میر جملہ ہیں جناب ، آپ ولی نعمت ہیں
اور میں آپ کی بندہ ہوں، رعایا ہوں ، فقط باج گذار
آپ کے خیل و حشم میں ہوں ، مرے ان داتا
دیکھیے میری طرف ، عالی جاہ
(جیسا کہ آپ کا فرمان ہے، ہاری کے لیے)
آپ کے سامنے شرمندہ کھڑا ہوں، مالک
جوتا منہ میں لیے اور سر کو جھکائے ہوئے میں
تن پہ میرے ؟ نہیں کچھ بھی نہیں، بندہ نواز
اک فقط کُرتا ہے، پاجامہ ہے
پاؤں ننگے ہیں کئی برسوں سے
عمر میری؟۔۔۔۔۔۔ نہیں، ساٹھ نہیں، عالی جاہ
صرف چالیس ہے، اک دو برس شاید کم ہو
نچلے طبقے سے ہوں، اسفل ہوں، فرو مایہ ہوں
پیٹ پچکا ہوا ، مردُود سا سینہ ہے مرا
اس لیے ساٹھ کا لگتا ہوں ضرور ۔۔۔۔۔
بندہ پرور ، فقط اتنی ہی تو ’عرضی‘ ہے مری
اس کٹائی پر مرے پاس نہیں ہے کچھ بھی
بیوی کو فوت ہوئے اب تو کئی برس ہوئے
ایک بیٹی تھی ، جسے آپ کے کارندوں نے
کچھ برس پہلے اُٹھایا تھا مری جھونپڑی سے
میں نہیں جانتا، مر کھپ گئی ہو گی اب تو
اب تو یہ جسم ہے اور ہاتھ میں اک چاقو ہے

لیجیے، یہ ہے مرا پیٹ، یہ آنتیں میری
آپ کے پاؤں پکڑتا ہوا یہ خون مرا
اور چاقو بھی مرے ہاتھ سے لیں۔۔۔
میر ِ جملہ ہیں جناب، آپ ولی نعمت ہیں۔
ــــ۔۔۔۔۔۔۔۔
( ایک ہاری کی خود کشی ایک اجماع میں دیگر ہار یوں اور زمیندار کے سامنے )
ایک خبر۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں