“آئیے مل کر پڑھتے ہیں درودِ پاک، اللھم صلی اللہ”، اُس کے سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ اس کے ذہن میں سوچ آئی کہ یہ سامنے بیٹھا شخص مجھے کتنا بڑا بیوقوف سمجھتا ہے۔ وہ ہنس پڑا یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس صورتحال میں ہے۔ یہ ایک مسکراہٹ تھی، اُس کی کوشش تھی کہ یہ مسکراہٹ سامنے والے کو نظر نہ آئے، مگر صورتحال اتنی عجیب تھی کہ وہ مسکراہٹ چھپا نہ سکا۔ یہ مسکراہٹ اکیلی نہ ابھری تھی، بلکہ اُس کے دل میں اس سامنے بیٹھےشخص کے لیے گالی بھی ابھر کر آئی تھی، بے ساختہ، منہ بھر آتی، بے غیرت۔۔ بلکہ اس سے بھی آگے کی گالی بلکہ گالیاں، شدید نفرت کے ساتھ بھری گالیاں، جو اُس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے والے کے منہ پر دے مارے، متواتر، سٹین گن کے برسٹ کی مانند، مگر وہ چپ رہا۔ وہ گالیاں بکنے والا شخص نہ تھا، گالیاں تو اُس نے اس وقت بھی نہ دیں تھیں جب وہ کیڈٹ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ وہ وقت جب اُس کے آس پاس والے بات بے بات گالیاں دیتے تھے، انگریزی میں اور اردو میں گالیاں، صبح شام گالیاں، وجہ بے وجہ گالیاں، کسی بدیسی تربیت کو اپناتے گالیوں کو بھی تربیت کا حصہ سمجھا گیا تھا۔ انگریزی گالیوں کے مطلب سمجھنے میں اسے ایک عرصہ لگا تھا۔ انگریزی تو الگ اُسے اردو اور پنجابی کی گالیاں بھی کچھ احساس نہ دیتی تھیں۔ یہ دونوں اُس کی زبانیں نہ تھیں۔ مگر آج وہ عجب صورتحال سے دوچار تھا۔ صورتحال عجیب نہ تھی بلکہ بے یقینی کے ساتھ مل کر وحشت ناک بنتی تھی۔
ارشد لون ایک ایسا شخص تھا، جو ملے تو اچھا لگے۔ عمر تیس سال کے لگ بھگ، درمیانہ قد، مناسب ترشی ہوئی داڑھی، بال سلیقے سے بنے ہوئے، لباس صاف ستھرا، زیادہ تر جین کی پینٹ کے اوپر شرٹ اور پیروں میں جوگرز پہنے ہوتا۔ جمعے کے جمعے استری شدہ شلوار قمیص اُس پر جچتی تھی۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک، بات دھیمے لہجے میں ایک مسکراہٹ کے ساتھ کرتا۔ اُس میں کچھ تھا، کچھ اَن کہا، اس کے گرد ایک ہالہ تھا، ایک کشش کا ہالہ، نہ نظر آتا مگر خودبخود محسوس ہوتا۔ مناسب رفتار چال مگر جب وہ کسی بنا پر تیز حرکت کرتا تو دیکھنے والا جان جاتا کہ وہ ایک پھرتیلا شخص ہے۔
انجینئر ارشد لون، الیکٹرونکس انجینئر، غلام اسحاق خان یونیورسٹی کا بہترین گریجوئیٹ، ایف ایس سی بورڈ میں پوزیشن، لنشوپنگ یونیورسٹی سویڈن سے ماسڑز اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچرار۔ آج سے پچیس سال قبل اس کا خاندان سرینگر سے مظفر آباد شفٹ ہوا تھا۔ ارشد کے ذہن میں سرینگر اپنی ڈل یا نگین جھیل کی وجہ سے نہیں یا باغوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت بل کی درگاہ کی وجہ سے زندہ تھا۔ وہ درگاہ جہاں اس نے پہلی دفعہ انسانی ہجوم دیکھا تھا، ہجوم جو اس کی سیکھی ہوئی گنتی سے کہیں زیادہ تھا، نعرے لگاتا، مکے لہراتا، ظلم کی بندوقوں کے سائے میں مکے لہراتا، نوجوان جن کے چہرے خانےدار رومالوں سے چُھپے تھے، وہ رومال جن پر چوکور خانوں کے ڈیزائن چَھپے تھے جو فلسطینی جدوجہد کا نشان ہیں۔ یہ رومال کشمیر میں بھی جدوجہد کے علمبردار تھے۔ ارشد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حضرت بل کی درگاہ پر ایک جنازے کے لیے پہنچا تھا۔ یہ اُس کے بھائی جاوید لون کے دوست کا جنازہ تھا۔ مگر یہ جنازہ عام جنازہ نہ تھا، یہ مٹھی میں انتقام کو لپیٹے، اگلے جنازوں کا رہبر تھا۔ ارشد کے والد ڈاکٹر اقبال نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ چہار سو پھیلی آگ کی تپش انکے گھر تک آئے، وہ سرینگر چھوڑ جائیں۔ مگر جب ایک دفعہ سینے میں آگ لگ جائے تو کدھر بجھتی ہے۔ مظفر آباد آئے تین سال ہوئے تھے اور جاوید ٹریننگ کیمپ میں تھا۔ کشمیر میں کتنے کیمپ تھے؟ کون یہ کیمپ چلارہے تھے؟ کتنے گروپ کام کر رہے تھے؟ یہ جاننا بہت مشکل تھا۔ کشمیر کسی کی رگِ جاں ہو نہ ہو، کئی گروپوں کے لیےسرمایہِ حیات تھا۔ مقتدر حلقوں کے منظورِ نظر، اعلی حکام تک رسائی، پجارو گاڑیاں، کلاشنکوفیں، جوان باڈی گارڈز اور جذباتی نوجوانوں کی کھیپ- یہ تو دین اور دنیا دونوں کی کامیابی کا نسخہ تھی۔ ڈاکٹر اقبال نے جاوید کو سمجھانے اور روکنے کی کوشش کی مگر جوانی کا جوش، انتقام کی آگ، ہتھیاروں کی کشش، غازی یا شہید کا نعرہ، تھرل، ریڑھ کی ہڈی سے گذرتی تھرل، غیریقینی حالات میں موت کے سامنے کھڑ ے ہو کرریڑھ کی ہڈی سے گذرتی تھرل، اس کے مقابلے میں مظفر آباد کی سست، خوابیدہ زندگی جاوید کو کیا دے سکتی تھی۔
چھ ہفتوں کی ٹریننگ؛ پہاڑوں پر بھاگنے دوڑنے کی مشقت، کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کی فائرنگ، جنگل میں چھپنے کی تربیت، بھوکے پیاسے جنگل میں اپنی خوراک کے بندوبست کی ترکیبیں، بارود لگانے کے طریقے، سب بنیادی تربیت کے حصے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے لڑکوں کا ساتھ علیحدہ تھا، بعض جن کی مسیں بھی ابھی نہ پھوٹی تھیں اور بعض جو وقت کو کچھ دیکھ پائے تھے۔ دنیا پور کے قریب کے چک تیرہ سے حسین بخش تھا، جس کا اپنے گاوں سے باہر کی دنیا کا علم صرف مظفر آباد تک کے واحد سفر پر مشتمل تھا۔ غربت کا مارا حسین بخش جب اُس نے کیمپ میں جوگرز پہنے تھے تو یہ اس کا زندگی میں بند جوتے پہننے کا پہلا تجربہ تھا۔ گاوں کی مسجد میں بہاولپور سے مہمان آئے تھے۔ گاوں کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں نے بھی بڑی گاڑی سے اترتے ان مہمانوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ سفید اجلے کپڑے پہنے، صحت مند، پیٹ بھرے، لمبی داڑھیوں والے، دین اور دنیا دونوں سے بہرہ مند، یہ مہمان پورے گاوں کے لیے خوش بختی کے نشان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر جل رہا ہے، پکار رہا ہے، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نکلے۔ گاوں کے مولوی اللہ وسائے نےسترہ سالہ حسین بخش کو دیکھا، ایک کونے میں لے گیا اور بتایا کہ یہی موقع ہے مجاہد بننے گا۔
حسین بخش جو تیسری جماعت میں استادوں کی مار کی وجہ سے سکول سے بھاگا تھا، گاوں میں آوارہ پھرتا تھا۔ تین ہفتوں بعد گھر والوں کو بتائے بغیر وہ چک چھوڑ چکا تھا۔ مولوی اللہ وسائے کے توسط سے لوگ اسے ملتان اور پھر آگے مظفر آباد لے آئے تھے۔ حسین بخش کوعلم نہ تھا کہ تنظیم کو اُس کے اس جہاد کے ایک قدم کے بدلے لاکھ روپے ملے۔ ایک لاکھ سکہ رائج الوقت، دین اور دنیا دونوں کو بہرہ مند کرتا۔
خیر پور میرس کے آدم چانڈیو کی الگ کہانی تھی۔ وہ وریا ڈاکو کے گینگ میں شامل تھا، دریائے سندھ کے کنارے کچے کے جنگل سے نکل کر ڈاکے مارتے اور واپس چھپ جاتے۔ آدم ایک ڈاکے کے بعد فرار ہوتے پکڑا گیا۔ حوالات میں پیشکش آئی کہ آخرت کے لیے ہتھیار اٹھائے، سو وہ بھی کیمپ میں تھا۔ ہتھیار چلانا جانتا تھا، جنگل میں چھپنے اور خوراک کے طریقوں سے واقف تھا، مقابلے کی تھرل جانتا تھا۔ اس کے پاس کہانیاں تھیں، جاوید کو اُس کی کہانیاں اور اردو بڑا مزہ دیتی تھی۔ تربیت کرانے والے کون تھے؟ یقین ہے کہ انکے نام کچھ اور تھے۔ پہلا سبق جاوید نے یہ سیکھا تھا کہ یہ دنیا الگ ناموں کی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ، موقعے اور موسم کے ساتھ بدلتے نام، اگر کبھی پکڑے جاؤ تو نام بتانا پڑ جاتا ہے؛ غلام رسول، محمد یسین، علی حیدر، دلنواز، سب ایک ہی شخص کے نام ہیں، سب عالم تمھارا ہے، تمام نام تمھارے ہیں۔ روس کی افغانستان میں شکست ہوئی تھی، استادوں کے پاس اصل تجربہ تھا۔ اسلحہ بہت تھا، پیسے کرنسیوں میں کھل کر آرہے تھے، امریکی ڈالر، عربی ریال، برطانوی پاؤنڈ سب برس رہے تھے۔
جاوید لون، حسین بخش، آدم چانڈیو، تینوں کی سستی قیمت تھی۔ سستا سودا، نہ ماہانہ تنخواہ، نہ مراعات، مرجائیں تو نہ کوئی واجبات، صرف شہید کا لفظ آخر میں لگنا تھا۔ اگرلاش آجائے تو نمازِ جنازہ پر بغلگیریت اور آخرت میں مراعات کی بشارت، اگر لاش نہ آئے تو گاوں کے باہر مین سڑک پر ایک بورڈ: گاؤں حسین بخش شہید، مقامِ شہادت بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر، عمر ۱۹ سال۔
جاوید لون نے تربیت کے بعد پہلی دفعہ رات کے اندھیرے میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ سرحد پار کی۔ وہ ایک رہبر اور چار مجاہد تھے۔اُن کی راہ سے الگ دوسری جانب فائرنگ شروع ہوگئی تھی اور انہیں اپنا راستہ صاف ملا تھا۔ رہبر ان راہوں کا پرانا راہی تھا۔ ٹارگٹ پہلے سے منتخب تھا، معلومات مکمل تھیں۔ ایک دن کا سفر، پل کو بارود لگا کر اُڑانا اور پھر واپسی کا سفر اس مہم کے حصے تھے۔ اگلے دو سال میں جاوید لون نے بڑا تجربہ حاصل کر لیا تھا۔ اس نے سرحد پار کئی آپریشن کیے۔ مقامی زبان بولنا، جگہوں سے آگاہی، علاقائی لباس سب اُس کی مدد کو آتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال اس کو واپس پڑھائی کی جانب لانے کی کوشش کرتے رہے مگر اب تنظیم میں اُس کی اہمیت بھی زیادہ تھی اور پھر وہ تو اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بھارتی فوج کی ظلم و ستم کی کہانیاں وہ سنتا رہتا تھا۔ انتقام، انتقام، لہو میں بولتا انتقام اس کی رگوں میں دوڑتا تھا۔
اُس رات حسین بخش اور جاوید لون چھ ساتھیوں کے ہمراہ بارہ مولا کے علاقے میں ایک فوجی کانوائے پر حملے کی مہم پر تھے۔ فوجی کانوائے حملوں سے بچاؤ کی تیاری کر کے صرف دن میں چلتے تھے۔ جنگل سے گذرتی سڑک کے ایک موڑ پر جاوید اور اُس کے ساتھیوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور کانوائے کی گھات میں چُھپ کر بیٹھ گئے۔ کانوائے رکاوٹ پر پہنچا تو فوجیوں نےجان لیا کہ حملہ سر پر ہے۔ سپاہیوں نے فوراً اتر کر گاڑیوں کی اوٹ لی اور فائرنگ شروع ہوگئی۔ تین گھنٹے کی لڑائی میں آٹھ فوجی اور دو مجاھد مارے گئے۔ حسین بخش شہید، مقامِ شہادت بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر، عمر ۱۹ سال اور جاوید لون، پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا۔ دونوں کسی گمنام گڑھے کے پیٹ میں اکٹھے دفن کر دیے گئے۔
ڈاکٹر اقبال کو اگلے دن خبر مل گئی۔ لاش نہ تھی مگر تعزیت اور مبارکباد دینے والوں کا ہجوم تھا۔ لوگ صبح سے چلے آرہےتھے۔ غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ تنظیم کے بڑوں کے ہمراہ اور لوگ بھی آئے، کئی ناموں والے غلام رسول، محمد یسین، علی حیدر، دلنواز سب آئے تھے۔ چھ ماہ بعد ڈاکٹر اقبال نے فیصلہ کیا کہ وہ مظفر آباد چھوڑ کرایبٹ آباد منتقل ہورہے ہیں۔ ارشد لون کے ذہن میں یہ سب تازہ تھا، حضرت بل کی درگاہ کے جنازے سے لیکر اپنے بھائی جاوید کے غائبانہ جنازہ تک سب گہرا نقش تھا۔
ڈاکٹر اقبال ارشد کو پڑھائی پر ہی توجہ کی تلقین کرتے۔ دو سال بعد اس نے کیڈٹ کالج کا امتحان پاس کر لیا تو وہ اب بورڈنگ سکول میں تھا۔ آٹھویں کلاس کا بچہ، گالیوں سمیت کئی چیزیں سیکھتا۔ یہ بورڈنگ سکول بھی الگ دنیا ہیں، گھروں سے دور رہتے کمسن لڑکے، اعتماد پاتے، اپنے کام خود کرتے، الصبح اٹھ کر میس میں اکٹھا ناشتہ کرنے جاتے ہوئے اپنے چھوڑے گھروں کی یاد کی پوٹلی ساتھ اٹھائے ایک دستے کی صورت میں لیفٹ رائیٹ لیفٹ مارچ کرتے۔ چھری کانٹے سے ڈبل روٹی کاٹنا سیکھتے، پڑھائی کرتے اور پھر شام کو گراونڈ میں فٹبال، باسکٹ بال اور دوسرے کھیل کھیلتے۔ شام کو دوبارہ پڑھائی اور رات کا میس میں کھانا سب لگی بندھی روٹین کا حصہ تھے۔ سب اچھا بھی نہ تھا، معاشرے کی مختلف سطحوں سے آئے ہوئے بھانت بھانت کےلڑکے اپنے اپنے انداز میں دی جانے والی تربیت سے اثر پذیر تھے۔ سینئر کی بدتمیزی اور جونیئر کی تعبداری گالیوں اور سزا کے ساتھ سکھائی جاتی تھی۔ کبھی کبھار پیسے اور سامان بھی چوری ہوجاتا تھا، لڑکوں کے جنسی دست درازی کے واقعات بھی سننے میں آجاتے تھے۔ ارشد اس ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہوسکا، وہ گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ اُس کے مسلسل اصرار پر سال بعد ڈاکٹر اقبال اُسے واپس ایبٹ آباد لے آئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں