چلے آئیےآج موسیقی پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں ۔عموماًاس موضوع پر بات کرنے سے ایک ڈر سا لگا رہتا ہے کیونکہ موسیقی سے مراد ہمارے معاشرے میں بس گانے بجانے کو سمجھا جاتا ہے اور جس کو ہمارے معاشرے حرام قراردیا جاتا ہے ۔اور اگر ہم اس حرام چیز پر گفتگو کریں گے تو کیا معلوم کب فر کا فتویٰ لگ جائے۔
مگر ایک بات سمجھنے کی بہت ضروری ہے کہ اصل میں موسیقی ہے کیا ؟
میرے نظریےکے مطابق موسیقی ان کیفیات ،احساسات کا نام ہے جو شاید شاعر لکھتے وقت محسوس نہیں کر پاتا مگر اس کو سننےوالا محسوس کرتا ہے ۔میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ موسیقی کے بغیر اس زندگی کا مزہ ہی ادھورا ہے ۔انسان جو چیز موسیقی سےمحسوس کر سکتا ہے وہ عام زندگی میں محسوس کرنا بہت مشکل ہے ۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ “روح کی غذا موسیقی ہے “
ہزار باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ انسان نثر کو پڑھ کر سمجھ نہیں پاتا مگر شاعر اپنی شاعری اور موسیقی سے وہ بات چند لفظوں میں سمجھا دیتا ہے۔
اب ہر بندے کا موسیقی میں ایک خاص ذوق ہوتا ہے ۔کچھ لوگوں کو صوفیانہ کلام بہت پسند ہوتا ہے کچھ کو قوالیاں بہت پسند ہوتی ہیں کچھ کو پنجابی یا انگریزی موسیقی بہت پسند ہوتی ہے ۔مگر میرا ماننا یہ ہے کہ جو انسان جس طرح کی موسیقی پسند کرتا ہے اس کی زندگی پر اس موسیقی کا ایک گہرا اثر ہوتا ہے ۔موسیقی بھی انسان کی شخصیت نکھارنے میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے ۔اب اس بات پر اختلاف کرنا ایک نہایت ہی احمقانہ عمل ہو گا کہ فلاں شخص صوفیانہ کلام نہیں سنتا یا پھر فلاں انگریزی گانے نہیں سنتا ۔
جن لوگوں کو صو فیانہ کلام بہت پسند ہوتا ہے وہ جب عابدہ پروین،بابا بلھے شاہ کا کلام سنتے ہیں تو ان کے اندر ایک لہر سی دوڑ پڑتی ہے ۔وہ جب ایک ایک فقرے پر غور کرتے ہیں تو ان کے سامنے شاعروں کے لکھے ہوئے کلام میں پوشیدہ باریکیوں کو سمجھناشروع کرتے ہیں تو اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے ۔قوالی کا شوق رکھنے والے جب نصرت کو سنتے ہیں تو وہ خود کو ایک الگ ہی دنیا میں محسوس کرتے ہیں ۔جہاں پر وہ اس دنیا کی پریشانیوں اور بے چینیوں سے دور سکون سا محسوس کرتے ہیں ۔دراصل موسیقی ہےہی اس چیز کا نام جس میں انسان ایک الگ ہی دنیا میں چلا جاتا ہے ۔اسے اس دنیا کی پرواہ نہیں رہتی ۔اور موسیقی جب شاعر کی تخلیق سے ملاپ کرتی ہے تو کلام کا ہر مصرع ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے خاص میرے لیےہی لکھا گیا ہو۔
اسی طرح کا معاملہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو دوسری قسم کی موسیقی کو پسند کرتے ہیں ۔ ان کے لیے ان کےاحساسات ان کے جذبات کو سینچنے کے لیے وہ اس موسیقی کا سہارا لیتے ہیں ۔

بلاشبہ آج کی موسیقی میں فحاشی وغیرہ عام ہوتی جا رہی ہے مگر اختیار تو ہمارے پاس ہی ہے اور ہماری ترجیحات بھی ہمارے قابومیں ہیں کہ ہم فحاشی کو پسند کرتے ہیں یا پھر ایک اچھی موسیقی کو ۔تو کفر اور حرام کی رٹ کو چھوڑ کر چیزوں کو صحیح معنوں میں پرکھنے کی روش کو اختیار کریں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں