ران دو بجے کھلے گی -کراچی(قسط6)۔۔۔محمد مشتاق خان

آج کراچی کی کچھ مزید باتیں ان لوگوں کے لئے ،جو کراچی میں رہتے ہوئے بھی ان باتوں کو نہیں جانتے۔ کراچی کے لوگ بریانی اور نہاری بہت   کھاتے ہیں اور ولائتی مرغی یا بچھیا کے گوشت کو مرغوب مانتے ہیں  کھانے کے لئے۔ جی آج کی تحریر اسی بارے میں ہے کہ کراچی کے لوگ بکرے دنبے یا چھوٹے گوشت کو کھانا پسند نہیں کرتے، لیکن بچی یا بچے کی پیدائش پر فوری طور پر بکرا یا بکری کی قربانی کرتے ہیں ،عقیقہ کی سنت کو پورا کرنے کے لئے۔۔ لیکن عقیقہ کا یہ سارا گوشت رشتہ داروں کو تحفہ کے طور پر بھیج دیتے ہیں اور یہ رشتہ دار اس گوشت کو مزید آگے بھیج دیتے ہیں، یہ سلسلہ گوشت کے کسی فقیر یا اس گھر تک پہنچنے تک جاری رہتا ہے، جس گھر کے کسی فرد کو ڈاکٹر نے بڑا گوشت کھانے سے منع کیا ہوا ہو ،کیونکہ کراچی کے لوگوں کو چھوٹا گوشت کھانا پسند نہیں۔ یہ لوگ بڑا گوشت رغبت سے کھاتے ہیں اور عید قربان پر قربانی بھی گائے یا بیل کی ہی کی  جاتی ہے۔

کراچی کا عسکری پارک(قسط5)۔۔مشتاق خان

بہرحال، گائے اور خاص طور پر بچھیا کی قربانی کرنے کو افضل سمجھا جاتا ہے اور بچھیا کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ بکرے، دنبے، بیل، بھینس یا گائے کی قربانی صرف مجبور لوگ ہی کرتے ہیں اور بچھیا کے گوشت میں سے بھی ران کا گوشت سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ عید قربان کے بعد دو تین ماہ تک تو تقریباً  ہر گھر میں گوشت موجود رہتا ہے اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھی  مرغی کا گوشت پکا لیا جاتا ہے ۔ پھر آخر کار نوبت بازار سے گوشت لانے کی آجاتی ہے۔

پیدائشی کراچی کے ہر مرد کو تو پتہ ہوتا ہے کہ کون سا گوشت لانا ہے حتی کہ کون سی دکان سے لانا ہے۔ لیکن مجھے جب بیگم نے کہا کہ  آج تھوڑا گوشت لانا ہے  بچھیا کا اور ران کا ہی گوشت لانا تو میں پہلی فرصت میں قصائی کی دُکان پرگوشت لینے  جا پہنچا   کہ کہیں ایسا نہ  ہو  کہ اچھے  والا گوشت فروخت   ہوجائے۔ اب صبح کے دس بجے تھے، تین یا چار قصائیوں کی دکانیں ساتھ ساتھ موجود تھیں، سب قصائی ہاتھ پر ہاتھ  دھرے  بیٹھے تھے ،میں نے کہا کہ ایک کلو گوشت دے دو۔ اس نے ایسا گوشت میرے سامنے رکھ دیا جیسے کہ لاہور میں شام کو دکانوں پر بچا کچا گوشت پڑا ہوتا ہے۔

میں نے اس سے کہا کہ بھائی مجھے آپ ران کا ایک کلو گوشت دے دو، اس کا جواب بڑا حیران کن تھا کہ” ران دو بجے کھلے گی”۔

طنزومزاح۔۔ مرزا یاسین بیگ

میں اس جواب کو سمجھنے میں ناکام تھا کیونکہ میں نے اسی دوران ران کو لٹکا ہوا دیکھ لیا تھا۔ لیکن اس دن یہ بھی نئی چیز پتا چلی کہ  کراچی کے قصائیوں کا اصل کاروبار بچھیا کی ران بیچنا ہی ہے باقی کا وقت تو وہ صرف دکان، صفائی ،گپ شپ ،چائے گٹکے کا کوٹا پورا کرنے یا کتے بلیوں کو کھلانے یا بھگانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ قصائی کا سارا زور ران کی اچھی طرح نمائش کا اہتمام کرنے   پر ہوتا ہے۔ اس نمائش میں یہ ثبوت بھی شامل کرنا ہوتا ہے کہ لٹکی ہوئی ران بچھیا کی ہی ہے۔ ۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو کراچی کے اس قانون کا بھی پتہ ہے کے ران صرف دو بجے کھلتی ہے۔ اس سے پہلے کوئی اسلحہ کے زور پر تو ران کھول سکتا ہے  لیکن قصائی اپنی مرضی سے کسی صورت بچھیا کی ران دو بجے سے پہلے نہیں کھولے گا ۔

julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments