعنی بےکار ہو گئے، اسی سوچ کی وجہ سے ہزارہا بیماریاں گھیر لیتی ہیں کیونکہ نہ صرف ہم بلکہ ہر دوسرا بندہ یہ باور کرواتا ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساری خواہشات ختم ہو جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ صرف دوائیاں کھائیں اور کونے میں پڑے رہیں ـ حتٰی کہ 60 سال کو پہنچتے ہی دفتر(سرکاری و غیر سرکاری) والے بھی فارغ کر دیتے ہیں، ـاب فارغ انسان بیماریوں کے ساتھ ساتھ توہمات اور چڑچڑے پن کا بھی شکار ہو جاتا ہے جو وقت سے پہلے مزید بوڑھا کر دیتے ہیں۔ـ

ہمارے ہاں بہت سارے کام صرف یہ سوچ کر کئے جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے گہرا یا شوخ رنگ کا کپڑا نہیں پہننا کہ لوگ کیا کہیں گے’ گھومنے پھرنے نہیں جانا ‘ کھانے پینے کا شوق بھی یہ سوچ کر ختم کر دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنی عمر ہو گئی ہے اور خوراک دیکھو ـ فلاں کام نہیں کرنا کیونکہ اس عمر میں زیب نہیں دیتا ـ۔

ہمیں لوگوں کے رویے بوڑھے کر دیتے ہیں اگر دیکھا جائے اصل زندگی شروع ہی ریٹائیرمنٹ کے بعد ہوتی ہے کیونکہ جوانی کے خوبصورت سال تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں’ روزگار کی باگ دوڑ میں گزار دیتے ہیں اپنے بارے میں کب سوچتے ہیں اپنی خوشیاں کب جیتے ہیں اپنے خوابوں کو تو منوں مٹی میں دفن کر دیتے ہیں گھر داری اور بچوں کی پرورش میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ دن رات کا ہوش نہیں رہتاـ۔

جب ان سب ذمہ داریوں سے فرصت ملتی ہے تو لوگ بوڑھا کہہ کر سائیڈ پر لگا دیتے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ آج کل کا’ اب آپ والا زمانہ نہیں رہا’ وقت بہت بدل گیا ہے’ اس طرح کی باتیں سن سن کر ہماری اپنی سوچ بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے۔

دراصل سارا کھیل ہماری سوچ کا ہے ـ ہم اپنی سوچ سے ہی ایک معاشرہ تخلیق کرتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی سوچ پر کام کرنا ہو گا جتنا ہم مثبت سوچیں گے خود کو مصروف رکھیں گے ہم تندرست و توانا رہیں گے ـ ہماری سوچ’ ہمارے دماغ اور ہمارے جسم کا آپس میں خاص تعلق ہوتا ہے جیسا ہم سوچیں گے ویسا اپنے بارے میں محسوس کریں گے ـ اور ہم لوگوں کی باتوں کی فکر کیوں کریں خود کو ریٹائیرمنٹ کے بعد نتیجہ خیز کاموں میں مصروف رکھنا چاہئیے اپنے آپ کو جتنا بہتر طریقے سے مصروف رکھیں گے اتنا ہی ان سب بیماریوں اور سوچوں سے بچیں گےـ۔

دوسری طرف ہم سب کو چاہیے کہ بزرگوں کو ایک طرف لگانے کی بجائے انکے تجربات سے سیکھیں تاکہ ان کی غلطیوں سے سیکھ کر بہتر فیصلے کر سکیں اور بڑے نقصان سے بچ سکیں ـ
ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بزرگوں کو پیچھے دھکیل کر کچھ اچھا نہیں کرتے بلکہ یہ ایک قسم کی خودکشی کے مترادف ہے ـ ہم اپنے ہی مستقبل کو سنوارنے کا ایک سنہرا موقع کھو دیتے ہیںـ انھیں کنارہ کشی پر مجبور کر کے ہم خود کو ہی کمزور کر دیتے ہیں ـ۔

julia rana solicitors london

ہمارے معاشرے کو دوسرے معاشروں کی اچھی روایات اور عادات کو اپنانا چاہئیے انہوں نے بھی ہم سے اور ہماری تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے ـ ہمیں اپنے معاشرے کے تجربہ کار اور معمر لوگوں کو اعلٰی مقام عطا کرنا چاہئیے اس اقدام سے نہ صرف ہم خود مضبوط ہوں گے بلکہ ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہونگے ـ۔

Facebook Comments