میری نانی کو اللہ جنت نصیب کرے۔ نئی نسل،نئی پود پر اُس نے ہمیشہ لعن و طعن کی۔ کہتی تھیں کہ آج کل کے سارے کے سارے لونڈے اتنے خبیث ہیں،کہ بزرگوں کے سامنے آکر کھڑے ہوجائیں گے شادی کی خواہش لئے۔۔۔۔ایک ہمارا وقت تھا کہ نکاح کے بعد پتہ چلتا تھا۔کہ ایجاب و قبول بڑے بھائی جان شمشیر خان کے ساتھ ہوا ہے۔ اور یہ منحوس مارا “بھائی جان” لفظ کہنے کی عادت دو چار بچوں کے بعد ہی چُھوٹ پاتی تھی۔اور ایک یہ نگوڑے بیغیرت ہیں۔کہ سیدھا جا کے ماں باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجائیں گے،کہ گُل مینے سے شادی کرنی ہے ورنہ زہر کھا لوں گا۔ آنکھوں میں شرم و حیا ہی نہیں رہی اب۔۔
ہمارے شوہر کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ غیرت مند انسان تھے۔ مجال ہے پچاس سالہ ازدواجی زندگی میں کبھی خود سے پانی کا کٹورا تک اُٹھایا ہو۔ دو بیویوں کو غلام کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا رکھتا تھا۔ اِدھر منہ سے آواز نکلی،اُدھر دو دو پانی کے کٹورے لے کر ہم حاضر ہوجاتیں۔آج کل کے شوہر تیرے جیسے بے غیرت ہیں۔کہ ادھر بیوی حاملہ ہوئی نہیں،کہ یہ خُسرے بھی بھاری پیروں سے چلنا شروع کردیتے ہیں۔جیسے حمل اِن کو ٹھہر گیا ہو۔آہ اوئی کے ڈرامے وہ میسنیاں کرتی ہیں۔اور زردی ان مادر کے چہروں پہ پھیلنے لگتی ہے۔
جب کہ ہم نے تو ادھر بچہ جنا۔اور گھنٹہ بھر بعد جھاڑو لے کر صحن صاف کرنا شروع کردیتے۔ پڑوسی آکر پوچھتے،کہ بچہ کون سی والی کا ہوا ہے،کہ مُبارک باد دے دیں اُس کو ۔ شام کو سرتاج کام مزدروی سے آتے تو اُن کو پتہ چلتا کہ باوا بن گئے ہیں۔
مرد ایسے ہوتے ہیں جیسے نانا تھے تمھارے۔ ہم دونوں بیویوں کے ساتھ انصاف سے چلنے والے۔ اگر ایک کو کسی غلطی پر مار پڑجاتی تو دوسری کو مار پڑنا لازمی بن جاتا،کہ انصاف کا تقاضا یہی تھا۔ ہم دونوں سوتنیں آپس میں سہیلیوں کی طرح رہتی تھیں۔ حاجی صاحب نے ہمیشہ ایک ہی کمرے میں سُلایا،اور دونوں کو ایک ہی وقت میں بُھگتایا۔کیونکہ انصاف کے تقاضے پُورے کرنے لازمی ہوتے۔تم جیسے ظالموں کی طرح نہیں،کہ ایک بیوی کے تو تلوے چاٹو اور دوسری آہیں بھر بھر کر خُون تھوکتے مر جائے۔۔۔۔۔۔”۔
انصاف کے تقاضے پُورے کرنے والی بات پر میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے نانی کو دیکھا کہ “نانی اس کا مطلب کہ گروپ سیکس کی لعنت و لُغت انگریز و انگریزی ادب کی دریافت نہیں۔بلکہ ہمارے اسلاف کی طرح یہاں بھی جیت ہماری ہی رہی ہے الحمداللہ”۔
نانی میری بات نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے بہادر نانا کی شان میں قصیدے کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے بولتیں۔ “وہ آج کل کے مردوں کی طرح نہیں تھے جو ایک ہی بیوی کے نمٹانے کو فیس بک پر سلاجیت اور شہد میں جوانی ڈھونڈتا پھرے۔بلکہ اُس کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ دو بیویوں پہ ٹرخا کے زیادتی کی ہے والدین نے اُس کے ساتھ۔ہمارا وقت بھی کیا وقت تھا۔مرد کی اجارہ داری تھی۔ ہر بات ہر کام سکُون سے ہوجاتا۔نہ کوئی نخرے نہ ہی اضافی خرچ ۔ایک یہ وقت ہے کہ تین فٹ کی منخنی،مریل سی لڑکی۔اور اُس انگل جتنی لونڈی کے لئے آٹھ فٹ کا پلنگ ،نرم فوم اور چاروں طرف پھول بکھیرو،تاکہ سُہاگ رات منائی جائے۔اُوپر سے اُن کے دس دس نخرے مزید برداشت کرو۔آج کل کی لڑکیاں دیکھتی ہوں،تو عورت ذات پر شرم آتی ہے۔کہ ان کی ماؤں نے ان کو کوکھ سے نہیں معدے سے جنما ہے۔کھانسی آئی،بلغم تھوکا تو دیکھا بچہ جن لیا ہے۔ لڑکی تو وہ ہوتی ہے جو من من کے کولہے اور کلو کے حساب سے سینے رکھتی ہو۔ لیکن آج کل کی بیویاں؟(یہ کہہ کر نانی اُنگلی ناک پر رکھ کر جیسے ناگواری کا اظہار کردیتیں۔)تم جیسے بے غیرتوں کی وجہ سے ان کے پیر زمین پر نہیں ٹِکتے۔ میں تو کہوں اس سے بہتر ہے کہ کسی لونڈے کو بیاہ کر لے آؤ۔ کم از کم باہر کے کام تو کرلیا کرے گا۔یہ کیا مرد نے بیوی کا سُکھ پانے کو اپنے لئے گھر میں بھی ایک مرد ہی بٹھایا ہوتا ہے،جس کا نہ سینہ نہ ہی کُولہے۔ایک ہمارا وقت تھا کہ بڑا سا کمرہ ہوتا تھا۔ جس میں ساس سسر، دیور، شوہر بیوی اور جانور سب اکھٹے سوتے اور رہتے۔اور جیسے تیسے کرکے اپنی اپنی چارپائیوں کی حدود میں ایک دوسرے کو بُھگتا،نمٹا بھی لیتے۔ایسے حالات بھی پیدا ہوجاتے کہ میاں رات کو صُحبت کیلئے بیوی کے پاس آتے ہوئے غلطی سے ماں کی چارپائی کے پاس رک جاتا۔ تو گالی سمیت آواز آتی،”اوے منحوسا میں ہوں تیری ماں،جا بےغیرت تیسری والی چارپائی پکڑ۔۔۔۔”
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں