“کبھی آپ کے سامنے آپ کی اولاد کی کٹی پھٹی لاش سامنے پڑی دیکھی ہے؟” ایک غراتی ہوئی نسوانی آواز نے میرے پیر جکڑ لئے۔ مجھے اپنے دفتر سے نکل کر گھر جانا تھا۔ آج میرے چار سالہ اکلوتے بیٹے کی سالگرہ تھی۔جس نے بڑے لاڈ سے اپنی سالگرہ میکڈونلڈ میں منانے کی فرمائش کی تھی۔
میں بیس سال سے ایک حساس ادارے کے ساتھ بطور تفتیش کار کام کررہا تھا۔ روز مار دھاڑ، گرفتاریاں، ٹارچر، مجرموں کی گھگھیاتے لہجوں کا عادی بلکہ بیزار ہو چُکا تھا۔ بم دھماکوں میں کٹی پھٹی لاشیں دیکھ دیکھ کر اب تو اتنا بے حس ہو چُکا تھا۔کہ اگر میرے سامنے کوئی کسی کا گلا بھی کاٹ رہا ہوتا، تو رحم اور ترس جیسے احساسات بالکل بھی نہیں جاگتے۔
اس نسوانی آواز نے جیسے میرے پیر جکڑ لئے۔ اُس سپاٹ لہجے میں کچھ ایسا تھا,کہ میرے جیسا سرد مزاج اور جذبات سے عاری شخص بھی ایک لمحے کو ٹھٹک کے رُک گیا۔
میں نے سامنے ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ولایت کریم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے جلدی سے اُٹھ کر مؤدبانہ لہجے میں گویا ہوا۔
“سر وہی پشتون عورت ہے جو وزیرستان آرمی کیمپ میں بارود لے جاتے ہوئے پکڑی گئی تھی۔ صاحااب اسی کی تفتیش کررہے ہیں”۔
میں نے آہستگی سے دروازہ کھولا اور اندر کمرے میں جھانکا۔ توصیف صاحب نے مُجھے دیکھا،تو اثبات میں سر ہلا کر اندر آنے کی اجازت دے دی۔ خاتون کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ چہرے مُہرے سے پچاس سال کی لگ بھگ تھی۔ بار بار دوپٹہ جو جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا،سر سے سرک رہا تھا۔ وہ بے چین ہوجاتی تو پیچھے کھڑی خاتون اہلکار اس کے سر پر دوپٹہ صحیح کر دیتی۔
“اچھا یہ بتاو تم کو اتنا بارود کس نے دیا تھا”۔ توصیف نے نرم لہجے میں اس سے پوچھا۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہی۔ “کسی نے نہیں”۔ اس خاتون نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ توصیف نے مدد طلب نظروں سے مُجھے دیکھا۔ میں آہستگی سے آگے بڑھا۔ اور خاتون کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کھنکار کر اپنا گلہ صاف کیا اور خالص قبائلی لہجے میں اس کو سلام کیا۔ اس نے چونک کر سر اِدھر اُدھر گُھمایا۔ جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو۔ کہ ان اجنبیوں کے بیچ کوئی اپنا کیسے سامنے آگیا۔ میں نے دوستانہ لہجے میں اس سے خیر خیریت پوچھی۔کہ اُس کو کوئی تکلیف تو نہیں دی گئی ہے،کسی نے ہاتھ تو نہیں اُٹھایا۔ مگر میری یہ باتیں اُس کیلئے بے معنی تھیں۔ بالآخر بیس منٹ کے بعد میں اپنے مطلب کی بات پر آگیا۔ “آپ میری ماں کی جگہ ہو”۔ لفظ ماں پر اس کے ہونٹ کپکپا گئے۔ میں اس کے چہرے کے تاثرات پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے میں نرم لہجے میں کہنے لگا “مجھے آپ کو اس صورتحال میں دیکھ کر افسوس ہورہا ہے۔مگر مجھے آپ سے یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے۔کہ اتنا بارود لیکر آپ کتنی تباہی مچانے والی تھیں۔ کتنے فوجی مر جاتے کتنی سُہاگنیں بیوہ ہوجاتیں اور کتنے بچے یتیم ہوجاتے۔۔۔۔۔ کبھی سوچا آپ نے؟”۔ میری گفتگو کے بیچ میں وہ اچانک چیخ کر بول پڑی “تم نے تو مجھے گرفتار کرلیا۔ سینکڑوں بچے یتیم ہونے سے بچ گئے۔ بیویاں بیوہ ہونے سے بچ گئیں۔ مگر میں کس کو پکڑ کر پوچھوں؟”۔ میں نے توصیف کو دیکھا وہ پُرسکون ہوگیا جیسے اس کو بہت بڑی کامیابی ملی ہو۔ “اچھا یہ بتاو اتنا انتہائی قدم کیوں اٹھایا۔ کیا فوجی آپریشن میں آپ کا کوئی اپنا مرا ہے جس کا انتقام آپ فوج سے لینا چاہ رہی ہیں؟”۔ میں نے اس کے دل و دماغ پر آخری وار کر ہی ڈالا۔ وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح پہلو بدل کر رہ گئی۔ “میرا کون مرا ہے کوئی بھی نہیں۔ میرے بچے کے باپ کو مار دیا گیا۔ کیونکہ افغان جہاد میں وہ آپ ہی کا کارندہ تھا۔ آپ نے اس کو مجاہد بناکر روس سے لڑنے بھیجا۔ اس کو “مجاہد” کا خطاب دے کر واپس اپنے علاقے میں قابل عزت بناکر بھیجا۔ ۔۔ تب تک،جب تک آپ کے امریکہ بہادر ی ترجیحات نہیں بدلیں”۔ اس کے لہجے میں نفرت تھی۔ انیس سال قبل آپ نے میرے شوہر کو دہشت گرد کہہ کر بم سے اُڑایا”۔ اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی۔ میں کہانی کے انجام تک پہنچ گیا تھا،کہ روایتی انتقام کی کارستانی ہے۔نہ اس عورت کے پیچھے کوئی بیرونی طاقت تھی نہ ہی وہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھی۔ “میں دو سال کے بیٹے کو بے سروسامانی کی حالت میں کراچی لے گئی۔ اپنے بچے کو یہ تک نہییں بتایا کہ اس کے باپ کو کس نے مارا ہے”۔ وہ ہانپ رہی تھی جیسے میلوں کا فاصلہ دوڑ کر طے کیا ہو۔ میں نے قریب تپائی پر رکھے جگ سے پانی گلاس میں اُنڈیلا۔ خاتون اہلکار دوڑ کر مجھ سے گلاس لینے آئی۔میں نے سر کے اشارے سے اُس کو منع کردیا۔ اور گلاس قیدی کو تھما دیا۔”ماں جی یہ لیں پانی پی لیں”۔ اس نے بند آنکھوں سے میری آواز کی سمت دیکھا۔ اور لڑکھڑاتی آواز میں کہنے لگی۔ “خدا پاک کا واسطہ ہے مجھے ماں مت بلایا کرو”۔ یہ کہتے وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں نے گلاس بڑھا کر اس کے ہونٹوں سے لگانے کی کوشش کی تو اس نے گلاس کو ہاتھ سے جھٹک کر دور پھینک دیا۔ پیچھے کھڑی خاتون اہلکار غصے میں آگے بڑھی اس نے جیسے ہی اُسے مارنے کو اپنا ہاتھ اُوپر اٹھایا۔ میں نے دھاڑ کر اس کو منع کردیا۔ “خبردار اگر ماں جی کو کسی نے ہاتھ بھی لگایا”۔میری اس حرکت پر سب مجھے حیرانگی سے دیکھنے لگے۔ مجھے خود پر حیرت ہورہی تھی کہ میں اتنا جذباتی کیوں ہورہا ہوں۔ وہ بوڑھی عورت بھی خاموش ہوگئی۔ کمرے میں گہرا سکوت طاری ہوگیا۔کہ اچانک وہ بول پڑی۔ “کراچی کے بنگلوں میں دن رات مزدوری کرکے میں نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں پڑھایا۔تاکہ وہ آپ کی طرح افسر بن سکے۔ غربت میں ہماری زندگی پرسکون گزر رہی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ یہاں نوکری کرے اس کی شادی کرا دوں دوبارہ وہ وزیرستان کی شکل بھی نہ دیکھے۔ پھر ایک دن۔” یہاں پہنچتے پہنچتے وہ ایکدم خاموش ہوگئی۔ میں انتظار کرنے لگا۔ کہ کب وہ دوبارہ بولنے لگتی ہے۔ “نمروز خان کو کسی نے بتایا کہ وزیرستان میں امن آگیا ہے جن لوگوں کی املاک تباہ ہوچکی ہیں،وہ واپس آئیں اور حکومت سے معاوضہ لے لیں”۔ بوڑھی ماں پھر کانپنے لگی۔ میں نے اس بار گلاس دوبارہ اس کی ہونٹوں سے لگا لیا۔ وہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی ۔پتہ نہیں کب سے پیاسی تھی۔ “اس رات میری اور نمروز کی لڑائی ہوئی۔کیونکہ وہ گاوں جاکر اپنے گھر کا معاوضہ لینا چاہ رہا تھا تاکہ وہ اپنی یونیورسٹی کی باقی ماندہ پڑھائی مکمل کرسکے۔ مگر میں اس کو جانے نہیں دے رہی تھی۔ اگلی صبح ہم دونوں اس بات پر راضی ہوگئے کہ میں بھی ساتھ جاؤں گی”۔ ماں جی پھر سےہانپنے لگی۔ “اچھا ماں جی یہ بتائیں کھانا کھایا ہے؟”۔ میں نے ماں جی سے اچانک غیر متوقع سوال پوچھا۔ اس نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا “نہیں بیٹا اب کچھ کھانے کو دل ہی نہیں کرتا”۔ ماں جی کے بےتاثر لہجے سے میں لرز اُٹھا۔۔
“ہم یہاں آگئے۔ کاش نہیں آتے۔ ایک دن میں خیمے میں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی کہ ایک شور مچ گیا۔ ۔۔ شور کی آواز سن کر میں باہر گئی، تو نمروز کی لاش۔۔ ماں جی پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئی۔کرسی سے جیسے ہی گرنے لگی۔ جلدی سے آگے بڑھ کر میں نے ان کو تھام لیا۔ جیسے ہی میں نے اس بوڑھی عورت کو تھاما وہ میرےگلے لگ کر رونے لگی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے پہلی بار اُسے کوئی اپنا ملا ہوں۔ “بیٹا اس کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے گولیاں ماری گئیں کہ وہ دہشت گرد تھا۔ میں اس کی لاش لے گئی بڑے افسروں کے پاس۔کہ میرا بیٹا کراچی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہے آپ لوگوں نے ناحق اس کو مارا ہے۔ میں نے فوج کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا مگر نتیجے میں مجھے ذلت ملی کیونکہ میں صرف یہی چاہتی تھی کہ وہ اس بات کو مان لیں کہ میرا نمروز خان دہشت گرد نہیں تھا۔۔۔ مگر وہ اپنے افسران اور ماتحتوں کو بچانے پر کمربستہ تھے۔۔۔ پھر ایک دن میں نےکسی سے یہ بارود لیا کہ ان کو دیکھا دوں کہ دہشت گرد کی ماں کیسی ہوتی ہے۔۔مگر ناتجربہ کار تھی ناں”۔
اس بوڑھی عورت کو واپس ان کے سیل میں بھجوا کر توصیف صاحاب نے ہنستے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ “شکریہ یار تیری وجہ سے ممکن ہوا ورنہ پچھلے ایک ماہ سے سارے گُر ناکام ہوگئے تھے۔اور آج پتہ چلا کہ یہ تو ذاتی ری ایکشن تھا”۔ میں نے سردمہری سے توصیف صاحب کو دیکھا “یہ ذاتی فعل نہیں تھا منظم جرم تھا۔ ادارے کو اس پر ایکشن لینا ہوگا ورنہ روز آپ سرحد پار دشمنوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کہیں اپنوں کے ہاتھ ختم نہ ہوجائیں”۔ میں تیزی سے توصیف صاحب کے کمرے سے باہر نکل آیا۔
اس شام بیگم بہت خوش تھی۔ بچے کو سالگرہ کی رنگین ٹوپی پہنا کر وہ فخر سے اپنے بیٹے کو دیکھنے میں محو تھی۔ اچانک میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔ “یہ بھی آپ کی طرح ایک دن قابل فخر آفیسر بنے گا”۔ اُس کی آنکھوں میں ان گنت خواب سجے ہوئے تھے۔ میں نے پیار سے اپنے بیٹے کو گود میں اٹھایا۔ اپنے سینے سے بھینچا۔ مجھے وہ بوڑھی عورت یاد آگئی۔ اور جواب دیا،
“نہیں شہلہ میرا بیٹا فوجی نہیں ایک ادیب بنے گا۔ تاکہ انصاف بندوق سے نہیں قلم سے کرے”۔
میں نے بیٹے کے ماتھے پر بوسہ دیا اور جیب میں پڑے اپنے استعفٰی کے لفافے کو تھپتھپا کر گویا آخری فیصلہ کرلیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں