بہرام پورے کے لوگ سال میں دو فصلیں کاشت کرتے تھے ایک گندم تھی جب وہ پک کر تیار ہوجاتی تو کاٹنے کے بعد نصف اپنے گھروں میں رکھتے اور باقی بچ جانے والی گندم کو فروخت کردیتے جس سے حاصل ہونے والی رقم بابا جیون شاہ کے عرس میلہ پر چڑھاوے کیلئے رکھ دیتے تھے اگر ایسا نہ کرتے تو اگلے سال ساری فصل برباد ہوجاتی تھی اور گھر میں پڑے اناج میں کیڑے پڑ جاتے تھے یہ روایت وہاں کئی عشروں سے تھی اور سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں میں منتقل ہورہی تھی دوسری فصل باجرے اور مکئی کی تھی اس فصل کے وسط میں جیون شاہ کے مزار پر میلہ لگتا اور سجتا تھا اور چڑھاوے چڑھتے تھے مزار دیگر کئی حوالوں سے مشہور تھا ہر قسم کی بیماری سے شفا تو ملتی ہی تھی لیکن جس پر کسی جن بھوت کا سایہ ہو وہاں سات روز گزارنے سے اکثر مرد و خواتین چنگے بھلے ہوجاتے تھے۔
مزار پر آس پاس کے قصبوں کے علاوہ دور دراز سے بھی عقیدت مند آتے تھے یہاں اکثر اوقات میلے کا سماں رہتا تھا
میلہ ساون کی 19 تاریخ کو شروع ہوتا اور 9 دن جاری رہتا پنجاب بھر سے معروف گائیک قوالی، سیف الملوک،اور قصہ ہیر رانجھا پڑھنے آتے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ، جہاں نامور پہلوان اپنے فن کا مظاہرہ کرتے وہاں مختلف کرتب دکھانے والے بازیگر اور سرکس والے بھی 9 روز یہاں ڈیرہ جمائے رکھتے، پتا نہیں کیوں استاد بہادرے کے دل میں چور بیٹھ گیا تھا کہ اگر خوشی دوکاندار سے روبینہ کا ہاتھ مانگا تو انکار ہوجائے گا شہر بانو کو پیٹنے سے لیکر الگ ہونے تک استاد کی شہرت کو بڑا نقصان پہنچا تھا سوچ سوچ کر آخر تھک ہار کر اس نے روبینہ کے ساتھ بھاگنے کا ارادہ باندھ لیا مصیبت اب یہ تھی کہ پورا بہرام پور اور ارد گرد کے گاؤں استاد بہادر کو جانتے تھے وہ روبینہ کو لیکر وہاں سے کس طرح بھاگ سکتا اور کہاں جاسکتا تھا اس کا کوئی حل اس کے پاس نہ تھا روبینہ سے کوئی خاص محبت یا لمبے عہد و پیماں اس نے باندھے نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ اس کے حواسوں اور اعصاب پر ہر وقت سوار تھی، بابا جیون شاہ کا میلہ چند دن بعد سجنے والا تھا اسی دوران استاد نے ایک ترکیب لڑا لی، استاد روبینہ سے اب اس کنویں پر ملتا جہاں گاؤں کی عورتیں اپنے اپنے گھڑوں میں پانی بھرنے آتی تھیں یہ کنواں اسی رخ پر تھا جدھر مزار تھا استاد وہاں چلا جاتا عورتوں سے اٹھکھیلیاں کرتا کنویں سے پانی کے ڈول بھر بھر کر کھینچتا اور عورتوں کے گھڑوں کو بھرتا جاتا اور ساتھ روبینہ سے بات چیت کا موقع بھی ملتا رہتا خاموش عہد و پیماں سے بات بڑھ کر دھڑکنوں کو چھونے اور سانسوں کو محسوس کرنے تک پہنچ گئی ایک دن جب استاد روبینہ کے گھڑےکو پانی سے لبریز کررہا تھا تو روبینہ نے کہا بہادرے سن اگر تو نے کوئی حل نہ نکالا تو کل سے میں کنویں پر نہیں آؤں گی، پتا نہیں کیوں بہادر شاہ کو اب بھی محبت محسوس نہ ہوتی تھی وہ روبینہ کے متعلق شروع دن سے ایک مرد بن کر سوچتا تھا جو بدن کے پار دل میں اترنے کی سکت نہ رکھتا تھا اس نے کہا اچھا کل آنا تو ایک ترکیب بتاتا ہوں، اگلے روز جب روبینہ نے کنویں کا رخ کیا تو استاد کنویں کو جاتی پگڈنڈیوں پر بیٹھا ہوا مل گیا بہادرے روبینہ کو دیکھ کر اٹھ کر ساتھ ہولیا اور آہستگی سے اپنی ترکیب بتانے لگا، قصبوں دیہاتوں میں عام لوگ رہتے تھے لیکن وہاں باتیں عام باتیں بڑی جلدی خاص اہمیت اختیار کرلیتی ہیں آگ ہو اوردھواں نہ اٹھے یہ کیسے ممکن تھا چند دنوں سے دونوں کے متعلق چہ منگوئیاں ہونے لگی تھیں لیکن بات خوشی دوکاندار کے کانوں سے ابھی دور ہی تھی اور یہی ان کے لیے غنیمت تھی ، استاد نے روبینہ کو سمجھا دیا تھا کہ بابا جیون شاہ کے میلے سے دو دن پہلے وہ گھر میں اچھی طرح ڈرامہ کرے گی اور یہ ظاہر کرے گی کہ اس کو کوئی جن چمٹ گیا ہے استاد بہادرے نے اسے چند مکالمے بتلا دیے تھے کہ جب کسر ہو تو یہ والے مکالمے دہراتی رہنا، میلے سے دو دن پہلے کا کون انتظار کرتا روبینہ نے اگلے دن ہی شِکر دوپہر جب سب گھر والے کھانا کھا کر قیلولہ کرنے لگے تو اس نے اپنا سر چارپائی کی ادوائن میں پھنسا کر ہاتھ پاؤں الٹے کر لیے اور تقریباً مردانہ آواز میں زور زور سے قہقہے لگانے لگی روبینہ کی ماں اس کے نزدیک تھی وہی اس کو ادوائن سے نکالنے کیلئے بھاگی جیسے ہی اس نے روبینہ کو پکڑنا چاہا اس نے پوری قوت سے ماں کو اٹھا کر چارپائی پر پٹخ دیا اور ساتھ ہی اعلان کردیا کہ میں فلاں قبیلے کا جن ہوں جو اس پر عاشق ہو گیا ہوں اب مرنے کے بعد ہی چھوڑوں گا، خبردار کسی نے نزدیک آنے کی کوشش کی تو منہ سے جھاگ نکالتی روبینہ کے بلند ہوتے قہقہوں نے گھر میں سراسیمگی طاری کردی کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ نزدیک جاتا ، خیر کوئی گھنٹے بعد روبینہ نے حالت سنبھلنے کی اداکاری کی آنکھیں کھولتے ہوئے اپنے ارد گرد گھر کے اور چند اڑوس پڑوس کے لوگوں کو دیکھا جن میں مسجد کا مؤذن بھی تھا وہ اس پر منہ ہی منہ میں پڑھ کر کچھ پھونک رہا تھا اس نے گھبراہٹ سے پوچھا کک کیا ہوا کیوں اسطرح میرے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے ہو تو اس کی روتی ہوئی ماں نے اسے پیار سے بتایا دھی رانی تجھے کسر ہو گئی تھی کوئی باہرلی شے چمٹ گئی ہے جو تیری جان لے کر چھوڑے گے یہ سن کر روبینہ نے رونا شروع کردیا اور خوفزدہ آواز میں کہنے لگی ماں مجھے بچالو ماں بے چاری کیا کرسکتی تھی جو اس کو یاد تھا وہ پڑھ پڑھ کر پھونکتی جاتی تھی، اب روبینہ پر جن روزانہ کسی بھی وقت حاضر ہوتا اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر کہتا جو مجھے جیون شاہ کے مزار پر لیکر گیا اس کی سات نسلیں جلا کر راکھ کر دوں گا، جب بھی کسر ہوتی یا جن والے دورے پڑتے گھر والے بھاگ دوڑ کرکے کبھی مؤذن اور کبھی امام صاحب کو بلا لاتے ایک دفعہ تو جن نے امام صاحب کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچا تو امام صاحب جلال میں آگئے کہنے لگے آج اس جن کو جلا کر خاکستر نہ کیا تو میرا نام مولوی عبدالصمد نہیں انہوں نے اپنے عصا سے روبینہ کی وہ کھال اتاری کہ اگر اصل جن ہوتا تو روبینہ کو چھوڑ کر امام صاحب کو چمٹ جاتا روبینہ نے دیکھا کہ اسے بچانے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ رہا ویسے بھی ان سب کے نزدیک یہ سوٹے جن کی تکا بوٹی کررہے تھے وہ گھبرا گئی کہ مولوی صاحب کہیں آج میری آتما کو آزاد کرا کر ہی نہ دم لیں تو اس نے چیختے ہوئے جیسے اعلان کیا کہ مولوی آج تو میں جارہا ہوں لیکن اب تیرے گھر والوں کو نہیں چھوڑوں گا سو اس طرح مولوی صاحب نے ہانپتے ہوئے ڈنڈا پھینکا جو تقریباً ٹوٹ چکا تھا ساتھ روبینہ بھی آدھ موئی ہوگئی جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ بچا جس پر عصا بازی نہ کی گئی ہو، جن چمٹنے کی بات خوشی دوکاندار کے گھر سے نکلی تو چوک چوراہوں میں پھیل گئی، بہرام پورے کے لوگ آتے افسوس کرنے کے انداز میں حال پوچھتے اور مشورہ دیتے بابا جیون شاہ کا میلہ عنقریب ہے وہاں سے ہی جن ٹل سکتا اور کوئی اس کا حل نہیں خیر یہ بات خوشی بھی جانتا تھا فکر اس کو اس بات کی تھی کہ سات روز روبینہ کو اگر مزار پر چھوڑا تو ساتھ کون رہے گا اور گھر میں کون رہے گا دوکانداری کا حرج بھی تھا کیونکہ میلے میں ایک دوکان خوشی کی پکی ہوتی تھی جہاں وہ مختلف چیزیں فروخت کرکے خوب پیسے کماتا تھا، میلے سےایک دن پہلے خوشی دوکان والے کی بیوی اپنی بیٹی روبینہ کو لیکر مزار پر چلی گئی جہاں اس نے بقیہ نو ایام گزارنے تھے، مزار کے ارد گرد گارے مٹی سے بیس کے قریب چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے جن کے اوپر کھجور کے پتے ڈال کر چھت کا کام کیا لیا جا رہا تھا، وہاں عورتوں اور بچوں کا رش تھا یہ سب وہ لوگ تھے جن کو کسر ہوتی تھی اور ان پر جن گاہے بگاہے آن ٹپکتے تھے،حیرت کی بات تھی کہ جن نکلوانے والوں کی اکثریت عورتوں پر مشتمل تھی، مزار کے احاطے میں ایک گول چبوترہ تھا جس کے ارد گرد لوہے کی زنجیروں کے ساتھ چند عورتوں کو باندھا ہوا تھا ان پر بڑے بوڑھے اور خطرناک جن قابض تھے. وہاں کمرہ لینے کے لیے متولی کی خوب مٹھی گرم ہوتی تب کہیں جاکر حجرہ نصیب میں ہوتا اس پر روزانہ کا کرایہ الگ، روبینہ کے باپ نے پہلے سے ایک حجرہ ان کےلیے لے لیا تھا،
استاد بہادرے ان تمام باتوں سے لمحہ بہ لمحہ واقف تھا ایک دو بار تو وہ دیگر گاؤں والوں کی طرح رسماً خوشی کے گھر اس کی بیٹی کا حال احوال پوچھنے گیا تھا اور روبینہ کی کاردگردگی سے خوش تھا، استاد بہادرے کو اب ایک مسئلہ درپیش تھا کہ اس کے پاس اکلوتی سواری ایک پرانی سائیکل جو اس کے مرحوم باپ قادر شاہ کی نشانی تھی وہی تھی اور وہ ہر وقت اسی شش و پنج میں رہتا کہ بھاگنے کا کہہ تو دیا پر
آخر اس سائیکل پر کیسے اور کہاں بھگا کر لے جاؤں۔۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں