4اکتوبر بروز ہفتہ مانگا رائیونڈ روڈ پر رائیونڈ کے نزدیک واقع روبی سپننگ ملز میں مزدوروں کے احتجاج کے دوران ملز کے ایڈمن مینجر کی موت واقع ہوگئی۔اب جو بات پھیلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ایڈمن مینجر کی موت کا سبب دل کا دورہ ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جہاں کسی بڑے کی گردن پھنستی ہو وہاں غریب کا خون رائیگاں جاۓ گا یا اس کے خون کے دھبے کسی اور کمزور کے دامن پر دکھائی دیں گے۔ غریب مزدوری نہ کرے تو کھاۓ کہاں سے؟اول تو مزدوری ملتی نہیں اگر مل بھی جاۓ تو محنت مزدوری کے دوران محنت کش کو جس سفاکانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتاہے وہ ناقابل بیان ہے۔
محنت کشوں کا ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیتوں،کھلیانوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مشقت کرتاہے جہاں مالکان کی جانب سے ان کے حقوق و سلامتی سے متعلق خیال تو خواب وخیال کی بات ہے بلکہ ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔
جبکہ دوسرا طبقہ سرکاری یا پرائیوٹ اداروں، کاروباری مراکز،کارخانوں میں ملازمت کرتا ہے ، سرکاری اداروں کی صورتحال توکچھ بہتر ہے اور وہاں بیٹھا مزدور بھی اوپر کی کمائی کے مزے لیتا ہے۔ مگر پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اکثر پریشان حال نظر آتے ہیں، جہاں ان سے آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ پندرہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے، جبکہ تنخواہ اس قدر کم دی جاتی ہے کہ ضروریات زندگی کے لیے ناکافی ر ہے، اور وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اورکچھ کمپنیاں تو دو چار ماہ کے بعد تنخواہ دینا بند کردیتی ہیں جس پر مجبوری میں ملازم بغیر تنخواہ لیے کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ لیبر کورٹ میں بھی اپنا مقدمہ لےکر بھی نہیں جاسکتا ہے کیوں کہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ دوسرا کورٹ کےلیے وکیل کی ضرورت ہوتی ہے اس کی فیس کہاں سے ادا کرے گا۔
حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے ۔محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔دوسری جگہ فرمایا کہ مزدور کی مزدوری ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردی جائے“۔مگر یہاں تو پسینے کے ساتھ ساتھ خون بھی خشک ہوجاتا ہے مگر سرمایہ دار کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ معاوضے کا نہ ملنا بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ دل دہلانے والی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات غریب مزدور کی عزت نفس بھی اپنے مالکان کے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے اتنی مجروح ہوتی ہے کہ وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو مقدم جانتے ہیں۔جب بھوک کی وجہ سے جسم وجان کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے تو پھر جانور بھی آدم خور ہوجاتا ہے مزدور تو پھر انسان ہے کہ جس کے ساتھ سینکڑوں ضروریات زندگی بھی جڑی ہیں۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ روبی سپننگ ملز کی طرف سے پچھلے پانچ مہینوں میں مزدوروں کو تنخواہ ہی نہیں دی گئی۔دو اڑھائی مہینے تنخواہ میں تاخیر کرنا تو اب اکثر ملز کا وطیرہ بن چکا ہے مگر یہاں تو پانچ ماہ سے مزدور بغیر تنخواہ کے کام کر رہےتھے۔کینٹین سے کھانا ادھار ملتا رہا تو مزدور بھی دو دن چار دن کے وعدوں پر پانچ مہینے گزارا کرتے رہے۔جب کینٹین کا بل ڈیڑھ کروڑ سے متجاوز ہوا اور ان کو بھی مارکیٹ سے ادھار ملنا بند ہوگیا تو کینٹین مالکان نے مزدوروں کو کھانا دینا بند کردیا۔جس پر مزدوروں نے ایڈمن مینیجر کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔جبکہ ملز کا مالک، منیجر اور دوسری انتظامیہ فیکڑی سے نکل گئے۔بات زبانی کلامی سے ہوتی ہوئی ہاتھا پائی اور پھر تشدد تک پہنچ گئی۔ایڈمن منیجر کے ساتھ ساتھ دوتین سکیورٹی گارڈ بھی تشدد کی لپیٹ میں آۓ۔ایڈمن منیجر جس کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہ پہلے ہی دل کی بیماری میں مبتلا تھا تشدد کی تاب نہ لا سکا اور ہارٹ فیل ہونے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس میں کون قصور وار ہے اور کون مجرم؟
کیا ایڈمن منیجر کے قتل کی ذمہ داری ملز مالکان پر عائد نہیں ہوتی؟
کیا لیبر کورٹ اور لیبر انسپکٹر اس قتل کے براہ راست مجرم نہیں ہیں؟
کیا خادم اعلیٰ صاحب پر اس قتل کی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی؟
جس وزیراعلیٰ کو اپنی ناک کے عین نیچے مزدوروں کا معاشی قتل عام نظر نہیں آتا اسے کیا حق ہے کہ وہ پورے پنجاب کا وزیراعلیٰ رہے؟
یاد رہے یہ ملز رائیونڈ سے تین کلومیٹر اور جاتی عمرہ سے صرف دس گیارہ کلومیٹر فاصلے پر ہے اگر وزیراعلیٰ صاحب اپنے گھر سے پندرہ بیس مربع کلومیٹر میں واقع فیکٹریوں اور ملوں میں مزدور سے ہوتی زیادتی سے واقف نہیں ہوسکتے تو جنوبی پنجاب میں تو عوام کے ساتھ جو ہوجاۓ کم ہے۔رائیونڈ کے اردگرد اور جاتی عمرہ سے متصل سندر انڈسٹریل سٹیٹ میں ایسی کون سی زیادتی ہے جو مزدوروں پر روا نہیں رکھی جاتی۔چائلڈ لیبر سے لے کر جبری مشقت تک اور کم تنخواہ سے لے کر جنسی حملوں تک سب کچھ ہوتا ہے مگر نہ تو خادم اعلیٰ کی آنکھیں کھلتی ہیں نہ ہی حکومتی اداروں میں کوئی ہلچل ہوتی ہے۔کہنے کو تو حکومت کی مقرر کردہ کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار ہے وہ بھی آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ جس میں مزدور کو چاۓ اور کھانا کھانے کا وقفہ بھی شامل ہے مگر جہاں ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہے وہاں تنخواہ دس ہزار ہے اور جہاں تنخواہ پندرہ ہزار ہے وہاں ڈیوٹی بارہ گھنٹے۔
ملز کے کاغذات میں تو ورکرز کو بونس بھی ملتا ہے اور منافع کا پانچ فیصد بھی مگر کہاں کس دیس میں؟لیبر قوانین بھی ہیں لیبر کورٹ بھی اولڈ ایج بینیفٹ کا ادارہ بھی مگر کیا یہ سب ادارے اپنے فرائض کماحقہ پورے کر رہے ہیں ؟
مزدور کی فلاح وبہبود کے لیے جتنے ادارے کام کر رہے ہیں سب گھر بیٹھ کے ان صنعتکاروں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور سب اچھا کی رپورٹ حکومت کو دے رہے ہیں۔دو دو تین تین ماہ تنخواہ نہ ملنا مزدوروں کے تحفظ کے لیے بناۓ گئے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں؟
ساتھ ہی پنجاب حکومت کی بدترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔صنعتکار اگر جبری مشقت لے تو ٹھیک اگر تنخواہ پوری نہ دے تو حق پر اگر مزدوروں کا معاشی قتل کرے تو بہترین بزنس مین اور حکومت الٹا اس کو بزنس کے بڑے بڑے ایوارڈ عطا کرے صنعتکار کے لیے ہر طرح کی آسانیاں پیدا کی جائیں۔سارے ملک کی بجلی ان صنعتکاروں کے کاروبار چلانے کے لیے وقف ہو۔بینک کا سرمایہ ان کو ایک دن کے نوٹس پر دیا جاۓ۔سینکڑوں سرکاری ادارے اور اہلکار ہر وقت ان کی خدمت کے لیے تیار رہیں۔
پھر بھی مزدور کو نہ تنخواہ وقت پر ملے نہ کوئی اور سہولت دی جاۓ۔اولڈ ایج بینیفٹ کے نام پر اربوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے ریکارڈ بناۓ جائیں اور اگر کوئی مزدور مر جاۓ تو یہی لیبر کورٹ اور سوشل سکیورٹی کے ادارے اس کے بقایا جات اور ڈیتھ گرانٹ وغیرہ میں ایسے تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں کہ مزدور کے پسماندگان اپنی عزت نفس کے ساتھ ساتھ اپنی سانسیں بھی گروی رکھ چکے ہوتے ہیں۔
اگر بھوک سے بلبلاتے بچوں کو دیکھ کر مزدور احتجاج کرے تو ریاستی مشینری فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔حکمرانوں کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے۔ ملکی مفاد کو سخت ترین نقصان کا اندیشہ سراٹھانے لگتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان پر قابض اشرافیہ میں سب سے طاقتور طبقہ یہی صنعتکار اور سرمایہ دار ہیں۔ان کے ایک اشارے پر حکومتیں بنتی بگڑتی ہیں۔ٹیکس پالیسی سے لے کر پاکستان کی معاشی پالیسی تک ان کا ہی راج چلتا ہے۔کسی سیاستدان کسی بیوروکریٹ کسی ادارے کی پشت میں اتنا دم نہیں ہے کہ ا ن کے مفاد کے خلاف ایک قدم بھی اٹھا سکے۔مزدوروں کی فلاح وبہبود کے سرکاری ادارے ہوں یا نیم سرکاری این جی اوز ان سب پر تسلط سرمایہ دار کا ہی ہے۔کبھی کروڑوں کے فنڈز اکٹھا کرنے والی این جی اوز کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو زیادہ تر این جی اوز کی مالکان انہی ملز مالکان کی بیویاں اور بیٹیاں ہی نکلیں گی۔یہ وہ خزانے کے سانپ ہیں جن کا تذکرہ پرانی کہانیوں میں ملتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو غریب کو اس کی محنت کا پورا عوضانہ بھی نہیں دیتے اور کبھی کبھار مزدوروں کی کمائی ہوئی دولت سے ان کی امداد کرکے خود کو سخی اور انسانیت کے ہمدرد بھی بنتے ہیں اور بیوقوف مزدور ان ہی لٹیروں کے نام کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔جب حکومت ان کے اشارے پر چلے گی توحکمرانوں کی ترجیحات عوام کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ سرمایہ دار کا تحفظ ہی ہوگا نہ کہ مزدور اور غریب کی ہمدردی۔
ہمارے ملک کے حکمران چاہے زرداری ہوں یا شریف یا پھر اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سب کے کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں جبکہ ملکی وقومی ادارے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔سرمایہ دار کو اپنی تجوری بھرنے سے غرض ہے مزدور کے حالات جیسے بھی ہوں۔اس کا چولہا ٹھنڈا رہے یا بچے بھوکے۔ہر فیکڑی میں دکھاوے کے حفاظتی انتظام کیے گئے ہیں مگر حقیقت میں ہر جگہ مزدور کی جان داؤ پر لگی ہوتی ہے۔اب تک سرمایہ داری کی خون آشام دیوی سینکڑوں مزدوروں کی بھینٹ لے چکی ہے اور ہزاروں عمر بھر کے لیے کسی نہ کسی جسمانی معزوری کا شکار ہوچکے۔بھٹو کے بناۓ مزدوروں کے تحفظ کے ادارے گردن تک کرپشن میں دھنسے ہیں۔ان کو مزدور کے حالات سے کوئی سروکار نہیں۔یہ فیکٹریاں کوئی عام جگہیں نہیں بلکہ سرمایہ دار شہزادوں کی طاقت کے مظاہر ہیں یہ ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور مضبوط ومحفوظ قلعے۔
جاتی عمرہ کی بغل میں سندرانڈسٹریل سٹیٹ کے نام سے سرمایہ داری کا مضبوط ترین قلعہ ہے۔جہاں نہ عام آدمی کا گزر ممکن ہے نہ قانون کا۔ان کی سکیورٹی ہی سب کچھ ہے اندر جو بھی ہوتا رہے کسی مداخلت کا کوئی خوف نہیں۔یہ ہے ریاست کے اندر اصل اور اوریجنل ریاست جہاں بس سرماۓ کا قانون چلتا ہے۔ساری سندر سٹیٹ میں مزدور کو حکومت کی مقرر شدہ تنخواہ کہیں نہیں دی۔حتیٰ کہ گورمے جیسی کمپنی بھی مزدور کو دس ہزار تنخواہ دیتی ہے۔اول تو سندر سٹیٹ میں مزدور کو فیکڑی مالکان رہائش دیتے نہیں جہاں رہائش ملی ہوئی ہے وہاں زیادہ تر مزدوروں کو فیکڑی کے اندر ہی سونا پڑتاہے۔نہ کھانا میعاری نہ رہائش نہ تنخواہ پوری نہ ہی حفاظتی انتظامات۔
خادم اعلیٰ پنجاب کے محلات کے چاروں طرف فیکڑی ایریاز ہیں جہاں لاکھوں مزدور دن رات اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔شدید سردی اور گرمی میں ناکافی سہولیات کے باوجود یہ محنتی لوگ اپنے اپنے مالکان کی ترقی کے لیے اپنی جوانیاں سرمایہ داروں پر نچھاور کر رہے ہیں اور پاکستان کی صنعتی ترقی میں اپنا حصہ پوری لگن اور ایمانداری سے ادا کرتے ہیں مگر ان کے گھروں میں بڑھتی بھوک اور فاقے دور ہونے کا نام نہیں لیتے۔وزیر محنت وافرادی قوت وزیراعلیٰ اور وزیراعظم صاحب آپ ان کے لیے اور تو کچھ بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ آپ کرنا نہیں چاہتے لیکن ان کی تنخواہ تو وقت پر دلوا سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ حکومت اور حکومتی ادارے مزدور کے استحصال میں برابر کے شریک ہیں۔بلکہ براہ راست شریک ہیں۔ڈیلی ویجز ملازمین کا تو کبھی کوئی پرسان حال نہیں رہا مگر اب تو مستقل ملازمین کی حالت زار بھی ڈیلی ویجز سے گئی گزری ہوچکی ہے۔مانگا رائیونڈ روڈ پر واقع ایک بڑی تولیے کی فیکڑی جو اپنے 1100 ملازمین میں سے 700 ملازمین کو ٹھیکیدار کے حوالے کرکے بیٹھی ہے اور ٹھیکیدارکا ان تمام مزدوروں کے ساتھ سلوک غلامی کے دور کی یاد تازہ کر رہا ہے۔مزدوروں سے 130روپے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ کی مد میں لیے جاتے ہیں۔رہائش انتہائی گھٹیا دی گئی ہے اوپر سے بجلی کے بل کی مد میں بھی اچھی خاصی رقم مزدور سے چھین لی جاتی ہے۔
چار چار سال سے کام کرنے والے مزدوروں کا سوشل سکیورٹی کارڈ نہیں بنا۔پندرہ ہزار تنخواہ میں بارہ تیرہ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے۔ہفتہ وار چھٹی نہیں ہے ضروری کام اور بیماری کی چھٹیاں بھی نہیں دی جاتی۔چار گھنٹے کام کروا کے چھٹی کردی جاتی ہے جس کا کوئ عوضانہ نہیں دیا جاتا۔تنخواہ عموماً بیس بائیس تاریخ تک لے جاتے ہیں بلکہ کمپنی کے ایمپلائز کو بھی سترہ تاریخ تک تنخواہ دی جاتی ہے۔کینٹین پر انتہائی ناقص اور گھٹیا کھانا دیا جاتا ہے۔جبکہ اپنے گاہکوں اور حکومت کو دکھانے کےلیے ان سب ورکرز کو کمپنی کا ایمپلائی ثابت کیا جاتا ہے۔اسی مالک کی سپننگ ملز میں دو دو ماہ تنخواہ نہیں دی جاتی۔
سوال یہ ہے کہ جب اردگرد رہنے والے عام لوگوں دکانداروں اور علاقے کے معززین کے علم میں یہ سب باتیں ہیں تو لیبر ڈیپارٹمنٹ اور حکومت کیوں کوئی کارروائی نہیں کرتے۔وہ این جی اوز جن کو پاکستان کے گئے گزرے دیہات میں عورت پر ہوتا ظلم نظر آجاتا ہے وہ سیکولر اور لبرل جن کو مدرسے میں قران پڑھتے بچے کو استاد کا مارا ہوا تھپڑ انسانیت کی تذلیل نظر آتا ہے۔وہ میڈیا چینلز کی ٹیمیں جو تحقیق وتفتیش کے نام پر غریبوں کی چادر چاردیواری کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔اپنی ہی بغل میں ہوتے اس جرم ظلم اور استحصال سے کیوں ناواقف اور لاعلم ہیں۔
دوچار ہزار کی ہیرا پھیری کرتے عام لوگوں کو میڈیا پر ننگے کرتے یہ نابغے کیوں کسی انڈسٹریلسٹ کی ریاست میں ہوتے جبر کی بات نہیں کرتے۔ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل میں پھنساتا یہ جرم کیونکر معاشرے کی نظروں میں معزز ہے۔گلی گلی این جی اوز کے دفاتر کھولتے نام نہاد سوشل ورکر اور معاشرے کے ہمدرد کیوں کسی مزدور یونین کو پنپنے نہیں دیتے۔ان سب سوالوں کا بس ایک ہی جواب ہے کہ ہرجگہ مفاد کا کھیل ہے اورمفاد ہمیشہ سرمایہ دار سے ملتا ہے۔سرمایہ دار ان سب لوگوں کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے بدلے یہ سب مل کے سرمایہ دار کے مفاد کے محافظ بنتے ہیں۔اور ہر جگہ کہتے پھرتے ہیں
خون چوس کے ماریں گے ہم جناب،
ہم نے سرماۓ کے تحفظ کی قسم کھائی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں