لاسکیلا ، لاسٹ سپر اور وایا دانتے کی سیر
o ہوپ آن ہوپ آف پر چڑھنااُترنا اور شہر کو دیکھنا کیا مزے کا
کام تھا۔
o لاسٹ سپر لیونارڈوونچی کا وہ شاہکار ہے جس پرآرٹ ہمیشہ ناز کرتارہے گا۔
o میلان اور روم کے شہریوں کی نوک جھونک کے قصّے کچھ ایسے ہی تھے جیسے ہمارے ہاں کراچی اور لاہور والوں کے ہیں۔
صبح وہی کل والی روٹین دہرائی گئی تھی اس کی تفصیل بھی مزے دار ہے۔پھر کِسی وقت سناؤں گی۔ بس آج میں پلیٹ فارم پر میلان جانے کیلئے اکیلی کھڑی تھی۔ٹکٹ کا مرحلہ بڑا گنجل دار تھا یا پھر میری بھس بھری کھوپڑی میں نہ گھستا تھا۔اقبال نے ہی مدد کی۔ٹکٹ ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اُسے گھر بھیج دیا تھا۔
آج ثنا سے پڑھے ہوئے سبق Hop on Hop off کو عملی صورت دینی تھی۔میلانو کو دورنو کی عمارت سے باہر آکر دو پولیس والوں کو پکڑا کہ مجھے سارے شہر کی سُرخ بس میں بیٹھ کر سیر کرنی ہے۔گائیڈ کریں کدھر جاؤں؟انہوں نے نیچے جانے اور ATM سے رابطہ کرنے کا کہا۔
”ارے نیچے تو میڑو اسٹیشن ہے۔“
میں بوکھلائی۔انگریزی ماشاء اللہ انکی بھی ایک نمبری اور سمجھنے کی رفتارمیری بھی پوری پوری۔ تو ایسی صورت میں ابہام تو رہتا ہی ہے۔
اب ان کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اور لوگوں سے پوچھنے نکل پڑی۔دونوں نے میری اِس کوشش کو دیکھا اور منہ پھیر لیا۔یقینا دل میں کہا ہوگا۔
”وہمی بڈھی جا پرے مر۔“
دو لڑکیاں کھڑی پمفلٹ بانٹ رہی تھیں۔یہی بات اُن سے جاکر کی۔ایسی پیاری اور محبت والیاں۔ایک نے کام چھوڑا اور میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے گئی۔سامنے ہی ایک آفس کی پیشانی پر ATM لکھا دیکھ کر لڑکی نے بتایا یہاں آپ کو ہر طرح کی راہنمائی مل جائے گی۔ATMدراصل میلان پبلک ٹرانسٹ سسٹم کا مخفف ہے۔لڑکی مجھے انکے حوالے کرکے خود چلی گئی۔
سیاحوں سے بھرئے ہوئے آفس میں اب میری یا وہ گوئیاں شروع ہوگئیں۔وہی ڈبل ڈیکر Hop on Hop Offکی تکرار۔انہوں نے قریبی بک شاپ کا راستہ دکھا دیا۔چلو شکر اُن کے پاس سے بیس20یورو کا ٹکٹ ملا۔ساتھ ہی ہدایت نامہ کہ میٹرو سے صرف ایک اسٹیشن ہے۔
ہائے ٹکٹ لینے کا جانگسل سا مرحلہ۔چلو باہر نکل کر دیکھوں تو سہی۔پیدل کتنا چلنا پڑے گا؟دو تین سے پوچھا۔ کوئی دو فرلانگ کا فاصلہ تھا۔
”تو مولا اس مفت کی فٹیک سے تو جان جاتی ہے۔اب تو ہی اس اللّی بلّلی کا والی وارث ہے۔“
ابھی کوئی بیس قدم چلی ہوں گی۔سامنے سڑک تھی۔بسیں،گاڑیاں رکی کھڑی تھیں کہ پیدل چلنے والوں نے سڑک کراس کرنی تھی۔دفعتاً جیسے مجھے احساس ہوا کہ سامنے کھڑی سرخ رنگ کی بس ہوپ آن اور ہوپ آف ہے۔
میں نے فوراً ٹکٹ نکال کر عین سڑک کے درمیان کھڑے ہوکر گاڑی کے ڈرائیور کے سامنے لہرایا اور اُسے ملتجی انداز میں اشارہ کیا کہ وہ دروازہ کھول کر مجھے بٹھالے۔
پل جھپکتے میں اشارہ ہوا۔ میں نے تیز تیز چلتے ہوئے اسکے کھلے دروازے میں انٹری دیتے ہوئے ڈرائیور اور گائیڈ لڑکی کو چار بارگراشے گراشے Graize(شکریہ)کہا۔
ٍ کنڈیکٹرلڑکی نے میرا ٹکٹ لیا۔چیک کرنے کے بعد بروشر میرے حوالے کرتے ہوئے مجھے سمجھایا۔اِس ہوپ آن اور ہوپ آف کے مخصوص بس سٹاپوں سے شناسائی کروائی۔میرے اندر کی خواہش ایکا ایکی میرے لبوں پر آگئی۔
”میری پیار ی بچی مجھے Last Supper دیکھنا ہے۔ چرچ پر اُتار دیں۔“
بس اسی روٹ پر تھی۔ تھوڑی دیر بعد چرچ کے سامنے سٹاپ پر اُتری۔ میں نے چند لمحے رُک کر سٹاپ کی صورت اور ڈیزائن کو ذہن نشین کیا۔اگلا پل صراط ٹکٹ کے حصول کا تھا۔مجھے ڈر تھا کہ کہیں کل والی خاتون بیٹھی ہوئی توبس سمجھو پکا انکار۔
دن بڑا بھاگوان تھا۔حلیم الطبع سے مرد کو جب مسئلہ بتایا۔عاجزانہ سی درخواست کی کہ میں تو ونچی کے اِس شاہکار کو دیکھے بغیر اٹلی سے جانا نہیں چاہتی۔
اُس نے بغور مجھے دیکھا۔چند لمحے دیکھتا رہا۔پھر انتظار کیلئے کہا۔
یہ حیرت انگیز بات تھی مجھے نہیں معلوم یہ سب کیسے ہوا؟بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔مہینوں پہلے اس کی بکنگ ہوجاتی ہے۔گنجائش کیسے نکلی؟مجھے نہیں معلوم۔ ٹکٹ ملا۔آٹھ یورو کا جسمیں گائیڈ کے پیسے بھی شامل تھے۔شُکر تھا کہ میں نے زبان بند رکھی کہ یہاں آڈیو گائیڈ سے مطلب آڈیو سسٹم تھا ایرفون والا۔
اگر اُن لمحوں کے اپنے جذبات کا تجزیہ کروں۔مجھے احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں اس وقت ایک عجیب سے ٹرانس میں جکڑی کھڑی تھی۔ماحول فسوں خیزی کی سی کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا۔سمے کی نبضیں سیکنڈوں اور منٹوں کے حصار میں گردش کررہی تھیں۔
بند ایر کنڈیشن کمروں میں خاموشی ہے۔جہاں خدمت گار کی آواز آپکے گروپ کو دئیے گئے وقت کے مطابق پکارتی ہے۔آگے کا دروازہ کھلتا ہے۔عقبی دروازہ بند ہوتا ہے۔دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کے سلسلے آگاہی کے عمل سے گزارتے ہیں۔
ونچی کا یہ دیواری نقش گری کا شاہکار آرٹ اپنے چونکا دینے والے تعارف کے ساتھ اٹلی کے زرخیز اور سنہرے دور میں وجود میں آیا۔ایک مذہبی واقعے کو جسطرح آرٹسٹ کی نظر نے دیکھا،اُسے محسوس کیا۔یہ اس کا حقیقی ترجمان ہے۔اسے آرٹ کی پوری دنیا میں جس طرح سراہا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ایک مستطیل سفید کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میرے دل کی دھڑکن کا حال بے حد عجیب سا تھا۔سامنے وہ شاہکار آویزاں تھا۔ کچھ اس انداز میں کہ اگر اپنے حواسوں پر بندہ قابو نہ پائے تو لگتا ہے کہ سیدھا تصویر کے اندر جاگرے گا۔ رنگوں اور جذبات و احساسات کا نمائندہ۔
1498 میں اپنی تکمیل کے کوئی چھ سال بعد ہی اسمیں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی تھی۔دوسری جنگ عظیم میں چرچ پر بمباری ہوئی مگر دیوار کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔
میں سنتی تھی یہ ایک معجزہ ہے۔آواز میں گھمبیرتا اور سکون ہے۔ مجھے اپنے ہاں کے لوگ یاد آئے تھے جو مساجد اور قرآن پاک سے متعلق معجزوں کی روئیدادبڑے ہی جذباتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔آواز اور لہجے کے جوش بیان میں علم کی دانشمندی کا فقدان نظرآتا ہے۔بات تو ساری اندر کے عقیدوں کے رولے غولے کی ہی ہے۔ بس ذرا طریقے سلیقے کا تڑکا لگنے سے کہیں زیبائی بڑھ جاتی ہے اور کہیں نہ لگنے سے جھٹکا پن نمایاں ہو جاتا ہے۔
یہ کھانے کا کمرہ تھا۔تاحدّ نظر خود کو نمایاں کرتا۔میز کے گرد تیرہ لوگ بیٹھے ہیں۔حضرت عیسیٰ کے حا لی موالی۔چھ ایک طرف اور چھ دوسری طرف۔درمیان میں وہ خود تشریف رکھتے ہیں۔میز پر کھانے کی چیزیں،گلاس اورپلیٹیں دھری ہیں۔
پینٹنگ دراصل اُن لمحوں کی تفسیر ہے جب حضرت عیسیٰ یاس بھرے لہجے میں اسکا اظہار کرتے ہیں کہ”ہم میں سے ایک ہے جو مجھ سے غداری کرنے والا ہے۔“
کہہ لیجئیے یہ شاہکار اِسی کا عکاس ہے۔انکے چہروں پر بکھرے تاثرات،انکے ہاتھوں سے لیکر پاؤں اور وجود کی حرکات میں حیرت،تعجب،دُکھ، بے چینی،اضطراب جیسے انسانی جذبات کے ردّعمل کاجو اظہار ہے اسکی اس درجہ خوبصورت عکاسی ونچی کا عظیم کارنامہ ہے۔
کہا جاتا ہے جب اُس نے اسے عملی صورت دینے کا سوچا تو وہ سالوں میلان کے گلی کوچوں میں اِن بارہ حوالیوں کی شکلوں سے مشابہہ چہروں کی تلاش میں خوار ہوتا رہا۔جوڈسJudasکو ہی تلاشنے میں تین سال لگائے۔
پندرہ منٹ اِس تصویر کیلئے۔اِسے تو گھنٹوں دیکھوتو دل نہ بھرے والی بات تھی۔یہ انسانی نفسیات کی نمائندگی کرتا ایسا تحفہ ہے جسے نہ دیکھنا بڑی محرومی تھی۔Judas کو جس انداز میں پوٹریٹ کیا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال ہے۔زندگی اور اس کے رنگوں سے بھرا ہوا شاہکار۔
بالمقابل دارکشی کی پینٹنگ بھی تھی۔اس پر نظریں ڈالیں ضرور۔سراہا بھی۔مگر میری آنکھوں میں Last Supper کیلئے ابھی بھی پیاس تھی۔
اب باہر بینچ پر بیٹھی گھونٹ گھونٹ دودھ پیتے کبھی لوگوں پر نگاہیں ڈالتے اور کبھی نقشے کو دیکھتے سوچوں کی گھمن گھیریوں میں تھی کہ آگے کیا دیکھنا ہے؟
قریب بیٹھے تین کینیڈین کا ٹولہ شاید لیونا رڈونچی کا میوزیم دیکھنے جارہا تھا۔انہیں بس سٹاپ کی طرف جاتے دیکھ کر انہی کے پیچھے ہولی۔ایسی اوندھی اور عقل سے کوری۔ بکری کے پیچھے پیچھے چلتے اسکے لیلے کی طرح۔
سرخ بس آئی تو انکے ساتھ چڑھ گئی۔جہاں اُترے اُتر گئی۔لائن میں لگ کر آٹھ یورو کا ٹکٹ بھی لے لیا۔پر اندر جاکر تین چار ہالوں نے ہی کوفت اور بیزاری کے سے جذبات پیدا کردئیے۔یوں یہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء کا نمائندہ میوزیم ہے جسے اٹلی کی حکومت نے اپنے مایہ ناز بیٹے کے نام کیا ہے۔
اِس میوزیم کا ایک حصّہ ونچی کی ایجادات کی نمائش کیلئے بھی مخصوص ہے۔اُس کے ہال اور چیزوں کی نمائش سب کی پیش کش کا انداز خوبصورت اور منفرد سا ہے۔مگر یہاں اس کے شاہکاروں جومیٹرجیMetaurgy،فزکس،navigationاورآلات موسیقی وغیرہ سے متعلق تھے۔بھلا اِن کی مجھ جیسی کوڑھ مغز کو کیا سمجھ آنی تھی جو اس فیلڈ کا بندہ ہی نہیں تھی۔اِس لئیے جلدہی باہر نکل آئی تھی۔
اور اب بیٹھی سوچتی تھی کہ پندرھویں صدی کی وسطی دہائی میں پیدا ہونے والے اس فطین شخص کے بارے میں سمجھ نہیں آتی ہے کہ وہ آخر شے کیا تھا؟فطین انسان کے کمال کی بھی چند ایک جہتیں ہوتی ہیں جن میں وہ اُن کی معراج کو پہنچتا ہے۔یہاں تو آرٹ اور سائنس کی جس شاخ کو دیکھو وہ اس کی چوٹی پر بیٹھا ہوا تھا۔
وہیں بیٹھے بیٹھے نقشے کو کھولا ضرور۔مگراگلا آیٹم “لیونارڈو کا گھوڑا”دیکھنے سے انکاری ہوگئی۔
”بس بھئی بس بہت خراج تحسین پیش کردیا ہے میں نے۔ونچی کے علاوہ بہت کچھ اور بھی ہے میلان میں۔“
نقشہ مجھے Monumental Cemetery کا بتا رہا ہے۔میں نے اس پر بھی خط تنسیخ پھیرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔
”مجھے اس یادگاری قبرستان دیکھنے بھی ہر گز ہرگز نہیں جانا۔میں جانتی ہوں اِن مہذب اور سلیقہ مند قوموں کے قبرستانوں کا بھی دیکھنے سے تعلق ہے۔پھول پتوں کی رنگینیوں،حُسنِ ترتیب،ذوق جمالیات اور فنکارانہ آرٹ سے سجے یہ اپنی جگہ شاہکار نظرآتے ہیں۔مگر مجھے پھر بھی وہاں نہیں جانا۔“
”سچی بات ہے میں تو وہموں کی پُھٹی ہوئی عورت ہوں۔اِن دنوں تو یوں بھی اوپر والے کی جان نہیں چھوڑتی ہوں۔وہ بھی کہتا ہوگا۔کِس مصیبت کو اپنی زمین دیکھنے بُلالیا۔جٹ جپھا ڈال لیا ہے مجھے تو۔ چاہتی ہے ہمہ وقت اِسی کے ساتھ رہوں اور تو کوئی کام نہیں نا مجھے۔اتنا ویلا سُتا (فالتو)سمجھتی ہے یہ مجھے۔“
”تو بس بھئی میلان کے ڈاؤن ٹاؤن چلتی ہوں۔میلان کا مرکز، حد درجہ حسین،اسکی تاریخ و تہذیب سے لدا پھندا۔اسکی گلیوں میں نکلتی ہوں اور خوب خوب سیر سپاٹاکرتی ہوں۔“
توجب بس سے اُتری تو ڈومو کا وہ بھریا میلہ اپنی رعنائیوں سے گویا جگمگاسا رہا تھا۔گلیریاGalleria کی سہ منزلہ عمارات کے رنگ و روپ اور حسن کو دیکھتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔
”اف کتنی فنکاری کا غازہ انکے منہ ماتھوں پر تھپا ہوا ہے۔ہائے پہلے تو نظر ہی نہیں آیا تھا مجھے۔“
سیاہ آ ہنی جنگلوں میں گھری کُھلی بالکونیوں کا حُسن دیکھتی اُسے سراہتی اور یہ سوچتی اور افسوس کرتی کہ فضول لیونارڈو سائنس میوزیم پر آٹھ یورو ضائع کئیے۔ہائے اس آٹھ یورو سے میں گلیریا کے اِن شاندارریسٹورنٹوں میں سے کسی ایک کے اندر جاکر کچھ دیکھتی، کچھ کھاتی۔چلو ضائع ہی کرتی پر کچھ مزہ تو لیتی۔
اب چلتے چلتے دفعتاً نگاہ نیچے فرش پر پڑتی ہے تو رُک جاتی ہوں۔ہائے یہ فرش ہیں کہ جیسے مختلف ڈیزائنوں کے رنگوں بھرے قالین بچھے ہوں۔محرابی دروازوں کے بالائی ستونوں کی منبت کاری کتنی حسین ہے کہ واری صدقے ہونے کو جی چاہتا ہے۔اُف گلیریا تو تعمیراتی فن کا شاہکار ہے۔دُکانیں ہیں کہ کروڑوں چھوڑ اربوں کی مالیت کا سامان سمیٹے ہوئے ہیں۔ہائے مجھ جیسی کو تو اندر جاتے ہوئے بھی ڈر سا لگتا ہے۔
اب چلتی جارہی ہوں اور آگے کھلے گلیارے سے باہر نکلتی ہوں تو سانس رک جاتی ہے۔اُف ایسا خوبصورت منظر شاندار عمارتوں سے گھرامیدان۔ایک جانب اونچے سے پیڈسٹل پرکھڑا یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا وہی محبوب جینئس لیونارڈوونچی اپنی لمبی داڑھی،لمبے چوغے اور اپنا ہائیڈرو انجنیرنگ ہیٹ پہنے وجود میں اپنے علم کی بے پایاں وسعتوں کو حلم اور عاجزی سے سمیٹے آنکھیں جھکائے،ہاتھ ناف پر باندھے گویا جیسے اِس خوبصورت لاسکالا اوپیرا ہاؤس کو تعظیم دیتا ہو۔کمال کی بات ہی تھی ناکہ اُس نے میلان کے نہری سسٹم کو لاک ز Locks کے تحت کیا۔اس سسٹم نے 1920 تک بڑی کامیابی سے کام کیا۔
نیچے اس کے چار نوجوان شاگر د مختلف سمتوں میں کھڑے ہیں۔مشتاقانِ دید کا ایک ہجوم اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تصویر کشی اور کہیں ایک دوپوڈیم کے نیچے لکھی گئی تحریروں کو پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
”اللہ اِس لاسکالا La Scala میدان کی کیا بات۔کیسے اسکی گلیاں ایک دوسرے کی بغل میں گُھسی اندر ہی اندر جاتی جارہی ہیں۔اِن میں ان کی خوبصورت عمارتوں کے بلندوبالا سلسلے کتنے دلفریب نظر آتے ہیں؟یہ عمارتیں کبھی محل تھیں۔جو اب کہیں آرٹ گیلریاں ہیں اور کہیں میوزیم ہیں۔
اب بُھو ک ستا رہی تھی۔ویجی ٹیبل پیزا لیا۔کوک کا ٹن لیا۔چھوٹی چھوٹی بائٹ لیتے اور گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے میں اِدھر اُدھر کے منظروں سے مسرتیں کشید کررہی تھی۔
اور جب دھوپ زیتونی رنگی ہوتے ہوتے بلندوبالا عمارتوں کے بنریروں پر ٹکنے لگی۔تب تک میں نے چلتے چلتے میلان کے اس ڈاؤن ٹاؤن کی دائیں بائیں مڑتی گلیوں اور ان کے دہانوں سے پھوٹتے مختلف سکوائرز دیکھ لئیے تھے۔
سمے کی اِن ساعتوں میں بھی بڑی فسوں خیزی ہوتی کہ انہیں دیکھ کر ایسا ہی لگتا تھا جیسے آپ کسی ٹہنی کے سرے پر خوش رنگ سا کھلا پھول دیکھ رہے ہوں۔وہیں بیٹھ جاتی۔میلان کی تاریخی کہانیاں سنتی۔پیازہ ڈیلا سکالا Piazza Della Scala میں جابجا صفورزہSforza خاندان کی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں جب وہ میلان پر حکومت کرتا تھا اور ونچی انکی خواہشوں پر شہر کو خوبصورت ترین بنانے میں اُنکا معاون تھا۔
لاسکیلاLascala کی پروقار عمارتوں کا کوئی حُسن تھا۔نظریں ایک پر ٹکتیں تو وہاں سے ہٹانا دوبھر ہوجاتا۔یہیں دنیا کا وہ مشہور اوپیرا ہاؤس ہے جسے بلاشبہ میلان کا لینڈ مارک کہاجاسکتا ہے۔
La Scala Opera Houseاگست میں بند تھا۔پیٹرز برگ رُوس میں اوپیرا دیکھاتھا۔دوبارہ دیکھنے کی حسرت تھی۔اب بندہ خود کو کوستا ہی ہے ناکہ جب انٹرنیٹ کے ساتھ جڑتا نہیں تو پھر یہی کچھ ہونا ہے۔یہاں میوزیم بھی ہے۔دیکھنے کی تحریک نہیں ہوئی کہ کچھ لوگوں کو تبصرے کرتے سُن لیا تھاکہ بس ایویں ساہی ہے۔بعد میں کسی اور بھی سے پتہ چلا تھا کہ نامی گرامی فنکاروں کے ذاتی استعمال کی بس چیزیں ہیں۔کسی کا ہیٹ،کسی کی عینکیں،کِسی کے آلات موسیقی۔
اور اب میں پیازہ ڈل ڈومہ کے کھیتڈرل کی سیڑھیوں پر بیٹھی ابھی ابھی میکڈونلڈ سے خریدی گئی آئس کریم چاٹتے ہوئے کتنی مسرور سی ہوں۔بیٹی سے گھر بات ہوئی ہے۔سب بچے بمعہ اپنے بچوں کے خیر خیریت سے ہیں۔اندر تک اطمینان اور سرور کی لہر سی دوڑ گئی ہے۔آنکھیں اوپر اٹھا کر نیلی چھت والے کا شکریہ بھی ادا کردیا ہے۔بھلا زندگی کے ایسے خوشگوار ترین لمحات اُس کی عنایت ہی ہیں نا۔کہ جب آپ اپنی پسندیدہ جگہ پر بھی ہوں اور سکون و طمانیت کی لہریں بھی اندر موجزن ہوں۔
تو شام اب بنیروں پر بیٹھی ہے۔سامنے فرش پر کبوتروں کی مست خرامیاں جاری ہیں۔دلبروں کے رنگ ڈھنگ بھی شام کا حُسن بڑھا رہے ہیں۔ہمیں ایسی چاہتیں نصیب نہ ہوئیں تو بھئی دوسروں کو دیکھ کر جلیں کڑھیں کیوں؟خوش ہورہے ہیں۔
تبھی ایک خاندان میرے قریب آکر بیٹھ گیا ہے۔پاکستانی نژاد اٹلی میں عرصہ پچیس سال سے مقیم۔بیوی،بیٹا،بیٹی،شوہر عزیز احمد بڑا گالڑی قسم کا بندہ۔پل نہیں لگا تھا کہ یوں گُھل مل کر باتیں کرنے لگا جیسے میں تو اسکی سگی آپا، اُس کے ماں باپ کی پہلوٹھی کی اولاد ہوں۔تاہم تھا تیز بندہ۔ گرم سرد زمانے اور حالات کا چشیدہ، نظر میں وسعت تھی اور دماغی طور پر بہت تیز۔روم کے قریب اوسٹیاOstia میں کافی سال رہا۔پھر میلان چلا آیاکہ یہاں کاروباری مواقع زیادہ تھے۔کوشش اور جدوجہد کی کہانی تھا وہ۔ تعلیمی طور پر بھی آگے بڑھا اور ہنر مندی میں بھی اپنا سکہ جمایا۔گاڑی،گھر،ذاتی کاروبار بڑے سُکھ میں تھا۔
میلان تو اسکی پوروں پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کا کونسا گلی کوچہ تھا جس سے وہ ناواقف تھا۔
اُس نے فوراً پوچھا۔
”وایا دانتے Vaya Dante سٹریٹ نہیں گئیں۔“ میرے انکار پر بولا۔
”تو یہاں بیٹھی کیا کررہی ہیں؟وہاں جائیے۔“مجھے اس کے انداز تخاطب پر تھوڑا سا غصہ آیا۔تنک کر بولی۔
”میں کھیر تتی تتی کھانے کی عادی نہیں۔ٹھنڈی کرکے مزے مزے سے کھاتی ہوں۔میلان کا مرکزی حصّہ ٹھوٹھی میں جمی کھیر جیسا ہے۔“
بڑا ہنسا۔تیز آدمی تھاسمجھ گیا تھا کہ مجھے بُرا لگا ہے۔فوراً وضاحت کرنے لگا۔
”بھئی کیا بات ہے اُس کی۔شام کے خوبصورت لمحوں میں جب وہاں اکارڈین بجتا ہے۔بائیک کی گھوں گھوں فضاؤں میں گونجتی ہیں۔قدیم کرداروں کے کاسٹیوم پہنے گھومتے پھرتے کردار آپ کے ساتھ تصویریں اترواتے ہیں۔بہت مزہ آتا ہے سچی وہاں جاکر۔“
”ابھی تو میں کافی دن ہوں یہاں۔کل روم کیلئے ٹکٹ لینا ہے تو اِسے بھی دیکھنے جاؤں گی۔“
بہرحال بندہ دلچسپ تھا۔اُس نے تو میلانیوں اور رومیوں کے وہ مزیدار قصے سُنائے۔شمال اور جنوبی سمت کے علاقوں کے اپنے اپنے ورثے کی بڑائی اور تفاخر کی داستانیں۔روم اور میلان کی آپس کی مقابلے بازیاں۔ بڑی ٹسل رہتی ہے میلان اور روم میں۔”ارئے بھئی ویسی ہی ناجیسی ہمارے ملک میں کراچی اور لاہور والوں کی ہے۔
ساتھ ساتھ اسکی رننگ کمنیٹری نے گویا سماں باندھ دیا تھا۔
”کراچی والوں کو لاہوری پینڈو اور لاہور پنڈ لگتا ہے۔بس یہی حال اِن میلانیوں کا ہے۔روم والے تو انہیں نری سُستی کی پنڈیں،اور زمانے بھر کے کاہل نظرآتے ہیں۔وہ تو منہ پھاڑ کر کہتے ہیں۔ کام کے نہ کاج کے،دشمن اناج کے۔حکومتی نوکریاں کرتے ہیں اور مزے لوٹتے ہیں۔ایک تو کام کیلئے مخصوص گھنٹے اسمیں بھی ان کی ڈنڈیاں۔
ابھی دفتروں میں آکر بیٹھے ہیں کہ وقفہ آگیا ہے۔بندہ پوچھتا ہے۔ بھئی کاہے کا؟ جی کافی بریک ہے۔اب کیا ہے؟یہ لنچ بریک ہے۔اب ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ ہورہی ہے۔دوستوں،محبوباؤں،کبھی عزیزوں اور بیوی بچوں کے فون سننے بھی تو ضروری ہیں۔ارے نرے چوراُچکّے یہ رومی۔ حکومت کے ٹیکسوں پر موجیں مارتے ہیں۔یہ ہم میلانی ہیں جو خون پسینہ ایک کرکے حکومت کا ٹیکسوں سے گھر بھرتے ہیں۔“
میرا تو ہنستے ہنستے براحال ہوگیا۔
اور یقینا آپ کو نہیں پتہ ہوگا کہ یہاں بڑی زوردار قسم کی جنوبی حصوں سے علیحدگی کی تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ تو اب تصویر کا دوسرا رخ بھی سُنیے۔ روم والے بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔نخوت سے نتھنے پھیلاتے اور تبصرہ کرتے ہیں۔
”ارے ہٹاؤ اِن میلانیوں کو ہم تو ویسے ہی اِن ہندسوں میں اُلجھے،ہمہ وقت دو اور دوچار کے چکروں میں پھنسے، ایک سے گیارہ یورو بنانے والوں کو ردّ کرتے ہیں۔زندگی کا کوئی مزہ ہی نہیں ان کے ہاں۔ کمبخت مارے خود بھی پیسہ کے دُھن چکر میں اُلجھے ہوئے اور شہر کو بھی دُھند کے غبار میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔ہاں اتنا ضرور ہے ہمیں بھی اس کا اعتراف ہے کہ ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہیں اِس شہر میں۔میرٹ کا بھی یہ میلانی بہت خیال رکھتے ہیں۔مگر بھئی کاروبار جو کرتے ہیں۔ذاتی اور اپنے تو میرٹ کا خیال نہ رکھیں گے تو اور کیا کریں گے؟
دونوں کو ایک دوسرے سے ڈھیروں ڈھیر شکائتیں،کہیں غیر مہذب ہونے،کہیں روم کو ایک گندہ شہر سمجھنے اور کہیں میلانی خشک لوگ ہیں وغیرہ مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں کا بھی خوشدلی سے اعتراف کرتے ہیں۔
یہ سب سُننا میرے لئیے کتنی بڑی تقویت کا باعث تھا کہ میں جو ایسے ہی حالات کی زخم خوردہ تھی اور نہیں سوچتی تھی کہ ایسی صورت اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہوسکتی ہے۔
سکوائر روشنیوں سے جگمگانے لگا تھا کہ دھوپ اپنا بوریا بستر سمیٹ چکی تھی۔فیملی نے مجھے اپنا کارڈ دیا۔گھر آنے کی دعوت دی۔شام بہت خوشگوار رہی کہ مجھے نہ صرف انہوں نے اپنے ساتھ رکھا بلکہ میڑو سے مجھے اُس گاڑی میں بھی سوار کرادیا جس نے مجھے چیزاتے پہنچانا تھا۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں