اسٹیتھو اسکوپ پر اپنی انگلی سے بار بار ضرب لگاتا عمر رسیدہ ڈاکٹر بڑبڑا رہا تھا کہ میرے سینے میں کسی قبر کی سی خاموشی تھی۔ بس دور ہوا کے جھکڑوں جیسی کچھ آوازیں تھیں۔ اس نے اسٹیتھو اسکوپ واپس میز پر رکھ دیا اور الٹرا ساؤنڈ کی اسکرین کی طرف مڑ گیا۔ میں ساکت لیٹی رہی جب ا س نے ایک لیس دار مادہ میرے پیٹ پر لگایا اور پھر بڑے طریقے سے ایک پتلی سی چھڑی جیسا آلہ سینے کے مرکز سے پیٹ کے نچلے حصے تک پھیرا۔ اس آلے کے ذریعے میرے جسم کی سیاہ و سفیداندرونی تصویر ایک اسکرین پر منتقل ہو رہی تھی۔
’سب نارمل ہے،‘ وہ اپنی زبان چٹخاتے ہوئے بڑبڑایا۔ ’اب ہم تمہاری آنتوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔۔۔یہاں بھی سب ٹھیک ہے۔ ‘
ہر چیز ’نارمل‘ قرار دے دی گئی۔
’معدہ، جگر، بچہ دانی، گردے، سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ ‘
اسے کیوں نظر نہیں آتا تھا کہ یہ تمام اعضا آہستہ آہستہ سوکھ رہے تھے، غائب ہونے والے تھے؟ میں نے کچھ کاغذی رومالوں کی مدد سے خود کو صاف کیا اور اٹھنے ہی والی تھی جب اس نے میں مجھے دوبارہ لیٹ جانے کو کہا۔ پیٹ کو مختلف جگہوں سے دبایا، ایسا کچھ خاص درد تو نہیں تھا۔ اس کے عینک والے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے میں نے اس کے بے توجہی سے کیے گئے سوال ’ درد محسوس ہورہا ہے؟‘ کے جواب میں نفی میں سر ہلا دیا۔
’یہاں ٹھیک ہے؟‘
’یہاں درد نہیں ہوتا؟‘
’درد نہیں ہے۔‘
ایک انجکشن لگایا گیا اور گھر واپسی کے دوران میں نے قے کر دی۔
زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن کی ٹائلوں والی دیوار کے ساتھ کمر لگائے بیٹھی رہی۔ گنتی گن رہی تھی کہ درد کب دور ہوتا ہے۔ظاہر ہے ڈاکٹر نے یہی تجویز کیا تھا کہ میں پرسکون رہنے کی کوشش کروں، اطمینان بخش خیالات کو اپنے ذہن میں جگہ دوں۔ اس کا کہنا تھا کہ ساری بات تو دماغ کی ہے، لہجہ اُس وقت کسی بدھ بھکشو جیسا تھا۔ پرسکون خیالات، اطمینان بخش خیالات، ایک ، دو ، تین ، چار، بے حد سکون، قے نہ کرنے کی کوشش میں گنتی گننا۔۔۔درد سے میرے آنسو نکل آئے، معدے میں موجود تیزاب کو حلق سے باہر انڈیلنے کی کوشش میں جسم بل کھا رہا تھا ، دوبارہ، ایک بار پھر، یہاں تک کہ کچھ بھی نہ بچا اور میں زمین پر گر پڑی۔ انتظار کرتی رہی کہ ہلتی ہوئی زمین رک جائے، خدا کی پھٹکار، اب رک بھی جاؤ۔
یہ کتنی پرانی بات ہے؟
ماں میں یہی خواب بار بار دیکھتی ہوں۔ کسی سفیدے کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہوں۔ بالکونی کی چھت کو چیرتے ہوئے، بالائی منزل کی چھت سے بھی اوپر، اس سے اگلی منزل سے بھی اوپر، پندرہویں منزل، سولہویں منزل، سہارا دینے والے کنکریٹ اور فولادی سلاخوں کو کاٹتے ہوئے ، یہاں تک کہ میں سب سے بالائی منزل کو توڑتی ہوئی فضا میں نکل گئی ہوں۔ میری بالاترین اونچائیوں سے سفید لارووں جیسی کلیاں پھوٹ رہی ہیں۔ سانس کی نالی صاف شفاف پانی چوستی ہے، اتنا تناؤ جیسے پھٹنے کے قریب ہو، سینہ آسمان کی جانب اچھلتا ہےاور میں شاخوں کی طرح پھوٹتے ہر عضو کو پھیلانے کے لیے پوری قوت خرچ کر رہی ہوں۔ اس طرح اس فلیٹ سے فرار ممکن ہوا ہے۔ ہر رات، ہر رات یہی خواب ماں!
دن سرد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج بھی اس دنیا میں بہت سے پتے زمین پر گرے ہوں گے، کئی سانپوں نے کینچلیاں بدلی ہوں گی، کئی کیڑے مکوڑے اپنی ننھی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے، کئی مینڈکوں نے وقت سے ذرا پہلے ہی سرما خوابی کا آغاز کر دیا ہو گا۔
میں تمہارے سویٹر کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ تمہاری مہک اب دھندلا رہی ہے۔ میں اسے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ مجھے یہ اوڑھا دے لیکن میری آواز اب ضائع ہو چکی ہے۔ کیا کر سکتی ہوں؟ وہ مجھے یوں گھلتے دیکھ کر روتا ہے، غصے بھی ہوتا ہے۔ تم جانتی ہی ہو، میں ہی اس کا کُل کنبہ تھی۔ میں اپنے اوپر بہائے جانے والے معدنی پانی میں اس کے گرم آنسو دریافت کر سکتی ہوں۔ ہوا کے خلیوں کی بے ترتیبی سے احساس ہوتا ہے کہ اس کی بند مٹھی خلا میں کسی نادیدہ ہدف سے جا ٹکرائی ہے۔
*
مجھے ڈر لگتا ہے، ماں۔ میرے اعضا نے گرنا ہی ہے۔ یہ گملا کسی شکنجے کی طرح ہے، دیواریں بہت سخت ہیں۔ میری جڑوں کی سروں پر درد ہوتا ہے۔ ماں میں سردیاں آنے سے پہلے ہی مر جاؤں گی۔
اور شاید ہی پھر کبھی دوبارہ اس دنیا میں کِھل سکوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات جب میں اپنے کاروباری دورے سے لوٹا تو تین پیالے انڈیلنے کے بعد میری بیوی نے ایک زرد تیزابی قے کی۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو کھلتے اور پھر تیزی سے واپس بھنچتے دیکھا، میری آنکھوں کے بالکل سامنے، گوشت پر گوشت چڑھ گیا۔ میری کانپتی انگلیاں ان زرد پتیوں جیسے ہونٹوں کو ٹٹول رہی تھیں کہ میں نے بالآخر ایک کمزور سی آواز سنی، اتنی مدھم کہ الفاظ ماورائے سماعت تھے۔ یہ آخری موقع تھا کہ میں نے اپنی بیوی کی آواز سنی۔ اس کے بعد کبھی ہلکی سی آہ تک سنائی نہ دی۔
پھر اس کی رانوں کے اندرونی حصے سے جڑوں کا ایک سفید دبیز فوارہ سا پھوٹ پڑا۔ سینے سے گہرے سرخ پھول کِھل گئے۔ پستانوں سے جڑواں زرِ ریشہ اگ آئے جو جڑوں سے زرد و دبیز اور سِروں سے سفید تھے۔جن دنوں اس کے اٹھے ہوئے بازو ؤںمیں ذرا سا دباؤ ڈالنے کی سکت باقی تھی ، وہ انہیں میری گردن میں حمائل کرنا چاہتی تھی۔ اس کی اب تک نیم منور آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں کمیلیا کی پتیوں والے بغل گیر ہاتھوں کی جانب جھک گیا۔ ’تم کیسی ہو؟‘ میں نے پوچھا۔ پکے ہوئے انگوروں جیسی آنکھوں کی چمکدار سطح ذرا جھلملائی، مسکراہٹ کی شبیہہ۔
خزاں کو کچھ وقت گزرا تو میں نے اپنی بیوی کے جسم میں بتدریج ایک واضح نارنجی روشنی طاری ہوتے دیکھی۔ کھڑی کھولتا تو اس کے کھلے ہوئے بازو ہوا کے بہاؤ کے ساتھ لہراتے۔
خزاں کا آخر تھا جب اس کے پتے دو دو تین تین کی جوڑیوں میں گرنے لگے۔ اس کا بدن نارنجی سے چمکیلا بھورا ہو گیا۔
مجھے یاد آیا جب میں نے آخری بار اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی ۔
جسمانی رطوبتوں کی تلخ ناگوار تیزی کی بجائے اس کے جسم کے زیریں حصے سے ایک ہلکی سی خوشگوار مہک اٹھ رہی تھی۔ اس وقت میں نے یہی سوچا تھا کہ شاید اس نے صابن تبدیل کیا ہے یا شاید کچھ فارغ وقت مل گیا ہو گا اور اس نے نیچے کچھ عطر کے قطرے وغیرہ ٹپکائے ہیں۔ یہ سب کتنی پرانی بات ہے؟
اب میری بیوی کی وضع قطع میں شاید ہی دوپایوں والی کوئی بات رہی ہے جو وہ کبھی تھی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیا ں جو چمکدار گول انگوروں میں تبدیل ہو چکی تھیں ، اب بتدریج بھورے تنوں میں دفن ہو رہی ہیں ۔ وہ اب دیکھ نہیں سکتی۔ نہ ہی اپنے تنوں کے سرے ہلا سکتی ہے۔ لیکن بالکونی میں جاتے ہوئے مجھے ایک دھندلا سا احساس ہوتا ہے جو ماورائے نطق ہے، جیسے اس کے بدن سے ایک نازک سی برقی رو نکل کر میرے جسم میں سرایت کر رہی ہو۔ جب وہ تمام پتے گر گئے جو کبھی اس کے دست و گیسو تھے ، وہ درز کھل گئی جہاں کبھی اس کے ہونٹ آپس میں ملتے تھے اور مٹھی بھر پھل برآمد ہوئے تو وہ احساس کسی نازک سے دھاگے کے ٹوٹنے کی طرح ختم ہو گیا۔
ننھے پھل اناروں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر بصورتِ ہجوم باہر آ گئے۔ انہیں ہاتھوں میں اکٹھا کیے میں بالکونی اور بیٹھک کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ یہ پھل جنہیں میں پہلی بار دیکھ رہا تھا زرد ی مائل سبز تھے۔سورج مکھی کے بیجوں کی طرح سخت جنہیں بھنے ہوئے مکئی کے دانوں کے ساتھ شراب نوشی کا لطف دوبالا کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔
میں نے ایک اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ ملائم بیرونی چھلکا تو بالکل بے ذائقہ اور کسی قسم کی خوشبو کے بغیر تھا۔ میں نے اسے چبا ڈالا۔ روئے زمین پر میری واحد محبوبہ کا پھل ۔ اولین احساس تیزابی بلکہ تقریباً ترش تھا، زبان کی جڑ سے چپک کر رہ جانے والے عرق میں ایک کرواہٹ کا سا بچ رہنےوالا ذائقہ تھا۔
اگلے دن میں ایک درجن گول گملے خرید لایا اور انہیں زرخیز مٹی سے بھر کر ان پھلوں کو بو دیا۔ گملوں کو ایک قطار میں اپنی مرجھائی ہوئی بیوی کے ساتھ رکھا اور کھڑکی کھول دی۔ آہنی جنگلے پر جھک کر کھڑا ہوا، ایک سگریٹ سلگایا اور تازہ گھاس کی خوشبو کا مزہ لینے لگا جو اچانک میری بیوی کے زیریں حصوں سے اگ آئی تھی۔ آخرِ خزاں کی سرد ہوا سگریٹ کے دھویں کو لہرا رہی تھی، میرے لمبے بال بکھر رہے تھے۔
بہار کی آمد پر کیا میری بیوی دوبارہ کِھل اٹھے گی؟ کیا اس کے پھول سرخ ہوں گے؟ میں کیا کہہ سکتا ہوں، کون جانے کیا ہوتا ہے۔
***

پسِ تحریر: جنوبی کوریا کی خاتون ناول نگار ہان کینگ کی ۱۹۹۷ ءکی اس کہانی کو کئی جہتوں سے ان کے ۲۰۰۷ء کے مشہور ناول The Vegetarian کا نقیب کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کہانیوں میں ایک شادی شدہ جوڑا اپنی بالکل سپاٹ زندگیوں میں اس وقت ایک ہلچل محسوس کرتا ہے جب عورت ایک عجیب و غریب جسمانی و نفسیاتی قلبِ ماہیت سے گزرتی ہے۔ لیکن جہاں ناول واضح طور پر کسی بھی مافوق الفطرت منظر کشی سے کنارہ کرتا ہے اور ناول کے مرکزی کردار کے درخت میں تبدیل ہونے کی خواہش کو اس کے اردگرد موجود تمام افراد پاگل پن کے طور پر دیکھتے ہیں، اس افسانے کی بے نام ہیروئین درحقیقت واقعی ایک پودے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہان کینگ کی اس کہانی اور اس سے جنم لیتے ناول کی کئی تعبیرات پیش کی گئی ہیں اور اسے جنوبی کوریائی سماج پر ایک تنقید کی بھی کہا گیا ہے۔ لیکن کایا کلپ کی یہ جہت اپنی تمثیلی جہت میں کوریائی سماج کی نسبت روایتِ کافکا سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ کوریائی ادب پر یونانی دیومالا کے بھی کوئی خاص اثرات نہیں۔ لہٰذا کوریائی نقادوں کے نزدیک ہان کینگ نے ادب میں ایک ایسی نئی روایت کو متعارف کروایا ہے جو مشرقی ایشیا کے ادب میں جدید سرمایہ دارانہ صنعتی دور سے جنم لیتے ایک ماحولیاتی ابہام کو اپنا موضوع بناتی ہے ۔ یہ ابہام آمیز طلسماتی نثر بلاشبہ کسی بھی مترجم کے لیے ایک دلچسپ چیلنج سے کم نہیں۔
Facebook Comments