لفظ کے اثرات!
حضرتِ فاطمہ تھکاوٹ کی شکایت لے کر حضورﷺ کے پاس گئیں کہ ایک غلام عنایت کردیا جائے۔ آپ نے اس یقین رکھنے والی جنتی خواتین کی سردار ہستی کو جواباََ ”تسبیحِ فاطمہ” عنایت کی اور اس کے بعد سے یہ امت میں رائج ہوگئی۔۔۔ اس سے ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ کیا ذکر کے جسم پر بھی اثرات ہوتے ہیں؟ کیا اس میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ یہ منظر بدل سکے؟
ہمیں کوئی لطیفہ سناتا ہے ہم ہنستے ہیں۔ کوئی گالی دیتا ہے ہم غصے ہوتے ہیں۔ کوئی دکھی بات کرتا ہے ہم رونے لگتے ہیں۔ کوئی ہمت بندھانے والی کہتا ہے ہمارے جذبے جوان ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہ کیا ہے، کیا لفظ کی طاقت نہیں؟
جدید نفسیات متفق ہے کہ جب کوئی ایک لفظ کو مسلسل دہراتا رہتا ہے تو کچھ عرصے بعد اس کے اثرات اس کی شخصیت کا حصہ بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ مثلاََ جو ہر وقت مایوسی بولے گا وہ مایوس نظر آئے گا، جو امید کی بات بولے گا پرامید رہے گا، جو بیماری بولتا رہے گا بیمار نظر آئے گا۔ یہ ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ ورنہ آپ کِہہ کردیکھیے “میں آج بہت تھکا ہوا ہوں” آپ کے قوٰی مضمحل ہوجائیں گے، جسم پہ تھکاوٹ طاری ہوجائے گی، اعصاب شَل ہوجائیں گے۔ اسی طرح برعکس۔ ایک کیس یہ سننے میں آیا کہ ٹِکر کے طور ایک شخص کے سامنے سے مووی دیکھتے ہوئے مسلسل یہ لائن گزاری گئی کہ میں خود کشی کرنے والا ہوں، ایک سال بعد اس نے خودکشی کرلی۔
طبی سائنسی طور پہ صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ جب لفظ اللہ بولا جاتا ہے تو زبان کی نوک دانتوں سے کچھ اوپر ٹکراتی ہے، اس مقام سے ٹکرانے پر Macano Receptors میکینو ریسپٹرز سرگرم ہوجاتے ہیں اور ان کی ذمہ داری انسان کو سکون پہنچانا ہے۔
ہم وائبریشنز کی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہاں ہر چیز اپنی اپنی لہریں خارج کررہی ہے۔ ہم کسی پرشور جگہ چلے جائیں تو واپس آتے تک نوائس پلوشن کی وجہ سے اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ کسی پرسکون ہِل سٹیشن پہ چھپی ہوئی آبشار بھی شور کرتی ہے لیکن وہاں دل کرتا ہے کہ زندگی یہیں گزار دی جائے۔ پرندوں کے پاس جاکے بیٹھ جائیں تو انسان کا بلڈ پریشر لمحوں میں نارمل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ غرض ہر چیز کے پیچھے وائبریشنز اور وسیع پیمانے پہ کہوں تو انرجی کا ایک جال کام کررہا ہے۔
ایک پروفیشنل انرجی ہیلر ہونے کے ناطے روزانہ اشیا اور مریضوں پر نہ نظر آنے والی انرجی کے نتائج دیکھتا ہوں۔ آئن سٹائن نے 100 سال پہلے ہی کِہہ دیا تھا کہ “آنے والے دور میں دوائیاں لہریں ہوں گی”۔ یہ انرجی کسی بھی مادے کی آخری حقیقت کے طور پر دریافت ہوئی ہے۔ فزکس کے اصول کے مطابق ہم اس کائنات کی 10 لاکھ چیزوں میں سے صرف 5 کو جانتے ہیں یعنی عظیم ترین حقائق ظاہر میں نہیں پردہءِ غیب میں ہیں۔ ہمیں مائکرو ویوو اوون میں کھانا گرم ہوتا تو نظر آتا ہے پر گرم کرنے والی طاقت نظر نہیں آتی۔ ہمیں ایکسرے کی رپورٹ نظر تو آتی ہے پر ایکس ریز نظر نہیں آتیں۔ ہم سی ٹی سکین کروانے جائیں تو آخر کیوں مریض کے باقی ساتھیوں کو کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ہم باتیں کرتے ہیں لیکن الفاظ تیرتے تو نظر نہیں آتے۔
الفاظ بھی لہروں/ انرجی کی صورت ہم تک پہنچتے ہیں اور چوں کہ دنیا کی ہر چیز کی آخری حقیقت یہی ہے اس لیے اس سطح پہ پہنچ کے سب چیزیں گویا ایک جیسی ہوجاتی ہیں۔ مہدی حسن ایک مخصوص فریکوئنسی کے ساتھ سُر لگا کے شیشے کا گلاس توڑ دیا کرتے تھے۔ کچھ راگ ایسے تھے جن کے ذریعے بارش برسائی جاسکتی تھی۔ کچھ راگوں کے ذریعے کئی امراض کا علاج تو آج کا واقعہ ہے۔ تو یہ سب آواز اور الفاظ کی مختلف صورتیں ہیں۔
جب یہ ثابت ہوا کہ ہر لفظ اپنا اثر رکھتا ہے تو یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں رہ جاتی کہ الہٰی الفاظ کو سب سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے جو وہ ہوتے ہیں۔ اب چاہے تسبیح دی جائے/ کاغذ پہ لکھ کے دیے جائیں/ یا دَم کی طرح پھونک ماری جائے وہاں یہ انرجی اپنا کام کررہی ہوتی ہے۔ ہاں کرنے والے کے یقین پر بھی نتائج منحصر ہوتے ہیں اور کروانے والے کا یقین بھی اپنے اثرات رکھتا ہے جس سے نتائج منفی یا مثبت طور پہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر نارمن وینسنٹ پیلے اپنے مریضوں کو ایک کارڈ پہ اس کے مرض کے مطابق کچھ لکھ کے دیا کرتے اور کہتے کہ اسے فرنٹ پاکٹ میں رکھ لو۔ تاکہ خون کی گردش کے ساتھ ان الفاظ کے اثرات پورے جسم میں گردش کریں۔ یہ کامیاب تجربہ خود اس احقر نے بھی کیا اور بہت اچھے نتائج حاصل کیے۔
طریقے اور اقسام
ویسے تو ذکر(یاد) کے حوالے سے خدا نے ہر طرح کی پابندی اٹھا لی ہے، آپ کھڑے بیٹھے لیٹے پاکی ناپاکی کسی بھی حالت میں محبوب کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ پر زیادہ بہتر ہے انسان ہر وقت وضو میں ہو۔ اس کی عادت بنائی جائے۔ اسی طرح وہ اذکار جو معمول میں کیے جاتے ہوں بہتر ہے علیحدہ وقت میں کیے جائیں۔ مزید بہتر ہے کہ خوشبو لگا کے مکمل تیاری کے ساتھ ہوں۔۔۔ لیکن کوشش کے باوجود وقت نہ نکل رہا ہوں تو ایسا کرنا ضروری نہیں۔
جہری ذکر کا مقصد یکسوئی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ انسان ادھر اُدھر کی آوازوں سے متاثر ہوجاتا ہے۔ جب وہ کم از کم اتنی آواز سے ذکر کرتا ہے جتنی اس کے کانوں میں آتی رہے تو وہ دیگر معمولی آوازوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جب اس شور کے باوجود بھی کیفیت اچھی ہونا شروع ہوجائے تو پھر اس کی ضرورت بھی کم ہوجاتی ہے۔ ہاں مجمع میں ذکرِ خفی ہی کو میں مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ریا کا خطرہ بھی کم ہو اور دوسرے تنگ بھی نہ ہوں۔
تسبیح چلاتے وقت اس کے داںوں کو اندر اپنی طرف گرائیں تاکہ ذکر کے اثرات اندر کی طرف اور اچھے انداز میں منتقل ہوں۔ تسبیح بھی اس وقت سب کے سامنے پکڑیں جب تسبیح پکڑنا اور نہ پکڑنا برابر ہوجائے۔ یعنی دل کا اندر انتشار سے بچ جائے اور ریا کا خطرہ جاتا رہے۔ جس عمل پہ دل ریا کا ادنیٰ شائبہ بھی محسوس کرے اسے نہ کریں یا پہلے اصلاح کرلیں۔
مراقبہ کیا، کیوں، کیسے!
مراقبہ یکسو ہونے اور صلاحیت بیدار کرکے بڑھاتے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان اپنی کثافت دور کرنے اور لطافت حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقوں میں سے ایک یہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔ یہ قدیم ترین طریقوں میں سے ہے۔اس میں کسی پرسکون جگہ بیٹھ کے کسی لفظ، جملے، ذات، آیت وغیرہ پر غور کیا جاتا ہے۔ اور ان اثرات کو اپنے میں جذب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس قدر یہ کوشش گہری ہوگی اسی قدر اثرات گہرے طور پہ شخصیت کا حصہ بنیں گے۔
جیسے ایک مراقبہ ”لا الہٰ الااللہ” کا کیا جائے تو ایک طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرلی جائیں اور جب لا الہٰ کہا جائے تو اپنے بچے غائب کردیے جائیں پھر بولا جائے الا اللہ۔۔۔ اسی طرح ہر دفعہ لا الہٰ بولتے وقت ماں باپ غائب، بیوی رشتے دار دوست احباب کاروبار دنیا کائنات سب ایک ایک کرے غائب ہوتے رہیں اور پھر الا اللہ کہا جائے۔۔۔ یعنی اس حقیقت کا شعوری ادراک کرکے ”الفا” کیفیت حاصل کرکے واحد خدائے برحق کو شعوری سطح تک حاکمِ مطلق مان لیا جائے اور ساری رکاوٹیں گرا دی جائیں۔
یوں کرنے سے انسان اپنے اندر کی صفائی اور کردار کی مضبوطی کے لیے تیز ترین ذرائع میں سے ایک اختیار کرتا ہے اور یہ غوروفکر اسے راکٹ کی سی تیزی سے رفعت کی طرف لے جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ دیگر دنیاؤں کے لیے بھی آنکھ اس عمل سے تیز ہوجائے اور کچھ ایسی حقیقتوں کا نظارہ بھی انسان کرلے جو محض آنکھ سے نظر نہیں آتیں. یہ اسی طرح دنیا کے دیگر کاموں میں بھی معاون ہے
دعا کیا، کیوں، کیسے !
کسی بزرگ نے کہا کہ وضو جوانوں کی طرح کرو، نماز بوڑھوں کی طرح پڑھو اور دعا بچوں کی طرح مانگو۔ دیکھا نہیں بچہ رو رو کے سب کچھ منوا لیتا ہے، اسے بس رونا آتا ہے، سب مطلب سمجھا بھی لیتا ہےا ور نکلوا بھی لیتا ہے۔بندہءِ خالص اپنے کام کے آغاز سے پہلے دعا کرتا ہے اور پھر کام کے بعد دعا کرتا ہے۔ دعا ایک پیچ بکس کی صورت میں خالق تک ہماری عرضی پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ دعا مکمل یقین سے مانگو، مانگتے مانگتے نہ تھکو اور پھر خدا پہ چھوڑ دو۔ خدا کے مومنین یہ راز سمجھتے ہیں کہ خدا اپنے عاشق کا صرف بھلا اور خیر ہی چاہ سکتا ہے۔ جس کے سامنے ماضی، حال مستقبل کی کوئی تقسیم نہیں وہ سب تفصیل سمجھتے ہوئے اپنے بندے کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ لہذا خدا کا ولی ہمیشہ شاکر رہتا ہے، اس میں بے چینی عنقا ہوتی ہے، پرسکون۔ وہ ہمیشہ شکر سے خود کو اور اپنے دین کو تروتازہ رکھتا ہے۔ ہر مخلص دل سے نکلی دعا پہلے ہی قبول ہوچکتی ہے۔ جس سے دعا چھین لی جائے اس سے جیسے رضا چھین لی جائے۔دعا خدا کا کھلا راز ہے جسے ہر ایک پاسکتا ہے پر نابینا نہیں۔ غائب میں کی گئی دعا بدرجہءِ اولیٰ عرش تک مار کرتی ہے۔ دعا اپنی عاجزی، انکسار، طاقت اور قوت کا اظہار ہے۔ مجھ سیاہ کار کا گمان ہے کہ مستجاب الدعوات دوسروں کے لیے زیادہ دعائیں مانگتا ہے۔
جدید تعلیم یافتہ افراد اور دعاؤں کا اثر
ہماری جدید تعلیم کا المیہ ہے کہ یہ خام ہے،سطحی ہے، ناقص ہے، کنفیوزڈ ہے۔ اس لیے اس کے کتنے ہی اندھے مقلد جو خود کو ارسطو سے کم سمجھنے کو تیار نہیں ہوتے تشکیک کے میدانوں سے گھاس چرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ذرا سی سنجیدہ محنت کرلی جاتی تو یقین کے بادل چھا جاتے اور شک کے چھٹ جاتے۔ اکثر جب یہ جملہ کہا جاتا ہے کہ “دعاؤں سے صرف کیا ہوتا ہے کچھ عمل کرو” تو اس کا مطلب اندر کی اس بے یقینی کو زبان عطا کرنا ہوتا ہے جو خدا کو بھی معاشرتی/ روایتی/ توہماتی دباؤ کی وجہ سے ڈھلمل طور پہ مانتی ہے۔ حقیقت میں ہمیں خدا کے ہونے کا یقین ہی نہیں (ان شا اللہ اس پہ عقلی/ ساینسی/ روحانی زوایوں سے لکھنے کا ارادہ ہے)۔ یہ جملہ صحیح پر مراد غلط ہوتی ہے۔
گو اس نے عموماَ ایک نظام بنا دیا ہے اور اس کے اصول و ضوابط طے کردیے ہیں لیکن کبھی کبھار وہ اس سے ہٹے کچھ نظارے دنیا والوں کو کروا دیتا ہے، اگر وہ مطلق العنان مالک الملک ہے تو اس کے لیے ذلت سے عزت اور کچھ نہ ہونے سے سب کچھ ہونا نکال دینا چنداں عجیب نہیں۔ تاریخ ہمیں کم از کم دو ایسی مثالیں دکھاتی ہے جہاں محض یقین کے زور پہ مانگی ہوئی دعاؤں ہی سے قوموں کی زندگی کے اجتماعی خطرے ٹل گئے:
1گھمنڈی ابرہہ جب لشکر لے کے مکے کے قریب کعبہ کو ڈھانے پہنچا تو قریش کے سردار عبدالمطلب اس سے ملاقات کو آئے تو شخصی وجاہت نے ابرہہ کو کھڑا ہونے پہ مجبور کردیا۔ اس نے اپنے ساتھ بٹھایا اور آنے کا مقصد دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے فلاں فلاں جانور ہیں، چیزیں ہیں ان کی امان مانگنے آیا ہوں۔ ابرہہ طنزیہ ہنسی ہنسا اور بولا ‘عبدالمطلب میں تو تمہیں بڑا عقلمند آدمی سمجھتا تھا لیکن تم نے بجائے مکہ اور کعبہ بچانے کے مانگا بھی تو کیا؟’۔۔۔ عبد المطلب نے کہا میں اس چیز کی امان مانگنے آیا ہوں جس کا مالک ہوں، کعبہ کا جو مالک ہے اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔ پھر کعبہ کے پردوں کے پاس جاکے دعا کی شہر خالی کردیا۔۔۔۔ تاریخ شاہد ہے ابرہہ عجیب الخلقت پرندوں کے ہاتھوں نامراد ہوا اور اس کا لشکر مارا گیا۔
2۔ تاتاریوں نے دمشق کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ ان کے وحشی پن سے کون ناواقف تھا۔ شہر پناہ بند تھا۔ خوف کا عالم تھا۔ ایسے میں امام عبدالرحمٰن الجزری اپنی دعاؤں کی لافانی کتاب کی تکمیل کررہے تھے۔ ‘حصنِ حصین’ یعنی مظبوط قلعہ، جس میں حضورﷺ اور صحابہ سے متعلق دعاؤں کا ایسا جامع اور مفصل نقشہ سامنے آنا تھا جس نے پوری زندگی کے شب و روز کو لپیٹتے ہوئے قیامت تک امر ہوجانا تھا۔ آپ نے ہدایت کی کہ سب شہر کے لوگ مل کے حصنِ حصین ختم کریں۔ تمام شہر نے خشوع و خضوع کے ساتھ اس ختم میں حصہ لیا۔ صبح ہوئی تو شہرِ پناہ کے محافظوں نے دیکھا کہ تاتاری اپنے خیمے اٹھا کے واپس جاچکے ہیں۔ تاریخ اب تک اس واپسی کی وجہ بتانے سے قاصر ہے۔
یہ حصنِ حصین گابا پبلشر نے خوبصورت کرکے مختصراََ چھاپی ہے جو ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ محض 70 روپے کی۔ اور دعائیں ایسی کہ دل پگھل جائیں اور صبح و شام بندہ خدا کے حضور آجائے اور خدا بندے کی پشت پہ۔
کچھ اذکاراور اثرات
ہم نے جدید نفسیات کے الفاظ کے اثرات پہ متفق ہونے کی بات تو کرلی۔ یہاں ہم دیکھیں گے کہ ذکر کے اثرات کو ٹیسٹ کیسے کیا جاسکتا ہے، تسبیحِ فاطمہ ہی کو لیتے ہیں:
1۔ جیسے ہم سبحان اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ‘اللہ ہی پاک ہے’۔ اس کی تسبیح سے ہمارے شعور اور لاشعور کا حصہ کچھ چیزیں بننی چاہئیں مثلاََ
1۔ اس کائنات میں خدا واحد ہے جس سے غلطی نہیں ہوسکتی
2۔ میں غلط ہوسکتا ہوں کیوں کہ ناقص ہوں لہذا ہر وقت اپنی خامی قبول کرنے کو تیار ہوں
3۔ دوسرے بھی غلط ہوسکتے ہیں کیوں کہ وہ بھی ناقص ہیں، لہذا میں انہیں خامیوں کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہوں اور درگزر کرنے کو بھی۔۔۔ اس کا لازم نتیجہ انسان کو جینا آجائے گا۔
2۔ اللہ اکبر: پہلا نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا ہی سب بڑا اور قوت والا ہے۔۔۔ دوسرا کہ میں ایک فقیر اور چھوٹا آدمی ہوں لہذا تکبر کاہے کا۔۔۔ تیسرا میں آزاد آدمی ہوں کسی کا کوئی ڈر نہیں۔۔۔ چوتھا دوسرے مجھ سے بہتر ہیں۔۔۔اس کا لازم نتیجہ انسان متکبر نہیں رہے گا اور انسانوں سمیت کسی مفاد کا غلام نہیں رہے گا
3۔ الحمد للہ: اول کہ حقیقی تعریف و شکر خدا کا واجب ہے، دوم میں اپنی موجودہ حالت پہ مطمئن ہوں اور ہوس میں نہیں، سوم میں اپنے رب سے خوش ہوں، چہارم میں سب لوگوں سے غیر مشروط طور پہ کوئی شکایت نہیں رکھتا۔۔۔اس کا لازم نتیجہ انسان خوش اور مطمئن ہوجائے گا
اگریہ نتائج حاصل نہیں ہورہے تو دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ذکر میں کہیں کوئی کمی ہے۔ محض تسبیح کے دانے گرا دینا کوئی ذکر نہیں، محض طوطے کی طرح جپ دینا کوئی ذکر نہیں، محض بے سمجھے سر مار مار جھومنا کوئی ذکر نہیں۔
چند دعائیں اور اثرات
ویسے تو آپ کوئی سی بھی دعا صدقِ دل سے مانگیے لیکن اگر مزاج بن جائے تو حضورﷺ کی دعائیں ایسی سوز و گداز والی ہوتی ہیں کہ انسان پگھل کے ایک سانچے میں ڈھل جائے۔ اس جدید دور کی بے برکتی اور نحوست سے انفرادی طور پہ کوئی اگر بچنا چاہتا ہے تو یہ نبوی دعائیں اس کے لیے حصار کا کام دیتی ہیں۔ آئیں چند کے اثرات محسوس کریں۔ میں اپنے معمول کی دعائیہ تسبیحات عرض کرتا ہوں:
1۔ کلمہءِ تقدیر (لا حول ولاقوۃ الا باللہ علی العظیم): موجودہ پریشانیوں، تفکرات، اندیشوں سے نکالنے کے لیے یہ واحد دعا اس قدر موثر ہے کہ انسان اگر سمجھ کے کر لے تو پہلے دانے کے ساتھ ہی ہلکا پھلکا ہونا محسوس کرلیتا ہے۔ اس کا مفہوم ہے کہ خدا میں تیرے قدموں میں پڑا ہوں، نہ میری کوئی طاقت ہے نہ رعب ہے نہ منصوبہ ہے نہ رنگ ہیں۔ میں تیرے در پہ مجھے سنبھال لے۔ نہ میری فکریں اور غم میرے ہیں میں تیرے ساتھ خوش ہوں، سب کا نگران تو ہی ہے۔ میں فارغ ہوتا ہوں تیرے حوالے کرکے، جو مناسب سمجھتا ہے کر۔۔۔ اس کا لازم نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان ڈپریشن فری ہوجاتا ہے
۔ آیتِ کریمہ (لاالہ انت سبحانک انی کنت من الظالمین): یہ ایک اور طاقت ور صدیوں سے آزمائی ہوئی دعا ہے۔ اس کا سادہ مطلب ہے۔
God you are right, I am worng… Sorry۔۔۔۔
حضرتِ یونس نے مچھلی کی پیٹ میں 40 دن اسی آیت کے ذریعے پناہ مانگی تھی۔ کسی بھی مشکل میں اوپر کی آیت کے ساتھ یہ بھی اکسیر ہے۔۔۔ لازم نتیجہ بے غم زندگی، بے فکر لمحات
استغفر اللہ: انسان دن کے آخر پہ اس کی تسبیح کرے۔ پورے دن کو یاد کرتا جائے اور جہاں کوئی ذہنی، عملی کوتاہی ہوئی ہو ڈھونڈھ کے اس سے توبہ کرتا جائے اور کل نہ کرنے کا عزم کرے۔ بعض بزرگ ہر طرح کے مشکل حالات میں تریاق صرف اسی ایک دعا کو سمجھتے ہیں۔۔۔لازم نتیجہ اپنی پچھلی زندگی کا جائزہ اور آیندہ کا یقینی سدھار۔
درود: کوئی سا بھی درود ایک تسبیح کم از کم اس کی کرتا ہوں۔ خود کو حضورﷺ کے قدموں میں بٹھا کے اپنی کوتاہیوں لیکن اخلاص سے کا تحفہ حاضر کرتا ہوں۔۔۔ لازم نتیجہ دنیا و آخرت کے انعامات اور تسکین
اسی طرح بسم اللہ کی تسبیح کرتا ہوں یعنی جہاں خدا کو ہر جگہ شامل کرلیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ہر لمحہ گزرے۔۔۔ آخر پہ صرف دو اور دعائیں، اندازہ کیجیے کہ حضورﷺ کہاں تک نفسیات میں پیوست دعائیں سکھا کے گئے۔ فرمایا: “اللھم انی اسئلک من فجئۃ الخیر واعوذبک من فجعۃ الشر” اے رب میں تجھ سے اچانک حاصل ہونے والی خوشیوں کا سوال کرتا ہوں اور اچانک ملنے والے دھچکوں سے پناہ مانگتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائنس دان کہتے ہیں We know only the relationshiop of things, we dont know the reality of things… یہ اعتراف ہے برٹرینڈرسل کا اور آپ کا نبی کِہ کیا رہا ہے، حیران کن “اللھم ارنی حقائق الاشیا” اے اللہ مجھے چیزوں کی حقیقت دکھا۔۔۔۔۔ تو یہ دعائیں سیکھیں، یاد کریں، حافظے سے گزار کر جذبات کا حصہ بنائیں اور دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھہریں۔۔۔ حصنِ حصین ہر گھر میں ہو میری خواہش بھی ہے اور آپ سب کی ضرورت بھی۔ کوئی سوال رہ گیا ہو تو حاضر ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں