کورونابچاؤ مہم۔۔آغر ندیم سحر

کرونا نے دوبارہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینا  شروع کر دیا ہے،دوبارہ لاک ڈاؤن کا خطرہ سروں پر منڈلانے لگا ہے  اور ہمارے عوام ابھی تک اسی بات پر مصر ہیں کہ کرونا نہیں ہے۔ایک دفعہ پھر وہی چہ مگوئیاں سننے کو مل رہی ہیں‘جو کوروناکے شروع کے دنوں میں سنی گئیں۔کورونا کہاں ہے؟کوئی کورونا سے مرا؟ہسپتالوں والے بھی جھوٹ بولتے ہیں‘ہر مرنے والے کو کرونا کہہ کر باہر کے ملکوں سے پیسے لیے جا رہے ہیں،عمران خان یہ سب قرضے معاف کروانے کے لیے کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔عوام تو ایک طرف ہمارے اپوزیشن رہنما بھی اب کورونا کے بارے وہی رائے رکھتے ہیں‘جو   عوام کی رائے  ہے۔حکومت نے اپوزیشن سے گزارش کی کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے کچھ عرصہ جلسے منسوخ کر دیے جائیں‘جس پر اپوزیشن دانشوروں کا کہنا تھا کہ ”حکومت چونکہ پی ڈی ایم سے بوکھلا گئی ہے‘اس لیے کورونا کا شور ڈال رہی ہے تاکہ ہماری حق سچ کی آواز دبائی جا سکے“۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے رہنماؤں یا پی ڈی ایم کے حمایتیوں سے الجھے یا عوام الناس سے‘ایک بڑا چیلنج ہے جس کا بہرحال کوئی نہ کوئی حل درکار ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری حکومت کا زیادہ قصور ہے‘کورونا کی لہر کچھ کم ہوتی گئی،ہمارے وزیر اعظم جلسوں‘کنونشنز اور تقاریب کے لیے نکل پڑے اور دوبارہ ”سونامی آیا“کا شور ڈالنا شروع کر دیا‘اب حکومت کے نقشِ قدم پر اگر اپوزیشن نکل پڑی ہے تو شور کاہے کا؟۔اس کے علاوہ بھی اپوزیشن سے کسی اچھے کی امید نہیں کی جا سکتی‘انہیں لگتا ہے کہ حکومت کا ہر فعل اپوزیشن کے خلاف ہے ،حالانکہ حکومت اتنی بھی فارغ نہیں کہ انہیں سوتے جاگتے پی ڈی ایم کے خواب آتے رہیں۔ جہاں تک سوال کورونا کا ہے تو اس وقت آپ مارکیٹوں سے لے کر ہوٹلز اور کارپوریٹ کلچر کے شاپنگ مالز تک دیکھ لیں‘کووڈ کی ایس او پیز پر عمل دس فیصد سے بھی کم لوگ کر رہے ہوں گے۔مجھے اِس اتوار لاہور کے کچھ شاپنگ مالز اور کئی اہم بازاروں میں جانے کا اتفاق ہوا‘جہاں جہاں تک نظر دوڑائی‘پانچ یا دس فیصدف لوگ ہی ماسک میں نظر آئے۔بالخصوص انارکلی بازار‘اچھرہ بازار‘اسٹیشن بازار اور شاپنگ مالز میں بھی صورت حال تقریبا ًایسی ہی تھی۔ایسے میں اگر حکومت دوبارہ لاک ڈاؤن کا کہتی ہے تو ہمیں شور نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ جب عوام ہر حکومتی ایس او پی کو ہوا میں اڑا دیں گے تو لاک ڈاؤن لازمی ہو جائے گا۔

اب یہاں معاملہ تعلیمی اداروں کا ہے‘جب بھی لاک ڈاؤن کی بات شروع ہوتی ہے،بات تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتی ہے۔تعلیم کا ویسے ہی ہمارے ہا ں اللہ حافظ ہے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ کورونا لاک ڈاؤن نے پوری کر دی۔حالانکہ اگر ایمان داری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں اگر کسی جگہ آپ کو کورونا کی مکمل ایس او پیز نظر آئیں گی تو وہ تعلیمی ادارے ہیں مگر عجیب بات ہے جب جب حکومت کو لاک ڈاؤن کا خیال آتا ہے‘بات تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتی ہے۔تعلیمی معاملے میں ویسے ہی ہم کس قدر پیچھے ہیں اور اگر اب لاک ڈاؤن لگا تو تعلیمی سطح پر ہونے والا نقصان اگلے کئی سال پورانہیں ہو سکے گا۔حکومت کو چاہیے شاپنگ مالز سمیت تمام اہم اور مرکزی پوائنٹ بند کر دے لیکن تعلیمی اداروں کے ایس او پیز کے ساتھ چلنے دے‘تعلیم پر رحم کرے کیونکہ ”سمارٹ سلیبس“کی پالیسی تعلیمی بورڈز نے جاری توکر دی مگر اس کے نقصانات سے شاید وہ خود بھی آگاہ نہیں اور اگر دوبارہ لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو شاید ”سمارٹ سلیبس“ کو بھی مزیدسمارٹ کرنا پڑ جائے۔

کووڈ کا خطر ہ اس وقت سب سے زیادہ سیاسی جلوسوں‘مارکیٹوں اور شاپنگ مالز سمیت ہوٹلوں میں ہے مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اب ہمیں دوبارہ یا تو لاک ڈاؤن کی طرف جانے کی بجائے حکومتی ایس او پیز پر سختی سے عمل کروانے کا کوئی طریقہ اختیار کرنا ہوگا اور اگر ہمیں لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا واحد حل ہے تو کم از کم تعلیمی اداروں کو رعایت دی جائے‘اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالیہ صورت حال میں صرف تعلیمی ادروں نے ہی کورونا ایس او پیز میں حقیقی معنوں میں عمل کیا ہے۔آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں‘آپ کو اساتذہ اور بچے مکمل ماسک اور سینی ٹائزر کے ساتھ نظر آئیں گے اور اس کا میں عینی شاہد ہوں لہٰذا تعلیم کا مزید ستیا ناس کرنے کی بجائے کوئی دوسرا آپشن تلاش کرنا ہوگا۔

پرائیویٹ ادارے بھی مزید لاک ڈاؤن کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘اس سے قبل بھی پانچ ماہ پرائیویٹ اداروں نے کیسے سروائیو کیا‘ہم جانتے ہیں اور ایسے میں ہمیشہ مارے استاد جاتے ہیں کیونکہ جب بچے فیسیں نہیں دیں گے تو ادارو ں کے مالکان عمارتوں کے کرائے اور اساتذہ کی تنخواہیں کہاں سے پوری کریں گے۔سو اس صورت حال کو بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کیونکہ صرف دھمکی لگا دینا کہ ادارے بند کر دیں‘مارکیٹیں بند کر دیں‘مسجدیں بند کر دیں۔اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ہمیں اس کے برعکس کوئی مضبوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ایس او پیز پر عمل کروانے میں سختی بھی کرنی پڑے تو کرنی ہوگی کیوں یہ قوم سختی کے بغیر بالکل نہیں سمجھ سکتی۔پانچ ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ قوم جب باہر نکلی تو اس کو   بالکل بھی نہیں لگتا تھا کہ اس ملک میں کبھی کورونا آیا بھی تھا یا نہیں۔عوام نے پانچ ماہ کی کسر ٹھیک طرح سے نکالی اور ماسک منہ پر پہننے کی بجائے جیبوں میں پہن لیے۔جہاں جہاں ضرورت پڑی‘جیب سے نکالا‘وقتی طور پہ پہنا اور پھر اتار کے جیب میں ڈال لیا۔

سو ایسے عوام کو سمجھانا خاصا مشکل کام ہے۔مزید حکومت اگر کورونا کے بارے سنجیدہ ہے تو اپوزیشن کے جلسے اور تقریبات بند کرنے کی بجائے سب سے پہلے اپنے جلسوں اور کنونشنز پر پابندی لگائے تاکہ اپوزیشن پر رعب کسی کام آ سکے۔عوام جگہوں کو بھی مکمل بند کرنے کی بجائے سمارٹ لاک ڈاؤن کا راستہ اپنایا جائے تو معاملاتِ زندگی بھی چلتے رہیں گے اور کورونا سے بچاؤ مہم بھی جاری رہے گی ۔ہر چیز کو بند کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ کورونا سے ترقی یافتہ ملکوں کی بھی معیشت کی چیخیں نکل گئیں اور ہم تو بہت بعد میں آتے ہیں۔ لہٰذا کورونا بچاؤ مہم میں لاک ڈاؤن سے بچنے کا کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply