جامعات یا علم کے قبرستان؟۔۔۔گلفام ریاض ہاشمی

I will talk about it later۔
یا اس بات پہ اگلی کلا س میں بات کریں گے۔(جو کبھی نہیں آتی)
یہ اور اس طرح کے دیگر کئی جملے مختلف جامعات میں زیرتعلیم احباب کی سماعتوں سے کبھی کبھی ٹکراتے ہوں گے اور اگر صاحب کی سیاسی بھرتی ہے یا موصوف لیکچر تیار کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں پھر تو کلاس روم کے درودیوار تک ایسے فرمودات کو ازبر کیے ہوتے ہیں۔ ایسی علم شکن صورتحال میں بھی اگر کوئی سوالیہ رانجھا اپنی جوابی لیلی کی تلاش میں صحرانوردی کرتا ہوا نظر آئے تو جہاں اس بیچارے کو برسرِ کلاس طنز کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا ہے وہی اس گستاخی کا خمیازہ اس کو امتحان کے نتیجہ میں بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
اور پھر سوال چنا جواب گندم کے مصداق ایسے ایسے علمی نقط وجود میں آتے ہیں کہ بیچارے سقراط و بقراط کی روحیں تھرتھرا جاتی ہیں۔

“خدا مر گیا” ایک روز کلاس میں زیر بحث سوال یہ تھا کہ نطشے نے ایسا کیوں کہا؟

پروفیسر صاحب اپنی فیصلہ کُن آواز میں یوں گویا ہوئے: نطشے ابھی چھوٹا بچہ تھا اس کا باپ مر گیا اور ماں نے دوسری شادی کر لی۔ نطشے کے دل پہ یہ بات بہت گراں گزری کہ اس کی ماں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ اپنے گھر کی دوسری منزل پہ موجود اپنی ماں سے اس بارے بات کرنے گیا ،لیکن اس کی ماں نے جواب میں اسے لات رسید کی اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا زمین پہ آ رہا۔ بیچارہ نطشے اس تشدد کی تاب نہ لا سکا اور وہ سوچنے لگا کہ اگر آج خدا زندہ ہوتا تو میری ماں میرے ساتھ ایسا نہ کرتی۔ ماں کی ممتا بھی مر گئی اور خدا بھی مر گیا۔

یہ تھی وہ عالمانہ و فاضلانہ توجیح جو نطشے کے مشہورِزمانہ قولGod is dead کے پسِ منظر کے طور پہ ڈاکٹر صاحب کے لبوں سے صادر ہوئی، جس سے نہ صرف فلسفہ کی موت واقع ہوئی ہو گی بلکہ نطشے کی روح کو 440 والٹ کا جھٹکا بھی ضرور لگا ہو گا۔

یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ کاشانۂ علم وفضل پہ ایسے حملے اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ یونیورسٹیز سے منسلک اہل علم نے یقیناً ایسے مشاہدات کیے ہوں گے کہ پروفیسر صاحبان ایسے ایسے علمی نکات بیان کرتے ہیں کہ جنہیں آج تک نہ کسی کان نے سنا, نہ کسی آنکھ نے پڑھا اور نہ ہی کسی دماغ نے ان کے بارے میں سوچا ہو گا۔

خیر میں نے سوچا ہو سکتا ہے ان صاحب کی نطشے سے کوئی رنجش ہو لیکن یہاں تو یک نہ شُد دو شُد۔۔۔ایک دوسرے علامہ صاحب کی کلاس میں مارکسزم پہ بات ہو رہی تھی ایوان کی گرما گرمی میں ہر کوئی اپنے علم کی دھاک بٹھانے میں کوشاں کہ ایک جانب سے ایک فرزانہ محترم اتالیق کی خدمت میں عرض پرداز ہوا کہ عالی جاہ۔۔۔مارکسزم کے پاکستان میں عملی اطلاق کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے۔۔ ؟

ارشاد ہوا: کارل مارکس He was a wonderful guy کمال آدمی تھا۔سارا سارا دن لائبریری میں بیٹھ کے پڑھتا رہتا ،اپنی فیملی کو بھی وقت نہیں دیتا تھا کمال آدمی تھا۔ جواب ختم شد
اور مجال ہے کہ آپ کسی ارشاد سے اختلاف کر سکتے ہوں کیوں کی نطشے کی ماں نے اسے پِیٹا یا نہیں لیکن اختلاف کی صورت میں آپ کی نمبرزدنی یقینی ہے۔ اس لئے ایسے ماحول میں صمٌ بکمٌ کی عملی تفسیر بننے کو یقینی بنائیں بصورت دیگر آپ کا گریڈ ثریا کی بلندیوں سے پاتال کی گہرائیوں میں سجدہ ریز ہو سکتا ہے۔

اور آپ کی خودساختہ زبان بندی اور عقلی شٹرڈاؤن ہی کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اور پھر ایسی ایسی موشگافیاں اور علمی قلابازیاں کہ بندہ سر تو کیا پاؤں پِیٹ کے رہ جائے۔ اکثر پروفیسر صاحبان بطور خاص اس فیلڈ میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ملیں گے کہ جس کی ابجد سے بھی وہ ناواقف ہوں۔ انجینئرنگ والوں کو اسلام کا غم لگا ہو گا ،تو اسلامیات والے سیاست کی گتھیاں سلجھا رہے ہوں گے۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ والے فلسفی بننے کے چکروں میں ہو گے تو کمپیوٹر والے ماہر قانون بننے میں۔ پھر سوچا ہو سکتا ہے میرا محدود تجربہ میری غلط راہنمائی کر رہا ہو اور ملک کی دیگر جامعات میں علم و فضل کے دریا بہہ رہے ہوں۔ تو ملک کی دیگر نامی گرامی جامعات میں طلبِ علم کے لیے کوشاں کچھ دیوانوں سے استفسار کیا تو معلوم ہوا, کیا لاہور تو کیا پشور، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

julia rana solicitors

اب اتنی سے بات پہ طعنہ و تشنیع کا بازار گرم کرنے والوں کی خدمت میں پیشگی عرض کر دوں کہ استاد کی عزت, استاد کا مقام اپنی جگہ بجا لیکن طلباء کی محنت اور پیسے کی  بھی کوئی ویلیو ہے اور جس طرح سے یونیورسٹیز کی فیس ادا اور دیگر اخراجات برداشت کیے جا رہے ہوتے ہیں وہ ایک الگ داستان ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply