پاکستان کادارلحکومت اسلام آباد میرا دُکھتا اور سلگتا ماضی ہے۔میرے والدمرحوم ایک عرصہ تک اسلام آباد میں بسلسلہ روزگار مقیم رہے۔میں نے اسلام آباد کو بچپن،لڑکپن اور پھر جوانی میں باربار دیکھا۔اگرچہ یہ پاکستان کاجدید شہر ہے۔مگر یہ تاریخی شہر بھی ہے۔بری امام ؒ جیسے صاف دل صوفی نے اسے سیکڑوں سال پہلے بسایاتھا۔اورنگ زیب عالمگیر نے حضرت بری امام ؒ کی قبرپر اندازاً ساڑھے تین سو سال قبل مقبرہ بنوایاتھا۔اس چھوٹے سے مقبرے کو جس پر نقاشی کاعمدہ کام ہواتھا۔میں نے بارہا دیکھا۔ملنگوں اور مجذبوں کی ٹولیاں یہاں قلندرانہ نعرے لگایاکرتی تھی۔ایک چھتناور درخت مزار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوتاتھا۔مٹی کے درجنوں دیے سر شام ہی اس کے نیچے جلنے لگتے۔
اب اس درخت کاایک حصہ کاٹ دیا گیاہے۔ایک وسیع احاطہ خالی ہوتاتھا۔جہاں زائرین بیٹھ کر لنگر کے چاول کھاتے رہتے تھے۔اگرچہ آج یہاں انتظامی امور ماضی کے مقابلے میں بہت ہی بہتر ہیں۔لیکن یہاں کاگنبدتاریخی اور آثار قدیمہ کاحصہ تھا جسے مٹا دیا گیا۔اس کی جگہ ایک بڑا اور خوبصورت گنبد موجود ہے۔اگربتیوں کی مہک بری امام بازار میں داخل ہوتے ہی آنے لگتی تھی۔لوئی دندی تک (چلہ گاہ) تب زیادہ ویران رستہ تھا۔پانچ سو سال قبل یہاں زیادہ ویرانی اور بیانانی کاراج رہاہوگا۔
کہاجاتاہے کہ حضرت بری امام ؒ کے دور میں اس سارے علاقے اورگردونواح میں ڈاکو راج تھا۔قافلے لُٹ جاتے تھے۔آپ ؒ نے اسی طرح کے لوگوں میں تبلیغ کی۔بری امام کی کچی بسیتوں میں میری اکثر راتیں گزریں۔ان رہائشی بستیوں کے کچے مکانات پردیسی لوگوں کے ٹھکانے تھے۔ ایک وقت میں مختلف علاقوں سے آئے لوگوں نے یہاں قبضہ جمالیا۔کچے گھر بنا لیے پھر وہ مکانات آگے کرایے پر دیے جانے لگے۔اسلام آباد میں روزگار کے سلسلے میں کام کرنے والے لوگوں کے لیے سستے کرائے پر کمرے اور مکانات مل جاتے تھے۔وہ بھی بالکل دیہاتی ماحول میں۔قریب کے جنگل سے بستیوں کے لوگ بالن کاٹ کر لاتے۔سرشام بستیوں سے دھواں اٹھنے لگتا۔کچی دیہاتی زندگی جاگنے لگتی اوررات گئے تک جاگتی رہتی۔
اکثرلوگ مزار سے لنگر بڑے بڑے تھیلوں میں ڈال کر لاتے۔جمعرات کی شب اور جمعہ کو بری امام دربار پر خوب رونق ہوتی۔جب پاکستان دہشت گردی کی زد میں آیاتو خدشہ ہونے لگاکہ یہ کچی بستیاں کہیں پار سامنے والی چوٹی کے پیچھے بنے پارلیمنٹ ہاؤس کے خلاف استعمال نہ ہوجائیں۔لہٰذا یہ ختم کردی گئیں اور لوگوں کو متبادل جگہ دے دی گی۔
اسلام آباد کادامن کوہ لمبائی میں دور تک پھیلا ہے۔گھنے جنگل سے آباد یہ پہاڑی سلسلہ خوب صورت ہے۔اس کے دامن میں چڑیا گھر،بری امام مزار ؒ، پارک،فیصل مسجد اور لمبائی کے رخ پر کافی آگے سلسلہ چشتیہ کی مشہور خانقاہ،گولڑہ شریف ہے۔دامن کوہ نامی پارک جو پہاڑ کے بیچ ایک بلند جگہ پر ہے،سے اسلام آباد کانظارہ کریں تو پورا اسلام آباد،”دامن کوہ“کے قدموں میں پھیلانظر آتاہے۔بالائی پہاڑیوں سے اسلام آباد نظروں میں سمٹ آتاہے۔یہاں تک کے آخری سرحدی علاقہ لیک ویو،راول ڈیم اور فیض آباد تک سمجھ آنے لگتاہے۔
ماضی میں یہ شہر،شہر ہو کربھی پورے کاپورا کسی پارک کامنظر پیش کرتاتھا۔تمام دورویہ سڑکوں کے درمیان چیڑوں اورمقامی درختوں کاجنگل ایک تیسری رو ہواکرتی تھی۔”بلو ایرا“جیسے گنجان علاقے میں بھی درختوں کی گھنی قطاریں موجود تھیں۔خزاں رتوں میں اس خوب صورت علاقے میں پھلواریاں جوان رہتی تھیں۔میں نے رات کی شب گردی اور دن کی آوارہ گردی اسلام آباد کی سڑکوں (جو پارکوں سے کم نظارہ نہ رکھتی تھیں) پر اور اس کے چوراہوں پر پانی کی دھاریں چھوڑتے فواروں کے پاس بیٹھ کر کی۔مگراس نومبر کو میں اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد گیا تو جو بیابانی اس کاحسن تھی،جو پھلواریوں اور گھنی چیڑوں سے لدی سڑکیں اس کی رونق تھیں۔اب وہاں کنکریٹ کے بڑے بڑے پلازے کھڑے ہوچکے ہیں۔”سنٹورس“نامی شاپنگ پلازہ بنے کافی مدت ہوچکی۔مجھے اس جگہ دو رویہ سڑکوں کے بیچ چیڑوں کاگھناجنگل اب بھی یادہے۔راتوں کوروشنیوں میں پانی چھوڑتے فوارے یاد ہیں۔یہ جنگل کمپلیکس تک پھیلا ہواتھا۔جی۔ایٹ مرکز اور جی۔نائن میں،میں ٹیوشن پڑھایاکرتاتھا۔
سڑکوں کے کنارے ان جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے ’’ہٹ“سی۔ڈی ۔اے نے بناکر کرائے پر دیے ہوتے تھے۔پھلواریوں اور درختوں کے درمیان ان ہوٹلوں پر سستے اور لذیذ کھانے دستیاب ہوتے تھے۔جناح سپر اور سپر مارکیٹ ہمارے (کشمیری لوگ)لیے گھر کاصحن ہوتی تھیں۔ٹیکسی سٹینڈ پر اترتے ہی اپنوں سے واسطہ پڑتا۔نئے پاکستان سے کافی پہلے سستازمانہ تھا۔ہر ایک چائے اور کھانے کی دعوت دیتا۔اگر آپ ایک ماہ تک اسلام آبادمیں رہتے تو رہائش اور کھانااپنی جیب سے کرنے کی ضرورت نہ تھی۔آپ اسلام آباد میں مہمان ہوتے تھے۔جناح سپر مارکیٹ کے سامنے کچھ فاصلے پر ”سعودیہ ٹاور“اسلام آباد کاسب سے قدآور ٹاور تھا۔یاپھر دو چار اور اس کے ہم پلہ سراٹھائے کھڑے رہتے۔
اب اسلام آباد کے جنگل،پارک نماسڑکیں،پھلواریاں اورفوارے تیزی سے غائب ہونے لگے ہیں۔سی۔ڈی۔اے خوب صورت زمینیں سرمایہ داروں کو ہتھیارہا ہے۔جب کہ سرمایہ دار تیزی سے خوب صورتی کو ہڑپ کررہا ہے۔اسلام آباد پاکستان کاچہرہ ہے۔اور اس چہرے پر،ہوس زد ہ کنکریٹ اور سیمنٹ کے پہاڑ کھڑے کیے جارہے ہیں۔جس تیزی سے یہ شہر کنکریٹ تلے دبا جارہاہے۔
اگر یہی رفتار رہی تو آٗئندہ کچھ سالوں میں اس کاتمام حسن کنکریٹ تلے آجائے گا۔یہ پاکستان کاواحد شہر ہے جہاں جنگلی حیات دن دیہاڑے اور رات کی مصنوعی روشنیوں میں بے خوف گھومتی ہے۔پہلے آپ کسی بھی سڑک کے درمیان خالی جگہ چن کر درختوں تلے بیٹھ جائیں۔طرح طرح کے پنچھی شہر کی گہماگہمی سے بے نیاز میٹھے سُر بکھیرتے رہتے تھے۔اس بار اپنی فیملی کو لیے اپنے دیرینہ دوست اور ہم زلف ذوہب کلیم اور ان کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد کی سیر کے دوران میں نے پرانے خوب صورت اسلام آباد کو مٹتے دیکھا ۔کنکریٹ کاایک سیلاب اس شہر کو تیزی سے نگلنے کے لیے بڑھ رہاہے۔
بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے اپنی کتا ب”ایک زندگی کافی نہیں“میں لکھا ہے کہ ”یہ شہر ایوب خان نے بسایا تھااور ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس پورے علاقے میں درختوں اور پھول دار جھاڑیوں کے بیج پھینکے گئے تھے۔“ یہ پھلواریاں اور جنگل تیزی سے مٹ رہے ہیں۔دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے پاس لے دے کر یہی شہر ہے۔کیادنیاکی ساتویں ایٹمی طاقت اپنے اس واحد خوب صورت شہر کو بچاپائے گی۔؟؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں