مجھ کو قلم، فرہاد کو تیشہ ، رانجھے کو کشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا انمول دیا
سیپ سیپ سے پوچھ پوچھ کر ، ہم نے آپ کو ڈھونڈا تھا
آپ نے تو ، اے موتیوں والے، ہم کو خاک میں رول دیا
سوچ کی میری شریانوں میں زہر بھر گیا اُس دن سے
جس دن میں نے سچ میں جھوٹ کاپہلا بتاشہ گھول دیا
حسن کے “کھُل سِم سِم ” کے عمل سے ہم کو توکچھ غرض نہ تھی
پھر بھی عشق کے جادو گر نے اس زنبیل کو کھول دیا
میرا میٹھا گیت سنو گے؟ ہم نے تو اتنا پوچھا تھا
اس کے جواب میں آپ نے، قبلہ، کیسا کڑوا بول دیا
ہم نے سوچا “تُلا دان” میں سونا دان کریں گے، پر
تول ترازو میں منشی نے جسم ہمارا تول دیا

تاج، عصا، تسبیح، عمامہ پہنے ہوئےتھے آپ آنندؔ
کس نے سب کچھ آپ سے لے کر اک خستہ کشکول دیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں