عالمی سرمایہ داری کا حالیہ بحران انتشار، تذبذب، معاشی و سفارتی ہیجان اور سب سے بڑھ کر عوام کے روزمرہ پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت، دانشور اور پروفیسر صاحبان بحران کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے بحران کی تما م تر ذمہ داری کرونا وائرس پر لاد کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحران کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری، افلاس اور بھوک کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر ممکنہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف اسی بحران کے دوران ارب پتیوں کے اثاثوں اور بینک بیلنس میں ہونے والے ہوشربا اضافوں اور قومی اور سامراجی ریاستوں کی طرف سے نظام کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو دیئے جانے والے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکجز نے بالخصوص ترقی یافتہ دنیا اور بالعموم سارے کرۂ ارض کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ شعور سماجی وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ سماجی وجود ہی شعور کا تعین کرتا ہے۔ حاوی دانش جتنا بھی زور لگاتی رہے عوا م اپنے ارد گرد ہونے والی بے وقت کی اموات، اشیائے ضرورت کی نایابی، ادویات کی قلت اور بیروزگاری کے سیلاب سے اہم اسباق اخذ کر رہے ہیں۔ انہیں اب ایک قطب پر دولت اور دوسری پر غربت کے انبار صاف دکھائی دے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ ان دونوں قطبین کے باہمی لازمی تعلق کو بھی سمجھ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ریاست کے ننگے جبر نے پوری کر دی ہے۔ تہذیب اوربردباری کا گہوارہ سمجھے جانے والے یورپ اور امریکہ میں ریاست اپنے تمام تر خونی پنجوں اور جبڑوں کے ساتھ بے نقاب ہو چکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تحریکیں انقلابات کی صورت اختیار کر رہی ہیں۔ قیادت کے بغیر ان میں سے زیادہ ترکا ردِ انقلاب میں بدلنا بھی اٹل ہے۔ حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عوام لا امتناعی وقت تک تحریکوں میں سرگرم نہیں رہ سکتے، اس لیے وہ جتنا زور تحریکوں کو کچلنے پر لگاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ زور سرمایہ داری کے درست متبادل نظریات کو غیر فطری، فروعی اور یوٹوپیائی ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈا ایک دفعہ پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک طرف عوام میں سوشلزم کی پیاس بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف حکمران انہیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ پیاس جتنی بھی ہو یہ مشروب زہر آلود ہے، پیو گے تو مر جاؤ گے۔ بھوک اور کرونا سے مرتے ہوئے عوام کے لیے یہ پروپیگنڈا مضحکہ خیز شکل اختیار کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو خود کئی دفعہ سوشلزم کے خلاف بات کرنی پڑی۔ آنے والے دنوں میں دیگر عالمی رہنما بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر سوشلزم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ عوام ان سے اتنی شدید نفرت کرتے ہیں کہ ان کا پروپیگنڈا عوام کو سوشلزم سے دور کرنے کی بجائے اور نزدیک کر رہا ہے۔
بحران نے جہاں ایک طرف طبقاتی خلیج کو بے پناہ وسعت دی ہے وہیں وہ تما م تضادات اور سوالات بھی دوبارہ ابھر رہے ہیں جن کواپنے اوائلِ شباب میں سرمایہ داری نے کم از کم یورپ اور ترقی یافتہ دنیا میں ختم یا کند کر دیا تھا۔ قومی، نسلی، لسانی اور مذہبی تفریق ایک دفعہ پھر اہم سیاسی موضوعات بن کر ابھر رہے ہیں۔ حکمران جب انہیں حل کرنے سے قاصر ہیں تو انہیں اس شکل میں دانستہ طور پر ابھار رہے ہیں کہ یہ نظام کے لیے سوالیہ نشان بننے کی بجائے نظام کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو ہی زائل کرنے کا سبب بن سکیں۔ شناخت کے سیاسی نظریات آج کل بالا اور خوشحال درمیانے طبقے کے مرغوب نظریات ہیں جنہیں سرکاری سرپرستی میں یا مختلف لبادوں میں عوامی تحریکوں میں انڈیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ ان نظریات کو اس لیے جدید یا جدید ترین ثابت کیا جاتا ہے تاکہ سوشلزم اور مارکسزم قدیم اور متروک لگنے لگیں۔ پسماندہ اور غریب ممالک میں بھی سوشلزم کے خلاف انہی نظریات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان خطوں میں قو می، نسلی اور مذہبی تفریق یہاں کے حکمران طبقات کبھی ختم ہی نہیں کر پائے تھے تو اس لیے اب یہ سلگتے ہوئے مسائل کہیں زیادہ شدت سے دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم خود کو صرف قومی مسئلے کے حل کی بحث تک ہی محدود رکھیں گے۔ مارکسی سیاست اور لٹریچر میں بھی قومی مسئلے کو ہمیشہ کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سوویت یونین کی قومی بنیادوں پر زوال پذیری کے بعدتو سوویت بیوروکریسی کے زیر اثر دنیا کی زیادہ ترکمیونسٹ پارٹیوں میں قوم پرستی اور سوشلزم کو ایک ہی نظریہ سمجھا جانے لگا تھا۔ یہ مارکسزم کے بنیادی تصورات سے قطعی رو گردانی تھی۔ سوویت یونین میں افسر شاہی کی اس نظریاتی غداری کے خلاف مارکس اور لینن کے نظریات اور طریقہ کار کے دفاع میں سب سے مؤثر اور توانا آواز لیون ٹراٹسکی کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سٹالن نے نہ صرف ٹراٹسکی، اس کے خاندان کے بیشتر افراد اور اس کے ہزاروں کامریڈوں کا قتل عام کیا بلکہ ٹراٹسکی کی زندگی میں اور اس کی شہادت کے بعد بھی سٹالنسٹ افسر شاہی نے دنیا بھر میں ٹراٹسکی کی کردار کشی کی انتہائی بہیمانہ مہم چلائی۔ اس کے کردار کے ساتھ ساتھ اس کے نظریات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ یہ روش آج بھی جاری ہے اور آج بھی بچے کھچے سٹالنسٹ لیڈر ٹراٹسکی پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان میں بھی ایسی بہت سی تحریریں اور ویڈیو پیغامات نشر ہوتے رہتے ہیں جن میں ٹراٹسکی پر لعن طعن کرنے کے لیے پہلے ایک خود ساختہ ٹراٹسکی ازم بتایا جاتا ہے، پھر اس کے بخیے ادھیڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بے شمار ایسی باتیں بھی ٹراٹسکی سے منسوب کر دی جاتی ہیں جنہیں اگر ٹراٹسکی خود بھی سن لے تو بلا جھجک اعلان کر دے کہ اگر یہ ٹراٹسکی ازم ہے تو میں قطعاً”ٹراٹسکائیٹ“ نہیں ہوں۔ بعض اوقات تو ٹراٹسکی کے ہی موقف کو اس کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
یوں تو ٹراٹسکی پر بے شمار الزامات لگائے جاتے ہیں مگر اس تحریر میں ہم صرف ایک مخصوص الزام کا ہی جواب دیں گے اور وہ الزام یہ ہے کہ ٹراٹسکی قومی سوال کا یکسر انکاری تھا اور یوں لینن اسٹ نہیں تھا۔ ٹراٹسکی کے بغض میں لینن کو قوم پرست ثابت کرنا بھی اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ٹراٹسکی نہ صرف یہ کہ قومی سوال کو تسلیم کرتا تھا اور اس اہم مسئلے پر لینن اور اس کی پوزیشن میں کوئی اختلاف نہیں تھابلکہ آج بھی قومی مسئلے کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف اور صرف لینن اور ٹراٹسکی کے چھوڑے گئے نظریاتی ورثے میں موجود ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اس تحریر میں ٹراٹسکی کی اپنی تحریروں کے حوالہ جات پر زیادہ اکتفا کریں۔
جدید اقوام کی تشکیل اور ترویج بورژوا جمہوری انقلابات سے عبارت ہے۔ تاریخ میں بغیر جمہوری انقلاب کے کہیں کوئی ایک بھی قومی ریاست تشکیل نہیں دی جا سکی۔ پسماندہ خطوں میں موجود قدیم اقوام ابھی تک تاریخی ارتقا کے قبائلی مرحلے پر موجود ہیں۔ قبائلی تعصبات اور تضادات کو فیصلہ کن انداز میں ختم کیے بغیر قومی انقلاب پایہئ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کو ایک ٹھوس مادی حقیقت میں بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر کموڈیٹی پروڈکشن اور صنعتی، فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ لیکن پسماندہ خطوں کے زیادہ تر قوم پرست رائج سماجی تعلقات کو ختم کیے بغیر قومی شعور کے فروغ کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ سوویت یونین کی موجودگی میں کسی حد تک ان تحریکوں میں ایک ترقی پسند عنصر غالب تھا مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر جمہوری انقلاب کے بغیر سامراجی مداخلت سے کسی قوم کو الگ خطہ سامراجی بھیک میں مل بھی جائے تو وہ آزادی نہیں ہو گی بلکہ غلامی کی بدترین شکل ہو گی۔ مختصر یہ کہ جن خطوں میں قدیم پسماندہ اقوام موجود ہیں اور وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی اپنے سے زیادہ طاقتور قوم کے زیر تسلط ہیں تو ان اقوام میں جدید قوم بننے یا قومی آزادی حاصل کرنے کی خواہش عین فطری ہے جس کی حمایت کی جانی چاہیے مگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے ان اقوام کو جمہوری انقلاب کے مرحلے سے بہر طور گزرنا ہو گا۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ جمہوری انقلاب آج کے عہد میں کیسے ممکن ہے یا ممکن ہے بھی یا نہیں؟ رومانوی قوم پرست اس سوال کو بائی پاس کرکے یا جمہوری انقلاب کی لاز میت سے کاٹ کر قومی آزادی کوایک یوٹوپیا میں بدل دیتے ہیں اور پھر مہم جوئی یا موقع پرستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ٹراٹسکی اس موضوع پر یوں رقمطراز ہوتا ہے:
”صرف مکار جہالت ہی قوم اور لبرل ڈیموکریسی میں کسی تضاد کو تلاش کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تاریخ کی تمام آزادی کی تحریکیں، ہالینڈ کی تحریکِ آزادی سے لے کر آج تک، بیک وقت قومی اور جمہوری کردار رکھتی ہیں۔ مظلوم اور منقسم اقوام کی بیداری، ان کی اپنے حصوں بخروں کو جوڑنے اور بیرونی قابض کو بھگانے کی جدوجہدسیاسی آزادی کی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہوتی۔ فرانسیسی قوم اٹھارویں صدی کے اختتام پر جمہوری انقلاب کے طوفانوں اور تھپیڑوں میں متشکل ہوئی تھی۔ اطالوی اور جرمن اقوام انیسویں صدی میں متعدد جنگوں اور انقلابات کے نتیجے میں نمودار ہوئیں۔ امریکی قوم کی مقوی بلوغت جسے آزادی کا بپتسمہ اٹھارویں صدی کے سماجی ابھار سے ملا تھابالآخر خانہ جنگی کے دوران شمال کی جنوب پر فتح سے مستحکم ہو گئی۔ نہ ہٹلر اور نہ ہی مسولینی نے قوم کو دریافت کیا۔ حب الوطنی اپنے جدید معنوں میں، یا یوں کہہ لیں کہ بورژوا معنوں میں انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ فرانسیسی لوگوں کا قومی شعور شاید سب سے زیادہ قدا مت پسند اور مستحکم ہے اور آج کے دن تک یہ جمہوری روایات کے منبع سے پھوٹتا ہے۔“ (قوم پرستی اور معاشی زندگی)
مسلسل انقلاب کی مسلسل توڑمروڑ
رومانوی قوم پرست اس سوال کو بھلے ہی جھٹلاتے ہوں مگر مارکسی حلقے جمہوری انقلاب اور قومی آزادی کو لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔ سوشلسٹوں کے مابین اس معاملے میں اختلافی نقطہ جمہوری انقلاب کے طریقہ کار اور قیادت کے کردار پر ہے۔ آیئے ایک دفعہ پھر مذکورہ بالا اسی اہم ترین سوال کو دہراتے ہیں۔ کیا پسماندہ اقوام کو بغیر جمہوری انقلاب کے حقیقی آزادی مل سکتی ہے، ہرگز نہیں۔ مزید یہ کہ کیا سامراج کے عہد میں پسماندہ خطوں میں یہ جمہوری انقلاب ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ٹراٹسکی نے نظریہ مسلسل انقلاب کی شکل میں تفصیلی اور سائنسی جواب دیا ہے اور اسی اہم ترین سوال پر ٹراٹسکی کے خیالات کی توڑ مروڑ شروع ہو جاتی ہے اور پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ٹراٹسکی کے خیال میں جمہوری انقلاب ناممکن ہے، لہٰذا وہ جمہوری انقلاب کے خلاف تھا۔ حقائق اس کے متضاد ہیں۔ ٹراٹسکی نہ صرف یہ کہ جمہوری انقلاب کو ممکن بلکہ لازمی قرار دیتا تھا مگر اس کے خیال میں پسماندہ اقوام میں اب جمہوری انقلاب ویسے ممکن نہیں ہے جیسا کہ یورپ میں وقوع پذیر ہوا۔ یورپ میں بورژوا طبقہ مجبور تھا کہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے، یعنی جاگیرداری کا تختہ الٹنے کے لیے جمہوری انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اسے پایہئ تکمیل تک پہنچائے۔ اگرچہ وہاں بھی اس نے شدید بزدلی اور ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیا تھا مگر بالآخر اسے اپنی مصنوعات کے لیے ایک منڈی درکار تھی جو اسے صرف قومی ریاست کی شکل میں میسر آ سکتی تھی۔ لیکن اب یورپ کی وہی قومی ریاستیں سامراجی ریاستوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور انہوں نے دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضے کر لیے ہیں۔ مالیاتی سرمائے کے پھیلاؤ نے اس سامراجی قبضے کو نئی شکل دی ہے، جدید تکنیک اور سائنس پر ان سامراجیوں نے مکمل اجارہ داری حاصل کر لی ہے جس کے باعث انہوں نے پسماندہ اقوام کی بورژوازی کی مسابقت کی صلاحیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ یعنی اب پسماندہ اقوا م کے سرمایہ دار ان کے دلال بن گئے ہیں اوروہ اپنی الگ منڈی کی خواہش اگر رکھتے بھی ہوں تو سامراجی سمجھوتوں، خیرات اور کمیشنز کی وصولی سے آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لیے ان کی جمہوری انقلاب کی قیادت کرنے کی صلاحیت مرچکی ہے جس میں اب کوئی ابنِ مریم بھی روح نہیں پھونک سکتا۔ لیکن ٹراٹسکی نے یہ کہیں نہیں کہا تھا کہ جمہوری انقلاب کی ضرورت اور اس کا امکان ہی ختم ہو چکا ہے۔ بلکہ اس نے وضاحت کی تھی کہ ان پسماندہ خطوں میں ایک اور طبقہ موجود ہے جو عین انہی معروضی حالات جن کے سبب بورژوازی یہ تاریخی فریضہ سر انجام دینے کی اہلیت کھو دیتی ہے، یہ طبقہ اپنی بقا کی خاطراس جمہوری انقلاب کو مکمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ طبقہ پرولتاریہ ہے۔ پسماندہ خطوں میں تعداد میں کم ہونے کے باوجود سرمایہ داری کے بحرانات اور حالات کے تھپیڑے اسے جمہوری انقلاب کا قائد بنا دیتے ہیں مگر اس کے لیے اسے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔ برسرِاقتدار آ کر اسے جہاں جمہوری انقلاب کے ادھورے فرائض مکمل کرنے ہوتے ہیں وہیں وہ اس انقلاب کو آگے بڑھاتے ہوئے سوشلسٹ اقدامات کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بصورت دیگر سامراجی طاقتوں سے جڑے مقامی سرمایہ دار طبقے، جس کے پاس تمام مالیاتی سرمائے، ذرائع پیداوار، نقل و حمل اور مواصلات کی ملکیت ہوتی ہے اور جن کے دم پر وہ پرولتاریہ کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے، پھر پرانا نظم وضبط بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یوں ٹراٹسکی کے بقول پسماندہ اور محکوم اقوام کو قومی آزادی دلوانے کا تاریخی فریضہ بھی پرولتاریہ کے کاندھوں پر ہی ہے۔ جہاں محکوم قوم میں پرولتاریہ کی تعداد بالکل ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں یہ حاکم قوم کے محنت کش طبقے کا فرض ہے کہ وہ محکوم اقوام کی آزادی کے حق کے لیے نہ صرف یہ کہ جدوجہد کرے بلکہ ان کی حمایت جیتتے ہوئے اپنے حکمران طبقے کا تختہ الٹے اورمظلوم اقوام کے آزاد رہنے کے حق کی سیاسی وآئینی تکمیل کرے۔ ٹراٹسکی انقلاب میں کسانوں کے کردار کا انکاری نہیں تھا بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اپنے مخصوص تاریخی ارتقا کے باعث وہ جمہوری انقلاب کی قیادت نہیں کر سکتے، یا تو انہیں بورژوازی کی قیادت میں متحد ہونا ہوتا ہے یا پھر پرولتاریہ کی رہنمائی میں انقلاب کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ ایک مربوط سائنسی نظریہ ہے جسے تشکیل دینے کے لیے ٹراٹسکی نے خالصتاً جدلیاتی طریقہ کار استعمال کیا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ٹراٹسکی کے ان نظریات کو یا تو دنیا بھر کے سوشلسٹوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا یا پھر اس کی روح کو یکسر مجروح کر دیا گیا۔ اپنی کتاب ”مسلسل انقلاب“ کے آخری باب کے اختتامیہ میں ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ ”ایسے ممالک جو سرمایہ دارانہ طرزِارتقا میں پیچھے ہیں، بالخصوص نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی ممالک، وہا ں جمہوریت اور قومی آزادی کے فرائض صرف پرولتاریہ کی آمریت کے ذریعے ہی مکمل ہو سکتے ہیں، یعنی پرولتاریہ محکوم قوم اور سب سے بڑھ کر کسانوں کے قائد کا کردار ادا کرے۔۔۔۔جمہوری انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار میں آنے والے پرولتاریہ کا سامنافوراً ایسے مسائل سے ہوتا ہے جن کا حل سرمایہ دارانہ ملکیت کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ جمہوری انقلاب یوں سوشلسٹ انقلاب میں بدل کر مسلسل انقلاب بن جاتا ہے۔“ نہ صرف ہمارے لبرل دوستوں بلکہ سٹالنسٹوں کو بھی بورژوازی سے اتنا انس ہے کہ بورژوازی کی قیادت سے انکار کو ہی وہ قومی آزادی اور جمہوریت سے انکار تصور کرتے ہیں اور اسی حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دونوں خود بورژوازی کی طرح محنت کش طبقے سے اتنے خوفزدہ اور متنفر ہیں کہ اس کے اقتدار کا سنتے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کیا سامراج کے عہد میں پسماندہ خطوں میں یہ جمہوری انقلاب ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ٹراٹسکی نے نظریہ مسلسل انقلاب کی شکل میں تفصیلی اور سائنسی جواب دیا ہے اور اسی اہم ترین سوال پر ٹراٹسکی کے خیالات کی توڑ مروڑ شروع ہو جاتی ہے اور پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔
الزامات کے برعکس، اپنی کسی بھی تحریریا تقریر میں ٹراٹسکی نے کبھی قومی آزادی یا جمہوری تحریک کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ اس نے اپنی صفوں میں موجود الٹرا لیفٹ رجحانات کی ہمیشہ سرزنش کی اور مظلوم اقوام کی حمایت جیتے بغیرانقلاب کے تصور کا ہمیشہ مذاق اڑایا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ”پرولتاریہ کی آمریت“ کے موقف پر بھی ہمیشہ ثابت قدم رہا۔ ایک ہسپانوی کامریڈ اینڈرس نِن نے کیٹالونیا کے معاملے پر ٹراٹسکی سے ایک خط کے ذریعے انتہائی اہم سیاسی سوالات کیے۔ اور بلقان کی چھوٹی ریاستوں کی آزادی کے تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے آئبیرئین جزیرہ نما میں آزادی کے ممکنہ منفی مضمرات کی نشاندہی کی۔ ٹراٹسکی اس کے جواب میں لکھتا ہے کہ:
”دونوں جزیرہ نماؤں کے موازنے کو مکمل کرنا ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ جب جزیرہ نما بلقان ترک اشرافیہ، افواج اور پروکونسلز کے جبر کے سائے میں متحد تھا۔ محکوم لوگ اپنے حاکموں کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ اگر اس وقت ہم ان محکوم لوگوں کے جذبات کے بالمقابل یہ موقف اختیار کرتے کہ ہم جزیرہ نما کی تقسیم کسی صورت نہیں چاہتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہم ترک پاشا اور گورنر کے خادمین اور ایجنٹس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہی بلقانی لوگ جو ترکی کے چنگل سے آزاد ہوئے تھے اب عشروں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی پرولتاری قیادت مسلسل انقلاب کا نقطہ نظر اختیار کر سکتی ہے۔ سامراجی شکنجے سے آزادی جمہوری انقلاب کا سب سے اہم عنصر ہے، اور آزادی کے فوری بعد ایک تسلسل میں پرولتاری انقلاب کے ذریعے سوویتوں کی جمہوری فیڈریشن کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ جمہوری انقلاب کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کی مکمل حمایت کرتے ہوئے حتیٰ کہ علیحدگی کی صورت میں بھی (یعنی عملی جدوجہد کی حمایت نہ کہ کسی وہم یا مغالطے کی)۔ ہم بیک وقت جمہوری انقلاب میں اپنی آزادانہ پوزیشن اختیار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ریاست ہائے متحدہ سوشلسٹ یورپ کے ایک لازمی جزو کے طور پر آئبیرئین جزیرہ نما کی سوویتوں کی فیڈریشن کے خیال کی تشہیر، تجویز اور تلقین کرتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں میرے نظریئے کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ کہنے کہ ضرورت نہیں ہے کہ میڈرڈ کے کامریڈوں کو بالخصوص اور ہسپانوی کامریڈوں کو بالعموم بلقانائزیشن کی بحث کے حوالے میں اس صوابدیدی طریقے کو استعمال کرنا چاہیے۔“ (آندرے نِن کو خط)
جاری ہے

بشکریہ لال سلام
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں