ایک معصوم تخلیقی روح۔۔آغرؔ ندیم سحر

کامران ناشطؔ سے تعلق کو دس سال گزر گئے اور ان دس سالوں میں کئی ایسے موقع آئے جب غمِ روزگار نے مجھے زندگی میں اس قدر الجھا دیا کہ دوستوں سے رابطہ ختم ہو کر رہ گیا۔ایسے میں جن چند لوگوں سے رابطہ بحال رہا اور جو میری خیریت دریافت کرتے رہے‘میرے دکھ سکھ میں شامل رہے‘ان میں ایک میرا دوست کامران ناشط ہے۔جس کی دوستی پر بات کروں تو کتنے صفحے بھر جائیں‘جس کے فن پر بات کروں تو کتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے اور یقینا ً لکھا جانا چاہیے مگر افسوس اس بات پر رہا کہ ہمارے ہاں غیرجنیوئن شعراء کے ساتھ توشامیں اور دن منائے جاتے رہے لیکن ناشط جیسے سنجیدہ‘سچے اور کھرے لکھاری کو ہمیشہ فراموش کیا گیا‘یہی وجہ ہے کہ لاہور میں آج پہلی دفعہ(میرے علم کے مطابق)اس پیارے شاعر کے ساتھ شام کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

کامران ناشط کا مسئلہ شاعروں کی اس بھیڑ اور ہجوم سے بالکل مختلف ہے‘جیسا ہجوم آج ہمیں نظر آ رہا ہے۔ذاتی پروجیکشن‘مشاعروں کی دوڑ دھوپ‘ادبی جھگڑوں سے بالکل دور‘ سوشل میڈیا کی دادسے الگ تھلگ رہنے والا یہ درویش اپنے اندر کتنا بڑا تخلیق کار ہے‘ہم آج تک جان ہی نہیں سکے یا شاید ہمیں مادی زندگی اور ”مادی مشینری“ میں تیار ہونے والے تخلیق کاروں سے کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ کامران ناشطؔ یا اور کتنے ہی ایسے تخلیق کاروں کے فن کو سمجھیں‘جن کا مسئلہ صرف اور صرف شعر ہے۔کسی بھی جینوئن تخلیق کار کو اس بات سے اگرچہ کبھی فرق نہیں پڑا کہ اس پر سرکار بہادر کی نگاہ ہے یا نہیں‘ اسے مشاعروں یاکانفرنسوں کے دعوت نامے ملتے ہیں یا نہیں‘اسی کون سی ملکی و غیر ملکی این جی او سے کتنی عزت و وقار مل رہا ہے یا پھربیرونِ ملک شاگردوں کی تعداد کتنی ہے بلکہ ایسے سچے فن کار کا مسئلہ صرف فن پارہ رہا ہے‘جس میں وہ اپنا خون لگاتا ہے۔

ہمارے ہاں تو قلم کار‘قلم بعد میں پکڑتا ہے‘اپنا قبیلہ یا گینگ پہلے منتخب کر لیتا ہے‘جیسا کہ ہمارے ہاں عمومی طور پر کئی طرح کے تخلیق کار موجود ہیں۔نظریاتی‘سیاسی‘جمالیاتی‘مستوراتی یا وغیرہ وغیرہ۔مگر کامران ناشطؔ نے یہاں بھی اپنا کوئی قبیلہ منتخب نہیں کیا اور میرا خیال ہے کہ اس کے فن کی خوبصورتی بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس قبیلہ اس کا اپنا مزاج اور دل ہے جس میں غمِ جاناں بھی ہے اورغمِ دنیا بھی‘دونوں شرابوں کو ملا کر ایک ایسا نشہ تیار کر رہا ہے جس سے اس کی قریب کی دنیا مستفید ہو رہی ہے‘مطلب اس کے وہ دوست جو اس سے شعر سنتے ہیں اور کئی دن تک انہیں گنگناتے رہتے ہیں۔

آج اکیسویں صدی کی دوسری اور پھر تیسری دہائی میں ہمارے تخلیق کار کے مسائل یقینا ً مختلف ہیں۔ روزی روٹی کے مسائل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ سوشل زندگی کا بھی ہے۔آج کے فن کار کو فن پارہ تخلیق کارنے کے بعد اس بات کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کس اس فن پارے پر اسے کتنے لائکس یا کمنٹس ملے اور پھر ان لائکس یا کمنٹس میں مستورات تعداد کتنی رہی۔اس تعداد یا مجموعی لائکس و کمنٹس سے فن پارے کی عظمت کا معیار جانچا جاتا ہے۔کامران ناشط کا مسئلہ سوشل میڈیا بھی نہیں رہا‘اس کا مسئلہ لائکس اور ڈس لائکس سے کہیں آگے کا ہے جو یقینا ً عام آدمی یا عام قاری کی سمجھ سے باہر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کامران ناشط کی غزلیں نہ تو کبھی ہمیں سوشل میڈیا پر نظر آئیں اور نہ ہی اس درویش آدمی نے کبھی زحمت کی کہ اسے شہرت کے متلاشی اس بے ہنگم ہجوم کا حصہ بننا چاہیے‘جو صبح سے شام تک واہ واہ کی دوڑ میں اپنی عزت و وقار تک داؤ پر لگا بیٹھا۔ آج جب اس تقریب میں آتے ہوئے چند باذوق طالب علموں سے ساتھ آنے کو کہا تو کئی نوجوان نام سے واقف نہیں تھے۔اس میں یقینا ان کا مسئلہ نہیں ہے‘تعلیمی اداروں میں تو وہی شعراء بلائے یا بلوائے جاتے ہیں جو طلبہ کو لو میرج کے نت نئے طریقے اور سیکس کے نئے رجحانات کی تعلیم دیتے ہیں‘جامعات میں ہونے والے زیادہ تر مشاعروں میں شرکت کرنے کے لئے یقینا کامران ناشط جیسی شاعری درکار نہیں بلکہ وہاں آپ کو مجمع لوٹنا ہے‘چاہے ان کی جیبیں لوٹیں یا اداکاری کے جوہر دکھائیں۔کامران ناشطؔ بے چارہ ایک فن کار ٹھہرا‘اداکاری اور ملمع سازی اسے کبھی نہیں آئی۔اسی لیے یہ ان مشاعروں‘اس وقتی شہرت سے دور ہو گیاجس نے کئی غیر جینوئن شاعر راتوں رات جنم دیے اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیے۔

کلاسیکی ذہن رکھنے والا جدید شاعر‘جو نہ صرف کلاسیکی شعری روایت سے پوری طرح شناسا ہے بلکہ اس نے کلاسیکی شاعری سے بھرپور استفادہ بھی کیا۔یہاں یہ بات یاد رکھے جانے کے قابل ہے کہ ہمارے ہیں اس وقت تین طرح کے طبقے موجود ہیں‘ایک وہ طبقہ جنہوں نے کلاسیکی ادب سے استفادہ کرنے کی بجائے کلاسیکی ادب کو ہی نئے رنگ میں ڈھال دیا اور یوں وہ جدید شاعر بن گئے۔دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے کلاسیکی ادب کو پڑھا‘اسے ترجمہ کرنے کی بجائے مضامین چرائے اور جدید شاعر کہلائے جبکہ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جنہوں نے کلاسیکی ادب سے استفادہ کیا مگر خود پر کسی بھی طرح کا الزام نہیں لگنے دیا۔مضامین سے لے کر اسلوب تک اپنی شناخت بنائی‘کم کہا اور اچھا کہا۔مقدار کی بجائے معیار پر نظر رکھی اور یوں وہ عمومی شعری منظر نامے سے الگ ہو کر بھی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔کامران کا شمار تیسری قسم کے لکھنے والوں میں ہوتا ہے جس پر آج یہ الزام تو نہیں کہ وہ کلاسیکی شاعری کے مضامین چراتا ہے۔

شعر کا مسئلہ باقی اصناف سے اس لیے بھی مختلف ہوتا ہے کہ شعر اس وقت تک آپ کو عطا نہیں ہوتا جب تک آپ کا دل بابر کت نہیں ہوتا،میرا دعویٰ ہے کہ شاعری ناپاک دلوں پر نہیں اترتی اور نہ ہی ناپاک دلوں پر اثر کرتی ہے۔آپ اپنے اردگرد دیکھ لیں‘ہزاروں کیا لاکھوں کی تعداد میں لوگ شعر کہہ رہے ہیں مگر کتنے ہی وہ شاعر ہیں جن کا شعر قاری کے دل پر اثر انداز ہوتا ہے‘یقینا ً انگلیوں ہر گنے جا سکتے ہیں۔ایسے شعراء جن کو شعر کہتے صدیاں گزر گئیں‘ایک بھی ایسا شعر نہیں کہہ سکے جسے پڑھ کر کوئی واہ سے آہ تک کا سفر کر سکے۔ایک ایسا شعر نہیں کہہ سکے جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہ شعر اس شاعر کو زندہ رکھے گا مگر یقین جانیں آپ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ کامران ناشط کے ہاں درجنوں شعر ایسے ہیں جو کامران ناشط کا حوالہ بنیں گے‘جو کامران ناشط کو زندہ رکھیں گے اور اسی لیے میں نے پہلے کہا کہ یہ ایک سچا اور کھرا تخلیق کار ہے‘اس کا دل اندر اور باہر سے صاف ہے‘نہ ادبی منافقت کا حصہ بنتا ہے اور نہ پرجیکشن کی لڑائی میں مارا جائے گا بلکہ یہ شعر کہے گا اور اس کا شعر اسے آسمان کی وسعتیں عطا کرے گا اور یوں اگر شعر کہتے مر بھی گیا تو امر ہو جائے گا۔خدا سے کامران ناشط کی علمی‘ادبی اور طبعی عمر میں برکت پیدا کرے۔آمین

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ:اکادمی ادبیات پاکستان اور ادارہ خیال و فن کے زیر اہتمام ”کامران ناشطؔ“کے اعزاز میں سجائی گئی شام میں یہ مضمون پڑھا گیا،تقریب کی صدارت نامور محقق و نقاد پروفیسر ڈاکٹر سلیم سہیل نے فرمائی)۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply