موضوعات تو بہت ہیں کالم لکھنے کے لیے ۔ خاص طور پر جب سے اپوزیشن زندگی کا ثبوت دینے لگی ہے اور پی ڈیم ایم کی تحریک جب سے شروع ہوئی ہے ، روزانہ کی بنیاد پر کالم لکھے جا سکتے ہیں ۔ لیکن متنوع مصروفیات آڑے آتی ہیں اور اخبار کے لیے کالم لکھنے کے لیے خاص طور پر وقت نکالنا پڑتا ہے ۔
آج سب سے پہلے تو آصف زرداری صاحب کے ایک فیصلے پر بات کرنا ہے ۔ موصوف نے اپنی چھوٹی صاحب زادی آصفہ زرداری کو اچانک سیاسی میدان میں اتار دیا ہے ۔ اس مقصد کے لیے سرائیکی وسیب کے گڑھ ملتان شہر کا انتخاب کیا گیا ۔ قارئین کے لیے یہ بات دل چسپی کا باعث ہو گی کہ زرداری صاحب اگرچہ سندھ دھرتی کے رہنے والے ہیں ، لیکن ان کی مادری زبان سرائیکی ہے ۔ آصفہ کی اچانک سیاسی رو نمائی کے لیے جواز یہ تراشا گیا کہ چیئرمین بلاول زرداری کرونا کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں تو آصفہ ملتان کے پی ڈی ایم جلسے میں ان کی نمائندگی کریں گی ۔ لیکن جو لوگ زرداری صاحب کی سیاست کو جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ یہ کوئی ہنگامی فیصلہ نہیں تھا ۔ یہ موصوف کا ایک باقاعدہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔ میرے قارئین کو یاد ہو گا کہ پی ڈی ایم کے ابتدائی جلسوں کے بعد بلاول زرداری نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی تقاریر میں بعض شخصیات کے نام کیوں لیے ۔ اس پر بہت لے دے ہوئی ۔ تاہم ن لیگ نے سیاسی اتحاد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس معاملے پر گرفت کرنے سے پرہیز کیا ۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر معاملات کو ٹھنڈا رکھا ۔ لیکن بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اب تک موجود ہے بلاول کے اس بیان کا مقصد آخر کیا تھا ۔ سیاسی اتحاد کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کرتا کہ سیاسی قائدین اپنی تقاریر دوسری جماعتوں کے لیڈرز سے لکھوائیں ، یا میاں صاحب جیسے بڑے اور تجربہ کار ترین سیاسی قائد اپنی تقریر میں کسی شخصیت کا نام لینے سے پہلے اپنے پوتوں اور نواسوں کی عمر کے لڑکے سے مشورہ لیں جو ابھی ابتدائی سیاست سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہے ۔ یقیناً زرداری صاحب نے بھی اس پر غور کیا ہو گا اور اس معاملے میں بلاول سے ان کی بات بھی ہوئی ہو گی ۔ اسی طرح کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے فوری بعد سندھ کے آئی جی پولیس کے مبینہ اغواء اور راتوں رات کیپٹن محمد صفدر اعوان کے خلاف فاطمہ جناح کی شان میں نعرے لگانے پر ایف آئی آر کے اندراج ، ایک ہوٹل میں مقیم محترمہ مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑنے اور کیپٹن محمد صفدر کی نہایت جارحانہ اور احمقانہ انداز میں گرفتاری جیسے افسوس ناک واقعات ہوئے ۔ اس موقع پر وفاقی و سندھ حکومت کے مابین شدید اختلاف کا تاثر ابھرا ۔ وفاقی حکومت نے اسے ڈرامہ بھی قرار دیا اور سندھ حکومت کو مورد الزام بھی ٹھہرایا ۔ جب کہ سندھ حکومت ، پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو قصوروار قرار دیا ۔ مسلم لیگ (نواز) کا موقف ان دونو سے مختلف رہا ۔ اس معاملے میں بلاول زرداری نے اس پر آرمی چیف کو فون کر کے تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے اس پر اعتراض کیا ۔ ان کی رائے یہ تھی کہ آرمی چیف کی بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو اپیل کی جانا چاہیے تھی ۔ خیر آرمی چیف نے اس پر ادارہ جاتی انکوائری کا حکم جاری کیا ۔ پھر جب کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ تھا تو بلاول نے اس جلسے میں شرکت کی بجائے غیر متوقع طور پر اچانک خود کو گلگت بلتستان میں مصروف کر لیا ۔ آرمی چیف کی طرف سے کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ جب سامنے آئی تو متاثرہ فریق یعنی مسلم لیگ نواز نے اس رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے بھی بعض معاملات کی وضاحت چاہی ۔ لیکن بلاول زرداری نے اس رپورٹ پر مکمل اطمینان کا اعلان کر دیا ۔ اسی طرح کے چند دیگر معاملات ایسے تھے جن سے یہ لگ رہا تھا کہ بلاول کی سیاسی گفتگو اور سرگرمیوں سے پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ سکتی ہے ۔ ویسے بھی زرداری صاحب جیسا گھاگ سیاست دان یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ خود اس کا اپنا بیٹا ، اس کی بجائے کسی اور طرف سے راہ نمائی لیتا محسوس ہو ۔ آصفہ کی سیاست میں دل چسپی بہت پہلے سے زرداری صاحب اور پارٹی قیادت کے علم میں تھی ۔ چناں چہ بلاول کی بجائے آصفہ کو سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ آصفہ زرداری نے ملتان میں بہت مختصر خطاب کیا ۔ اس کی شکل و صورت کے ساتھ ساتھ آواز اور انداز بھی محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہت مشابہت رکھتا ہے ۔ جیالوں کو اس میں بے نظیر نظر آنے لگی ہے اور لگتا یہی ہے کہ وہ پارٹی میں بہت جلد مقبول ہونے لگے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ 13 دسمبر کے لاہور جلسے میں بھی بلاول کی بجائے آصفہ ہی کو بھیجا جائے ۔ اگر ایسا ہوا تو ہم دیکھیں گے کہ بلاول آہستہ آہستہ سیاسی طور غیر فعال ہوتے جائیں گے اور آصفہ پیپلز پارٹی کے منظر نامے پر ابھرنے لگے گی ۔
اب آتے ہیں اس جلسے کی طرف جس کی تیاریاں ہر طرف بہت زور و شور سے جاری ہیں ۔ لاہور میں 13 دسمبر کو پی ڈی ایم کا جلسہ ہونا قرار پایا ہے ۔ اس کی میزبانی مسلم لیگ نواز کے ذمے ہے ۔ لیکن اس حوالے سے تیاریاں “ہر طرف” سے جاری ہیں ۔ محترمہ مریم نواز نے تو جلسے کے لیے پورے لاہور کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے ۔ وہ مختلف حلقوں کے دورے کر رہی ہیں اور کارکن ان پر پھولوں کے ساتھ ساتھ نوٹ بھی نچھاور کر رہے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اپنے کارکنان کو تیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ حکومت بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہی ۔ جہاں جہاں سے محترمہ مریم نواز گزرتی ہیں ، وہاں کے قریبی تھانوں میں ان کے خلاف پرچوں پہ پرچے درج کیے جا رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ اب تک محترمہ مریم اورنگ زیب ، عظمیٰ بخاری ، سینیٹر پرویز رشید ، رانا ثناء اللّٰہ ، سردار ایاز صادق سمیت تقریباً 4000 مسلم لیگی کارکنوں کے خلاف دھڑا دھڑ مقدمات درج کیے جا چکے ہیں ۔ جلسے کے لیے کرسیاں یا کھانا فراہم کرنے والے مقامی کاروباری افراد اور اداروں کو بھی مقدمات سے ڈرایا جا رہا ہے ۔ وفاقی حکومت یہ بھی بتا رہی ہے کہ اسے اس جلسے سے کوئی پریشانی نہیں ، لیکن منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس جلسے کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ۔ مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں اتنا زیادہ پانی لگا دیا گیا ہے کہ وہ تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ اس سب کے بعد وفاقی و صوبائی ترجمانوں کا جم غفیر روزانہ کی بنیاد پر یہ راگ بھی الاپ رہا ہے کہ جلسے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ۔
منگل ہی کے روز پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دئیے جائیں ۔ مسلم لیگ نواز پہلے ہی اس حوالے سے کام شروع کر چکی ہے ۔ گزشتہ اتوار کو محترمہ مریم نواز نے اس حوالے سے بیان دیا اور اسی دن قومی اسمبلی کے رکن جناب حامد حمید نے ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھ کر استعفیٰ پیش کر دیا ۔ پھر رکن پنجاب اسمبلی چودھری افتخار چھچھر نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ چناں چہ اب تک مسلم لیگ نواز کے 2 ایم این ایز اور 3 ایم پی ایز ، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کے 14 ارکان اور پیپلز پارٹی کے 2 ارکان استعفیٰ دینے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ جب کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تاریخ 31 دسمبر طے کی ہے ۔
حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مذاکرات کی دعوت کی شکل میں دراصل عمران خان نے ان سے این آر او مانگا ہے ۔ اپوزیشن خاں صاحب کو این آر او نہیں دے گی ، اور مذاکرات حکومت کی بجائے اداروں کے ساتھ ہوں گے ۔
ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کا خیال آ رہا ہے ۔ بھٹو صاحب بھرپور سیاسی بصیرت کے باوجود اپوزیشن کی قوت کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے ۔ موجودہ حکومت میں بھٹو یا نواز شریف جیسی سیاسی سوجھ بوجھ والی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی ۔ اس پہ طرہ یہ خاں صاحب ہمیشہ کی طرح خود پرستی کی انتہا پر ہیں ۔ اپوزیشن کی عوامی مقبولیت (جمہوریت) کو سمجھنے میں وہ شدید غلطی کا شکار ہیں ۔ اللّٰہ خیر کرے !
Facebook Comments