ہمارا نوجوان مایوسی کا شکار کیوں ہے؟۔۔افتخار علی خان مغل

نوجوان کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند اہم مقام رکھتے ہیں۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی نوجوان نسل پہ توجہ نہ دے۔

اب بات کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان کیوں بے چینی، غیریقینی، ان دیکھے خوف ایسی دیگر وجوہات کی بناء پہ مایوسی ہیں ، یقیناً اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں درج ہیں:
1- ہمارا گھریلو اور معاشرتی نظام:ہمارے گھروں میں بچوں کی تربیت کرتے اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی ان بچوں کی امیدیں بڑھا کر انہیں غیر حقیقی خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ترقی کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن اس کے لیے حالات، ماحول اور تربیت جیسے وسائل کو ترتیب دینا بھی ضروری ہے۔
2- ہمارے ہاں تعلیم کو روزگار کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ تعلیم تو ایک روشنی ،ایک نور ہے۔ جو آپ کو راستہ دکھاتی ہے۔
3- بچپن سے ہی یہ بات ذہن میں ڈالی جاتی ہے کہ ڈگری حاصل کرنے سے بہترین نوکری ملے گی اور بہترین نوکری ہی ایک کامیاب انسان کی منزل ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ نوکری کو منزل سمجھنے والی قوم اپنی اگلی نسل کو غلامی ہی کے لیے تیار کرتی ہے۔ تعلیم ( یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں خواندہ یعنی پڑھنے لکھنے والے کو ہی تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے) کو اچھی نوکری سے جوڑنا ایک ایسا قدم ہے جو معصوم طالبعلم کی سوچ کا محور ہی بدل دیتا ہے۔
4- تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ، انتہائی ناکارہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہی نظام انتہائی ذہین، انتھک، بہت سی صلاحیتوں کی مالک اور ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا اور مقابلہ کرنے والی قوم کو غلام سوچ دیتے ہوئے پست رکھ سکتا ہے۔
5- ہم نے اکثر سنا اور پڑھا ہو گا کہ تعلیم و تربیت، بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کے نام پہ لکھنا پڑھنا جبکہ تربیت کے نام پہ باغی پن اور مایوسی کا نظام رائج ہے۔
6- جو قومیں ترقی کرتی ہیں ان کے درمیان سب سے قابل احترام شخصیت استاد یعنی معمار ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں استاد کی نوکری حاصل کرنے والوں کی آخری ترجیح ہوتی ہے کہ اگر کوئی نوکری نہیں مل رہی تو یہی کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد بھی استاد کو اپنی نوکری بچانے کے لیے ان پڑھ اور مفاد پرست وڈیروں، چوہدریوں اور سیاسی چمچوں کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے۔
7- ہمارے ہاں بدقسمتی سے کیریئر کونسلنگ کا نظام نہیں ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے میں نوجوانوں کو ان کی قدرتی صلاحیتوں، ذہنی رجحان اور دستیاب وسائل کے مطابق راہنمائی اور کونسلنگ کے لیے ادارے موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں۔ ہمارے ہاں موٹیویشنل سپیکرز تو ہیں ( جو موجودہ دور میں ضرورت سے زیادہ ہوگئے ہیں ) لیکن مدرب ( trainer) بھی چاہیے۔
یہ چند ایک وجوہات بیان کی گئی ہیں جبکہ تفصیل سے بہتر یہ ہے کہ وجوہات کے باوجود ہم عوام کس طرح سے اپنے نوجوان کی بہتر سمت میں راہنمائی کر سکتے ہیں اور اس انسانی وسائل ( Human Resources ) کو معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور قومی ترقی میں لا سکتے ہیں۔

julia rana solicitors london

میری محدود سوچ اور سمجھ کے مطابق ذیل میں دی گئی چند تجاویز ہیں:
1- سب سے پہلے ہمیں روزگار یا نوکری کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی سوچ سے اپنے بچوں کو آزاد کرنا ہو گا۔ یہ کام ہم اپنے گھروں سے شروع کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی اضافی وسائل کی ضرورت نہیں۔
2- اگر تعلیمی ادارے تربیت نہیں دے پارہے تو ہمیں اپنے بچوں کی گھروں میں، اپنے محلوں میں بہتر انداز میں تربیت کرنے کا بیڑہ خود اٹھانا چاہیے۔ اور بہتر تربیت یہی ہے کہ جو ہم اپنے بچوں کو سکھانا چاہ رہے ہیں وہ عمل ہم خود کرنا شروع کردیں۔ ویسے آج کل بہت سا تربیتی مواد انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے لنکس، ویب سائٹس وغیرہ سے بھی مل سکتا ہے۔
3- بچوں کو مطالعہ کرنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ بچے دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کے متعلق پڑھیں۔ بچے کامیاب بزنس پرسنز، بہادر افراد، بہترین لیڈرز، بہترین مفکرین، کامیاب انسان کی صفات اور کامیابی کے پیمانے سے متعلق کتابیں پڑھیں ویڈیو دیکھیں۔
4- اچھی شخصیت کی تربیت کے بعد بچوں کو کاروبار سے متعلق تربیت دی جانی چاہیے۔ ایک قوم جو تعداد میں سب سے کم ہونے کے باوجود دنیا کے تقریباً ہر بڑے کاروبار پہ گرفت رکھتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتے انہیں سیکنڈری لیول کا سرٹیفیکیٹ اس وقت تک نہیں دیتی جب تک وہ کسی کامیاب کاروبار کا ماڈل پلان پیش نہیں کرتا۔ جبکہ ڈگری کی لازم شرط یہ ہے کہ کم از کم ایک ملین ڈالر سالانہ بچت کا قابل عمل منصوبہ پیش نہ کیا جائے اور پھر اسی پلان پہ عمل کر کے نہ دکھائے جبکہ اس کی ابتدائی انویسٹمنٹ بھی یونیورسٹی کی ریکمنڈیشن پہ بلاسود میسر کیا جاتا ہے۔ گو کہ ہم انہیں یہودی کہہ کے مسترد کردیتے ہیں لیکن ان کے پراڈکٹس کو برینڈ نام لے لے کہ فخر سے استعمال کرتے ہیں۔ بہتر ہے ان کے تربیتی ماڈل کو بھی اپنائیں۔
5- ہم عوام کو مل کر بہتر تعلیمی پالیسی بہتر روزگار و تربیت کے مواقع، انسانی وسائل کی ترقی کے اداروں، ہنر اور تربیت کے لیے اداروں کا قیام، کیریئر کونسلنگ کے ادارے، چھوٹے بڑے کاروبار کی مکمل راہنمائی، ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم کے تیار کردہ یوتھ انویسٹمنٹ پروموشن سوسائٹی (YIPS) جیسے ادارے کا قیام جیسے مطالبات کے ساتھ ایک مہم بلکہ تحریک چلاتے حکومت پہ دباؤ ڈالنا ہوگا۔
6- نوجوانوں کو مثبت اور بہتر سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے حکومت پہ دباؤ ڈال کر نوجوانوں کی تربیت کی قومی پالیسی بنوائی جائے۔
اس طرح کے اور بھی اقدامات سوچے جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply