حقیقت پسندی۔۔حسان عالمگیر عباسی

سلطان غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ وہ چکی میں پیسنے کا کام کرتا تھا۔ غربت کی لکیر تب پٹتی نظر آئی جب کسی نے ہاتھ کی لکیر دیکھتے ہی آنے والے دنوں میں خوشحالی کی نوید سنائی۔ خوشی خوشی گھر لوٹا اور گھر والوں پہ وہ سب لٹا دیا جو محنت اور لگن سے پائی پائی جوڑ رکھی تھی۔ بھوک سے اکثر نڈھال رہنے والے خاندان کے افراد طویل عرصے بعد ‘گوشت تو گوشت آلو بھی نہ چھوڑے ہم نے’ کا سا رویہ اپناتے ہی پوچھنے لگے کہ اس انتہاؤں کو چھوتی خوشی کے پیچھے آخر کون سے سبز باغات ہیں۔ اس نے جمع پونجی تو اڑا دی لیکن وہ کون سے پنجے آزمانے چلا تھا, گھر والوں کا تجسس بڑھانے کا سبب بن رہا تھا۔ اس نے اس حد تک خوشی کا مظاہرہ اس انداز میں کبھی نہیں کیا تھا لہذا گھر والوں کے تجسس میں اضافہ ہونا  فطری   تھا۔

سلطان ایک ہی بات دہرائے چلا جارہا ا تھا کہ ہاتھ کی لکیر خوشحالی سے جڑی ہے۔ جو روٹی پانی جس چھوٹی موٹی روزی سے منسوب تھا وہ سلسلہ تمام ہو چلا تھا۔ وہ امید کے سہارے گھر کا ہو کے رہ گیا تھا۔ جب رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا گیا اور اب جب غربت سے بڑھ کر افلاس کے اندھیرے بسیرا کرتے گہرے ہونے لگے تو سوچنے لگا کہ حالات پہلے سے بھی بدتر ہو چلے ہیں اور یہ کہ اب تک خوشحالی نے اس کے گھر پہ دستک تک نہیں دی نتیجتاً امید دم توڑنے لگی اور مایوسی چھانے لگی۔

سلطان نے مایوسی کے عالم میں عالم کا کونا کونا چھان مارا لیکن وہ امید دلانے والے اور سبز باغات دکھانے والے شخص کو تلاش کرنے میں نامراد رہا۔ دراصل اس امید دلانے والے کی روزی روٹی ان بے وقوفوں کی اس کے در پہ حاضری سے جڑی تھی۔ حاضرین کی آمد کا تانتا بندھا رہتا تھا کیونکہ ان میں سے بیشتر کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی کہانیاں بازار میں معروف ہو چکی تھیں [حالانکہ وہ لکھی ہوئی حقیقت تھی جو ہو کے رہنی تھی, ہاتھ دیکھنے والے کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا]۔ جس ہاتھ دیکھنے والے کا چولہا لوگوں کو بے وقوف بنانے سے جلتا اور کچن چلتا تھا اس کی باتوں کے  سحر میں آنا سلطان کی بے وقوفی اور ایمان کی کمزوری تھی جس نے اسے   پچھاڑ کے رکھ دیا تھا۔

وہ ان حالات میں گھر اور گھاٹ دونوں سے محروم ہو گیا تھا۔ اطراف سے تنقید کے تیروں نے اس کے اعتماد کو خوب ٹھیس پہنچانے کا کام کیا تھا۔ جو کر سکتا تھا اب نہ کر سکنے کا خوف اس کے اطراف پہ منڈلائے جا رہا تھا۔ ڈیپریشن نے گھیرا تنگ کر دیا تھا۔ رہا سہا اور ذخائر اجڑنے کا غم اسے عوام کا سامنا کرنے میں بڑی رکاوٹ بن چکا تھا۔ ناکامی اور بے وقوف بن جانے کے طعنے اس کا روگ بن گئے تھے۔

حقیقت پسندی کا تقاضا  تھا کہ وہ غربت کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہاتھ پاؤں مارتا لیکن اس کی جیسی تیسی روزی اس امید کی  بھینٹ چڑھ گئی تھی کہ اس کا آنے والا کل محفوظ ہے اور اس کی نسل کا سونے کا چمچ لیے دنیا میں نزول ہوگا۔ من و سلویٰ کی پیشنگوئی کر دی گئی ہے لہذا محنت میں عظمت ہے جیسے قول زریں کو پاؤں کی نوک پہ پھینکتے ہوئے ہاتھ کی لکیر خوشحالی سے جڑی ہے جیسے سبز باغ اور غلط فہمی نے سلطان کو بربادیوں میں جھونک کر دم لیا۔

سلطان اب بھی غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ وہ بے وقوف حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے محنت کرتا اور آگے بڑھتا تو اس کا آج کل سے بہت بہتر ہوتا اور اسے رہنما کی حیثیت سے پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ شاگردوں، اور مقلدین کی جماعت نظر آرہی ہوتی۔ اب جب وہ پیچھے دیکھتا ہے تو اسے سر پکڑنے اور رونے دھونے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ ناکامی کے بوجھ سے ہلکان ذرا ہلکا ہو لیتا ہے۔

یہ ہاتھ دیکھنے والا شخص دراصل اپنے کچن کو چلانے کے لیے بے وقوفوں کا سہارا لیتا تھا۔ وہ بھیس اور جگہ بدلنے والوں میں سے تھا۔ اسے ڈھونڈنا مشکل تھا۔ سلطان اسے تلاش نہیں کر سکا لیکن اسے اک حقیقت سے آشنائی ہو چکی تھی کہ رزق لکھا ہوا ہے اور محنت سے جو ملنا ہوتا ہے مل کے رہتا ہے۔ ایک رات میں بنا محنت کیے جھوٹوں کی امیدوں کا امیدوار بن کر جادو کی چھڑی چلانے سے ‘حقیقت’ بدل ڈالنا محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اسے اندازہ ہوا کہ جہاں اللہ وسعت سے زیادہ ذی روح پہ بوجھ نہیں ڈالتا وہیں ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ سلطان نے رزق کی فراوانی کو صرف خدا کی منظوری اور اپنی محنت کا پھل تصور کرنا شروع کر دیا۔

julia rana solicitors

معاشرے میں اس ہاتھ دیکھنے والے شخص جیسے بہت سے کردار ہوتے ہیں۔ یہ کردار شخص، چیز، رنگ، سوچ، عمل، اور دیگر اشکال میں پائے جاتے ہیں۔ ہماری سوچ ہمیں اپنے ہی خول میں بڑا بنا کر بند کر دیتی ہے۔ حد سے بڑھ کر جھوٹا اعتماد حقیقت کو تسلیم کرنے اور الف، اے یا ایک سے آغاز لینے میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے۔ غرور بسم اللّٰہ سے آغاز لینے والے کے لیے شیطان کا کردار ہے۔ ان کرداروں کو حقیقت پسندانہ رنگ سے رنگنے کی ضرورت ہے۔ انسان کی سوچ عظیم ہونا عیب نہیں ہے لیکن اس سوچ تک پہنچنے کے لیے تجربات کی چکی میں پسنا از حد ضروری ہے۔ عمل اور سوچ کی دنیائیں ٹکراؤ کا شکار ہیں۔ سوچ کہتی ہے کہ سب بہترین ہے یا ہو جائے گا لیکن حقائق بتا رہے ہیں کہ سوچ ہی سرے سے مغالطے میں ہے۔ سب بہترین نہیں ہے اور نہ ہونے کی کوئی صورت باقی ہے۔ دنیا بدلنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ من بدلنا ہے کیونکہ یہ دنیا بدلنے سے زیادہ آسان ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply