ہزاروں سال قبل جب انسان نے شعور سنبھالا تو حیران کردینے والے مظاہرِفطرت کو آسمانی پردے پر جگمگاتے دیکھا۔ ان میں سے سب سے حیران کن نظارہ سیارہ مریخ کا تھا، لال انگارے جیسا دکھائی دینے والا مریخ آج بھی آسمان پر سُرخ رنگ سموئے سب سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے آسمان پر جب مریخ کو چمکتا دمکتا دیکھا تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ یہ ہمارے نزدیک ہی کوئی دُنیا ہے جس پر ہوسکتا ہے کہ ہمارے جیسے انسان آباد ہو، یا پھر دریا اور ندی نالے بہتے ہوں، مریخ پر انسانی زندگی جیسے مفروضے کو لے کر کافی امیدیں تھیں مگر مریخ پر جانے والے ہمارے ننھے کھوجی rovers نے جب وہاں کی تصاویر بھیجیں تو اِن تصاویر نے ہماری ننھی خواہشات پر پانی پھیر دیا، کیونکہ وہاں ندی نالوں کے بہنے کی باقیات تو موجود تھیں مگر اُس سُرخ سیارے پر نہ تو بندہ ملا نہ ہی بندے کی ذات۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ خلائی مخلوق کو کھوجنے کی طلب ہمارے جینز میں شامل ہوچکی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
شاید اسی لئے کارل ساگان نے ایک بار کہا تھا کہ “کائنات میں اگر کوئی اور نہیں ہے، صرف ہم ہیں، تو یہ خلاء کا بے رحمانہ ضیاع ہے”
کائنات کی تاریکیاں اور ویرانیاں اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت ہے کہ جُوں جُوں انسان شعور کی منازل طے کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے ہمیں زمین سے باہر زندگی کی موجودگی کی امید بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیپلر ٹیلی سکوپ سے ملنے والے ڈیٹا کو کھنگالنے کے بعد سائنسدانوں کو لگتا ہے صرف ہماری کہکشاں ملکی وے میں ہی 5 ارب مقامات ایسے ہیں جہاں زندگی پنپ سکتی ہے، یاد رہے کہ یہ صرف ہماری کہکشاں ملکی وے کی بات ہورہی ہے، ہماری معلوم کائنات میں اندازاً 2000 ارب کہکشائیں ہوسکتی ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہاں یہ لکیر کھینچنا انتہائی ضروری ہے کہ خلائی مخلوق کو ہم بنیادی طور پر تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔
خلائی مخلوق کی پہلی قسم یک خلوی جاندار ہوسکتے ہیں، جیسا کہ زمین پر جرثومے وغیرہ ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زندگی کی سادہ سی قسم کے کائنات میں ہونے کے بہت زیادہ چانسز ہیں کیونکہ ہمیں علم ہے کہ جراثیم خلاء کے انتہائی سخت ماحول میں بھی سرائیوو کرسکتے ہیں بلکہ سائنس میں ایک نظریہ موجود ہے جسے پینس پرمیا تھیوری کہتے ہیں، یہ مکمل نظریہ ہی اس مفروضے کے گرد قائم ہے کہ زمین پر زندگی خلاء سے جرثوموں کی شکل میں پہنچی۔
بہرحال آگے بڑھا جائے تو خلائی مخلوق کی دوسری قسم میں ایسی مخلوق آتی ہے جو کثیر خلوی تو ہو مگر ذہین نہ ہو، جیسا کہ ہماری زمین پر انسان کے علاوہ دیگر جاندار ذہین نہیں ہیں کیونکہ یہ ایسے سگنلز اور آلات نہیں بنا سکتے، جن کے ذریعے دور دراز پیغام رسانی کی جاسکے۔ یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ کائنات ایسی مخلوقات سے بھری ہو، مگر چونکہ وہ ہم تک سگنلز نہیں بھیج پارہے، جس وجہ سے ہمیں ان کی موجودگی کا علم نہ ہو رہا ہو، لیکن ان کو کھوجنے کا ایک طریقہ موجود ہے، ہم کسی سیارے سے منعکس ہونے والی روشنی کا اسپیکٹرم دیکھ معلوم کرسکتے ہیں کہ وہاں کی فضاء میں کونسے عناصر کتنی مقدار میں موجود ہے۔ کیپلر ٹیلی سکوپ سیاروں کو کھوجنے کے ساتھ یہ کام بھی کررہی ہے، اب تک ملکی وے میں 4 ہزار سے زیادہ غیرشمسی سیارے کھوج لینے کے باوجود ہمیں ایسے نشانات کہیں نہیں ملے۔ یہ الگ بحث ہے کہ انسان نے بھی ریڈیو سگنلز چند سو سال قبل ایجاد کیے ہیں، اس سے پہلے اگر کوئی ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا تو زمین سے کسی قسم کا مصنوعی ریڈیو سگنل اُس مخلوق کو نہ مل پاتا، لہٰذا ممکن ہے کہ کائنات میں ذہین مخلوق موجود ہو مگر وہ سگنلز بھیجنے کی ٹیکنالوجی سے لیس نہ ہو۔
خلائی مخلوق کی تیسری قسم وہ ہے جسے ہم اس حد تک ذہین مانتے ہیں کہ وہ ایسے آلات بنا سکتی ہو جس کے ذریعے وہ ہم سے رابطہ کرسکے۔ کئی دہائیوں کی محنت کے باوجود ہم اب تک کائنات میں ایک بھی ایسا ستارہ دریافت نہیں کرسکے جہاں سے کوئی مصنوعی ریڈیو سگنل ہم تک آرہا ہو، اگرچہ ماضی میں ہمیں کئی ایسے سگنلز مل چکے ہیں جن کے متعلق ہمیں شک تھا کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے پیداکردہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن بعدازاں ایک ایک کرکے ان تمام سگنلز کے متعلق کوئی نہ کوئی توجیہہ ہمیں ملتی گئی۔
لہٰذا جب بھی کبھی اب آپ کے سامنے خلائی مخلوق کا ذکر ہو تو یہ تینوں کیٹگریز کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ عوام الناس عموماً “خلائی مخلوق” کا مطلب ہالی ووڈ فلمز میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہی لیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کہیں کبھی یک خلوی جرثومہ بھی مل گیا تو ان کو بھی خلائی مخلوق ہی گردانا جائے گا۔
اس ساری تمہید کے بعد اب ہم موجودہ واقعے کی طرف آتے ہیں۔گزشتہ چند روز سے ایک خبر گردش میں ہے، اسی خبر کے باعث مجھ سے کئی پلیٹ فارمز پر روزانہ کی بنیاد پر درجنوں بار یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ پی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ اڑن طشتری والے بیان کی حقیقت کیا ہے؟
یہ 23 جنوری 2021ء کی شام تھی، جب مجھے مغرب کے وقت ساڑھے پانچ بجے بہاولنگر کے آس پاس کے علاقوں سے اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ عوام الناس نے چاند کے نزدیک ایک روشن نقطہ دیکھا جو انتہائی سست روی سے حرکت کررہا تھا، مشرق سے طلوع ہونے والا یہ نقطہ شمال کی جانب پہنچ کر آہستہ آہستہ مدھم ہوا اور غائب ہوگیا، اسی نقطے کو بعدازاں پی آئی اے کے پائلٹ نے دیکھا اور کچھ دن پہلے بلوچستان کے علاقوں سے بھی یہی نقطہ دیکھنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
یہاں پر کچھ باتیں نوٹ کرنا انتہائی ضروری ہیں:
پہلی بات تو یہ تھی کہ یہ نقطہ حرکت کررہا تھا، ساکن نہیں تھا۔
دوسری اہم بات کہ جوں جوں سورج غروب ہوتا گیا تو یہ نقطہ دکھائی دینا بند ہوگیا یعنی اس نقطے کی اپنی روشنی نہیں تھی، نیز یہ بہت زیادہ اونچائی پر موجود نہیں تھا۔
تیسری اہم بات کہ یہ ایک وقت میں مخصوص علاقے میں ہی دکھائی دیا، یعنی یہ زمین کی سطح کے نزدیک ہی تھا۔
ان باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
یہ کوئی سیارہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کچھ سیارے عشاء تک اور کچھ تو رات بھر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔
یہ کوئی سیٹلائیٹ بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ سیٹلائیٹس کسی بھی علاقے میں پانچ منٹ سے زیادہ دکھائی نہیں دیتیں۔
یہ lenticular بادل بھی نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ بادل دیوہیکل ہوتے ہیں، ایک نقطے کی طرح دکھائی نہیں دیتے، نیز یہ رُکے ہوتے ہیں یعنی حرکت نہیں کررہے ہوتے۔
یہاں اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا مندرجہ بالا نکات سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی اڑن طشتری تھی جو پاکستان کا وزٹ کرنے پہنچی تھی؟ ایسا ممکن نہیں ہے! اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس اڑن طشتریوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اگر ہم بالفرض اسے اڑن طشتری مان لیتے ہیں تو دیگر بہت سی باتوں کو اس سے نتھی کرنا پڑے گا۔چلیں فرض کیجیے کہ ہم مان لیتے ہیں کہ ہمیں سمجھ میں نہ آنے والی یہ شے دراصل اڑن طشتری تھی تو اب کیا ہوگا؟ یہاں کچھ مزید سوالات پیدا ہوجائیں گے مثلاً
اگر وہ اڑن طشتری تھی تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی مخلوق ہم پر نظر رکھ رہی ہے، وہ مخلوق کہاں ہے؟
اگر واقعتاً وہ خلائی مخلوق اتنی ایڈوانس ہے کہ اپنے ستارے سے نکل کر زمین تک پہنچ چکی ہے تو ہمیں اب تک کئی دہائیوں کی ریسرچ کے باوجود ایک بھی ریڈیو سگنل کیوں نہیں مل پایا؟
وہ خلائی مخلوق اگر زمین کا وزٹ کرتی ہے تو صرف چند مخصوص لوگوں کو ہی کیوں دکھائی دیتی ہے؟ کسی سیٹلائیٹ یا ریڈار نے اس کو کیپچر کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ اڑن طشتریاں ہمیشہ اڑتی دکھائی کیوں دیتی ہیں؟ یہ کہاں لینڈ کرتی ہیں؟ کیونکہ ایریا 51 کو 2013ء میں declassify کردینے کے بعد وہاں سے منسوب تمام افواہیں دَم توڑ چکی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وہ مخلوق کسی سائنسی تحقیقاتی ادارے کے رابطے میں کیوں نہیں ہے؟
اس طرح کے بہت سے سوالات صرف اڑن طشتری کا دعویٰ مان لینے سے ہمارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اڑن طشتری کی موجودگی کے دعوے کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسکے برعکس اگر یہ کہا جائے کہ یہ سمجھ میں نہ آنے والی شے کوئی موسمیاتی غبارہ یا اڑنے والی لالٹین ہوسکتی ہے تو یہ دعوے اڑن طشتری کے مقابلے میں حقیقت کے زیادہ قریب تر دکھائی دیتے ہیں۔ جس وجہ سے فلکیات دان اڑن طشتری والے دعوے کو یکسر رد کردیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس شے کو کسی فلکیات دان نے اپنی ٹیلی سکوپ سے نہیں دیکھا وگرنہ اس کی حقیقت کے بارے میں ہمیں علم ہوجاتا، لیکن دیگر حقائق کو دیکھتے ہوئے فلکیات دانوں کی ایک بڑی تعداد اسے موسمیاتی غبارہ ہی کہہ رہی ہے کیونکہ موسمیاتی غباروں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو 39 کلومیٹر اونچائی تک پہنچ سکتی ہے، جبکہ ہوائی جہاز 16 کلومیٹر اونچائی تک اڑتے ہیں، لہٰذا اگر جہاز میں موجود پائلٹس نے اپنے سے اوپر کسی شے کو دیکھ لیا ہے تو اس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ موسمیاتی غبارہ ہوسکتا ہے، کچھ دنوں بعد بلوچستان کے علاقوں سے اس نقطے کو دیکھے جانے کی اطلاعات بھی موسمیاتی غبارہ ہونے کیجانب اشارہ کرتی ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس نقطے کی پُراسراریت پوری قوم پر چھائی ہوئی ہے۔ جب تک اسکے متعلق حتمی معلوم نہیں ہوجاتا تو قیاس آرائیاں کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے گا۔ اس سارے واقعے میں خوشگوار پہلو یہ ہے کہ ہماری قوم نے سیاسی اور سماجی مسائل سے نکل کر سائنسی تحقیقات پر توجہ دی ہے، اگر اسی بہانے قوم سائنس کو سیکھنا، سمجھنا اور پڑھنا شروع ہوجاتی ہے تو یہ یقیناً خلائی مخلوق کا ہم پر اور ہماری آنے والی نسلوں پر احسان ہوگا۔
پی آئی اے واقعے کے متعلق دیگر حقائق سمجھنے کے لئے ایک ویڈیو لیکچر
https://www.youtube.com/watch?v=LR0sQX-NM5k
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں